"ABA" (space) message & send to 7575

Imran Khan in Russia...(1)

سال1960، مئی کی پہلی تاریخ، رات کا اندھیرا بڑھنا شروع ہوا تو امریکی ایئرفورس کا ایک U2 طیارہ پشاور کی ایک ایئربیس سے ٹیک آف کرتا ہے۔ U2 ایک سنگل انجن ایئر کرافٹ ہے جسے جاسوسی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ طیارہ بلندی سے فوجی جائزے (Recon) کا کام بخوبی سرانجام دیتا ہے۔ طیارے کے اندر فرانسس گیری پاورز سوار ہیں، جن کا تعلق سی آئی اے کے U2 پروگرام سے ہے۔ طیارہ ایک خفیہ جاسوسی (Reconnaissance) مشن کے تحت سوویت یونین کے اندر مختلف سرکاری املاک، تنصیبات اور اہم ٹارگٹس کی تصاویر لے گا۔ اِن اہم ترین ٹارگٹس میں ICBM یعنی Intercontinental Ballistic Missile Sites بھی شامل ہیں۔
پاورز کا جہاز اُڑان بھرتا ہے اور آہستہ آہستہ اپنے تمام ٹارگٹس کی طرف پیش قدمی شروع کرتا ہے۔ سوویت ڈیفنس فورسز کئی دنوں سے ہائی الرٹ پر ہیں اور دشمن کے جاسوسی جہازوں کو گرانے کے لیے بے تاب بھی۔ پاورز کا جہاز جونہی سوویت ایئر سپیس میں داخل ہوتا ہے تو ایئر ڈیفنس اُس کے تعاقب میں لگ جاتی ہے۔کوسولینو کے مقام کے قریب، میخائل ورونوف کی بیٹری سے فائر ہونے والا سرفس ٹو ایئر میزائل پاورز کو کریش لینڈنگ سے بچنے اور جہاز سے ایجیکٹ کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ زمین پر پہلے ہی سے موجود، سوویت فوج پاورز کا استقبال کرتی ہے اور اسے اپنی حراست میں لے لیتی ہے۔
اس واقعے نے امریکہ سوویت تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں سرد جنگ میں مزید تیزی آئی۔ امریکی صدر آئزن ہاوَر اور روسی سربراہ نیکیٹا خروشچیف کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات بے معنی ثابت ہوئے، جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں امریکی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا۔ ساتھ ساتھ اِس واقعے نے پاکستان اور سوویت یونین میں بد اعتمادی کی گمبھیر فضا قائم کردی۔ دوسری جانب یہ واقعہ ماسکو کو دہلی کے اور قریب لے گیا۔ یہی خلیج کئی سابقہ پاکستانی حکومتوں نے دور کرنے کی کوشش کی، مگر ماسکو نے اسلام آباد کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا۔
صدر ٹرمپ کی افتتاحی تقریب (inauguration) کے بعد امریکہ کا اس ریجن پر کنٹرول بتدریج کم ہوتا چلا گیا؛ چنانچہ اِس خلا کو عوامی جمہوریہ چین نے پُر کرنا شروع کردیا ہے۔ امریکی صدر بائیڈن کی آمد نے معاملات کو مزید پیچیدہ بنا ڈالا ہے۔ امریکہ کے غیر سنجیدہ رویے، افغانستان سے شرمناک انداز میں امریکی فوج کا انخلا اور آئے روز دفترِ خارجہ کے ترجمانوں کی پاکستان مخالف بڑھک بازی نے پاکستان کو نئے ایوینیوز، پارٹنرشپ اور علاقائی alliance کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر چھوڑا ہے۔ ایسے پس منظر میں وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دورۂ روس تاریخی اور عالمی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قائد ملت لیاقت علی خان کو 1950 میں ماسکو کے دورے کی دعوت موصول ہوئی تھی۔ جب اِس دعوت نامے کی خبر وائٹ ہائوس تک پہنچی تو فوراً بے چین امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جلدی میں قائد ملت کو خط لکھ کر امریکی دور ے کی دعوت دے دی۔ لیاقت علی خان نے ماسکو کی دعوت کو رد کیا اور امریکہ کی دعوت قبول کر لی۔ صدر ٹرومین کی ذاتی Ferry نے لیاقت علی خان کو لندن سے واشنگٹن پہنچایا۔ یوں پاکستان نے امریکہ اور اِس کے علاقائی عزائم کی طرف اپنا جھکائو واضح کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں پاک سوویت تعلقات میں قدرے بہتری آئی تھی جس کے نتیجے میں سوویت یونین نے یہاں پاکستان سٹیل ملز لگائی۔
میاں نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں ماسکو یاترا کی، مگر سفارتی سطح پر کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے، یہ دورہ سیر سپاٹا ثابت ہوا۔ مشرف اور زرداری ادوارِ حکومت میں روسی اور پاکستانی حکام کے کئی میل ملاپ ہوئے مگر امریکہ کے ڈو مور، ڈرون حملوں اور دہشت گردی کی لہر میں اُلجھے پاکستان نے عالمی فورمز میں امریکی موقف کی تائید مسلسل جاری رکھی۔ پاک روس تعلقات کے اِس تاریخی پس منظر میں کیا عمران خان کے دورۂ روس سے کوئی منفرد یا مختلف نتیجہ حاصل ہوگا؟ یہ سوال پاکستان کے اندر اور باہر دونوں جگہ اہمیت کا حامل ہے۔
اِسی لیے عالمی میڈیا نے عمران خان کے اِس دورے پر گہری نظر رکھی۔ چین اور بھارت کی بڑھتی کشیدگی، گلوان ویلی میں بھارتی فوجیوں کی شرمناک شکست اور چین کے عالمی اثرورسوخ نے بھارت کے علاقائی پاور ہائوس بننے کے خواب کو چکنا چور کردیا ہے۔ ایسے میں مودی سرکار نے امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور مِل جل کر چین جیسی اُبھرتی ہوئی سپر پاور کے خلاف نئے اتحاد پر کام شروع کررکھا ہے۔ پاکستان کے ازلی دشمن کی امریکہ سے بڑھتی قربتیں پاکستان کیلئے تشویشناک تھیں، اِس لیے پاکستان نے بھی مختلف سفارتی آپشنز پر غور وفکر اور ایکشن شروع کر دیا۔ وزیر اعظم کے دورے کے حوالے سے بیجنگ میں بھی خاصی گہما گہمی ہے۔
پچھلے چند ہفتوں سے یوکرائن روس کشیدگی کے باعث یوکرائن کا دارالحکومت Kyiv اور ماسکو تمام بین الاقوامی چینلز اور جریدوں کی سرخیوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ ایسے اہم وقت پر پاکستانی وزیر اعظم کا دورہ کیا معنی رکھتا ہے؟ کیا پاکستان یوکرائن کے معاملے پر روس کا حامی ہے؟ کچھ ناقدین نے تو اِس دورے کی ٹائمنگ کو بھی ناسازگار قرار دیا ہے۔ اِن تمام شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے وزیر اعظم نے روسی چینل RT کو خصوصی انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے واضح کر دیا کہ اُن کا دورہ یوکرائن کی کشیدگی سے پہلے سے شیڈولڈ تھا۔ وزیر اعظم نے یوکرائن اور روس سے تمام معاملات پُرامن طریقے سے، ڈائیلاگ کے ذریعے حل کرنے پر بھی زور دیا۔ عمران خان نے اپنے انٹرویو میں تمام right notes ہٹ کیے اور اپنے دورے سے قبل ہی سفارتی ماسٹر سٹروک کھیلا۔ وہ یہ کہ نہ تو پاکستان کو کسی conflict میں شامل کیا، نہ ہی ملکی مفادات سے پیچھے ہٹے، اور نہ ملکی خود مختاری کا سودا کیا۔
اِس ساری صورتحال میں بھارتی میڈیا تذبذب کا شکار ہے۔ کچھ دن قبل وزیر اعظم عمران خان اور روسی صدر پوتن بیجنگ وِنٹر اولمپکس کے سلسلے میں چینی دارالحکومت میں موجود تھے۔ باضابطہ ملاقات نہ ہونے پر بھارتی تجزیہ (ناکاروں) اور اینکر پرسنز نے خوب جشن منایا۔ ایک تجزیہ کار بولے کہ ماسکو کبھی پاکستان سے قربت کی غلطی نہیں کرے گا کیونکہ مودی جی کا رعب ہی اتنا ہے۔ کسی نے کہا: پاکستان اب مکمل طور پر تنہا ہو چکا ہے اور چین کے علاوہ اِس کا خطے میں کوئی دوست نہیں۔ جونہی کریملن نے عمران خان کے دورہ ِروس کی خبر کی تصدیق کی، بھارتی چینلز پر صفِ ماتم بچھ گئی۔ بھارتی ٹاک شوز پر تو ایک ہی بات کا چرچا ہے، کیا پاکستان اور روس گوادر پورٹ کے حوالے سے کسی قسم کی شراکت داری تو نہیں کریں گے؟ اگر چین، روس اور پاکستان ایک پیج پر آ گئے تو بھارت کے مفادات کا کیا ہو گا؟ کیا مودی سرکار کی خارجہ پالیسی فیل ہو گئی؟ اِن باتوں کا جواب مستقبل قریب میں ہمیں مل جائے گا۔ دیکھتے ہیں، وزیر اعظم کا دورہ پاکستان کے لیے کون سے نئے دروازے کھولے گا؟ In the meantime، بھارتی حکومت و تجزیہ کارو! تم نے گھبرانا نہیں! (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں