"ABA" (space) message & send to 7575

اُدھم سنگھ اور مٹی کی محبت…(1)

لندن میں ویسٹ منسٹر کے علاقے میں پہنچا تو ایک نام نے میرے قدم روک لیے۔ یہ تھا Caxton ہال۔ پہلے خیال آیا میں نے یہ نام کہیں سنا تھا۔ پھر سوچا شاید کسی کتاب میں اس کے بارے پڑھا ہو‘ لیکن مجھے اتنا ضرور یاد تھا کہ Caxton ہال تب سے سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز چلا آرہا ہے جب تاجِ برطانیہ کے اقتدار کا سورج کہیںغروب نہیں ہوتا تھا۔ ٹاپ کے جرنیل‘ بڑے سیاست دان‘ قومی رہنما‘ اور ترقی پسند مزدور لیڈروں سمیت اہم لوگوں نے یہاں منعقدہ تقریبات میں خطاب کیا ہے۔ یہاں کھڑے کھڑے مجھے اپنی مٹی کی خوشبو محسوس ہوئی۔ پھر اچانک خیال آیا‘ کیا یہ وہی جگہ ہے جہاں آٹھ دہائی پہلے سونم نامی شہر کے ایک نوجوان پنجابی لڑکے نے متحدہ پنجاب کے ساتھ ہونے والے سب سے بڑے ظلم کا بدلہ لیا تھا؟ میں نے فوراً اپنا سیل فون نکالا اور گوگل پر چیک کیا‘ میرا شک صحیح نکلا۔ آئیے تاریخ کے جھروکوں میں جھانک کر مٹی کی محبت میں انگلستان پہنچنے والے اس نوجوان کی داستانِ سرفروشی کے تعاقب میں چلتے ہیں۔
یہ سال 1919ء کی بات ہے‘ برٹش راج کے مقبوضہ پورے ہندوستان میں شدید غصے کی لہر دوڑ رہی تھی۔ گلی گلی‘ شہر شہر احتجاج ہو رہے تھے۔ وجۂ فساد‘ بدنامِ زمانہ Rowlatt Act تھا جو Rowlatt کمیٹی اوراس کے صدر سڈنی رائولیٹ کی سفارشات کے نتیجے میں بطورِ قانون پاس ہوا تھا۔ اس draconian قانون کے تحت فرنگی سامراج کی حکومت کو امن و امان قائم رکھنے کے نام پر کسی بھی ہندوستانی شہری کو بغیر وارنٹ گرفتار کرنے کا اختیار دے دیا گیا تھا۔ ایسے گرفتار شخص کو غیرمعینہ مدت تک جیل میں رکھا جا سکتا تھا اور اُسے ضمانت کا حق بھی حاصل نہ تھا۔ یہ متحدہ ہندوستان کے شہریوں کے انسانی حقوق اور civil liberties پر زبردست حملہ تھا اور غلامانہ زندگی کا بھیانک چہرہ بھی۔
اس قانون کے پاس ہوتے ہی قائد اعظم محمد علی جناح (جو خود ایک قانون دان اور بمبئی میں اپنی کامیاب پریکٹس چلا رہے تھے) نے Imperial Legislative Council سے فوراً استعفیٰ دے دیا جبکہ مہاتما گاندھی اور انڈین کانگریس پارٹی نے ملک گیر ہڑتال کی کال دے ڈالی۔ برطانوی مقبوضہ انڈیا کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام رائولیٹ ایکٹ کی شدید مخالفت کرتے نظر آئے۔ ایسے میں امرتسر کیسے پیچھے رہ سکتا تھا؟ امرتسر کئی اعتبار سے منفرد شہر ہے۔ 1920ء کی دہائی میں لاہور سے صرف 47 کلومیٹر پر واقع یہ شہر‘ ایک مصروف cosmopolitan سمجھا جاتا تھا۔ پنجاب بھر کے مختلف شہروں سے لوگ کام کاج کی تلاش میں یہاں آتے تھے۔ کاروباری سرگرمیاں عروج پر تھیںاور شہر بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ اس شہر کی مرکزی وجۂ شہرت‘ اس کے مرکز میں واقع ہرمندر صاحب ہے جو آج سے تقریباً 500 سال قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ سکھ مذہب کے پانچویں گرو ارجن دیو کی خصوصی دعوت پر عظیم صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ لاہور سے تشریف لے گئے اور اس عمارت کی بنیاد اُن کے ہاتھوں رکھوائی گئی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہرمندر صاحب کی دیواروں اور گنبد پر خالص سونا چڑھوایا اور یوں اسے ''گولڈن ٹیمپل‘‘ کہا جانے لگا۔ اکال تخت جو کہ ہرمندر صاحب سے متصل ہے‘ سکھ دھرم کا مقدس ترین مقام اور سکھوں کے لیے ویٹی کَن کی حیثیت رکھتا ہے۔
رائولیٹ کے خلاف امرتسر میں کہرام مچا ہوا تھا۔ حالات سویلین قابض قیادت کے ہاتھوں سے نکلے تو برٹش فوج طلب کرلی گئی۔ ساتھ ہی جنرل ڈائر کو امرتسر سنبھالنے کی ہدایت مل گئی۔ ڈائر نے فوری طور پر امرتسر پہ کرفیو نافذ کردیا اور ہر طرح کے مظاہروں اور پبلک اسمبلیز پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔ 13 اپریل 1919ء کو پنجاب کے مختلف شہروں سے آئے ہزاروں لوگ ہرمندر صاحب میں اپنی عبادات میں مشغول نظر آرہے تھے مگر تھوڑی دیر بعد ہی یہ لوگ آہستہ آہستہ اندرون امرتسر کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہرمندر صاحب کے قریب واقع جلیاں والا باغ میں جمع ہونا شروع ہوگئے جہاں بڑی تعداد میں دوسرے شہری بھی پہنچ گئے‘ یہ بیساکھی کے تہوار کا موقع تھا۔ جب جنرل ڈائر کو اس اجتماع کی خبر ملی تو وہ اپنے لائو لشکر کو ساتھ لیے بذاتِ خود جلیاں والا باغ ''آپریشن‘‘ کی نگرانی کرنے پہنچ گیا۔
جنرل ڈائر کے حکم پر فوجی اہلکاروں نے نہتے مردوں‘ خواتین‘ بزرگوں اور بچوں پر گولیوں کی برسات کر ڈالی اور ammunition ختم ہونے تک خون کی ہولی جاری رکھی گئی۔ 1500 سے زائد بے گناہ افراد لقمۂ اجل بن گئے جبکہ ایک ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ اتنے بڑے قتل عام پر متحدہ پنجاب کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ آپ نے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا ہوگا کہ جلیاں والا باغ قتلِ عام کے بعد نوجوان بھگت سنگھ اپنے گائوں بنگا ضلع لائل پور سے امرتسر جا پہنچا اور جلیاں والا باغ سے خون میں سینچی مٹی کو اپنے ساتھ لے کر واپس آ گیا۔
برٹش راج کے خلاف اسی دن بھگت سنگھ نے ''انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنی زندگی کو آزادیٔ ہند کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر یہ بات شاید سب کو معلوم نہ ہوکہ ایک اور نوجوان (جو کہ بھگت سنگھ کا مداح اور جیل کے زمانے کا ساتھی تھا) نے بھی اُسی روز جلیاں والا باغ قتلِ عام کا بدلہ لینے کی قسم کھائی تھی۔ یہ لڑکا جلیاں والا باغ سانحے کا چشم دید گواہ ہونے کے ساتھ ساتھ‘ وطن پرست‘ انقلابی اور بڑا نڈر تھا۔ یہ لڑکا صرف چھ سال کا تھا کہ اس کے والدین جہانِ فانی سے کوچ کرگئے اور اس کا تمام بچپن امرتسر کے ایک یتیم خانے میں گزرا تھا۔ اس نوجوان کا نام سردار اُدھم سنگھ تھا۔ جلیاں والا باغ نے جیسے یتیمی کی سختیاں جھیلنے والے جواں سال اُدھم پر اُس کا مقصدِ حیات واضح کردیا تھا۔ دوسری جانب برطانوی حکومت نے جنرل ڈائر کے خلاف کوئی ایکشن لینے کے بجائے اُسے بے گناہ شہریوں کے قتلِ عام سے کلین چِٹ دے دی گئی۔ یہاں تک بس نہ کی بلکہ برطانوی ہائوس آف لارڈز نے جنرل ڈائر کو قانونی معاونت دینے کے لیے ایک فنڈ کا آغاز بھی کیا اور اُسے ''برطانوی سلطنت کو بچانے‘‘ پر خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان سب مظالم نے اُدھم سنگھ کے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑے۔ اس لیے اُدھم سنگھ نے بھگت سنگھ کی انقلابی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔ آزادی کی جدوجہد میں جب بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تو اُدھم سنگھ ''غدر‘‘ پارٹی کا ممبر بن گیا۔ برٹش راج مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں 1927ء میں حکومت نے اُدھم سنگھ کو دھر لیا اور اُسے پانچ سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ جب پنج سالہ سزا پوری ہوئی تو اُدھم سنگھ نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرلی۔
اُدھم سنگھ کے ذہن میں مٹی کی محبت نے وہ چراغ روشن کیا جس نے آزادی کی لَو کو شعلے میں تبدیل کردیا۔ اُدھم سنگھ انگلستان ایسا پہنچا کہ جس کے بعد اُس کے قدم اپنی زمین کی مٹی پر کبھی نہیں پڑے۔ اُدھم سنگھ پر روز و شب مٹی کا قرض اُتارنے کی دُھن سوار تھی۔
لَو دیتی ہوئی رات سخن کرتا ہوا دن
سب اُس کے لیے جس سے مخاطب بھی نہیں تھے
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اُتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں