چند ماہ قبل لاہور میں لارنس روڈ پر مولانا سمیع الحق کی سربراہی میں ایک اجلاس کاانعقاد ہواجس میں سندھ سے تعلق رکھنے والے مفتی عثمان یارخان سمیت مختلف مکاتب فکر کے جید علماء نے شرکت کی ۔مفتی صاحب مسکراتے ہوئے چہرے والے نفیس طبیعت کے ملنسار انسان تھے ۔ان سے زیادہ تفصیل سے بات چیت تو نہ ہوسکی لیکن میں ان کی زندہ دلی اور گرم جوش طبیعت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔چند دن قبل اخبارات کے صفحہ اول پر ان کی ٹارگٹ کلنگ کی خبر پڑھ کر انتہائی تشویش ہوئی ۔مولانا سمیع الحق نے مفتی عثمان یارخان کے قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ملک کو اس جہنم سے باہر نکالنے کے لیے حکمران اپنا صحیح کردار ادا کریں ۔مفتی عثمان کے قتل کے فوراً بعد بنوں ، راولپنڈی میں ایف سی اور پاک فوج کے نوجوانوں کوٹارگٹ کیا گیا اور کل مستونگ میں ایک بس پر خودکش حملہ کیا گیا، تین دنوں میں 100سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے ۔ ہم آئے روزاس قسم کے واقعات پڑھتے ہیں لیکن حکمران ان واقعات کی روک تھام میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ان واقعات کا آغاز جنرل پرویز مشرف کے دورمیں اس وقت ہوا جب ان کے دورمیں امریکہ نے افغانستان پر حملوں کے لیے پاکستانی سر زمین کو استعمال کرنے کا مطالبہ کیا ،اس وقت نمایاں مذہبی جماعتوں نے اس معاملے پرشدید تحفظات کا اظہار کیا تھا اور امریکی جنگ میں شمولیت کو ملک کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا تھا، لیکن جنرل مشرف کا استدلال یہ تھا کہ ہم امریکی دباؤ کا مقابلہ نہیں کرسکتے اس لیے امریکہ کو اڈے فراہم کرنا ہماری مجبوری ہے ۔برادر اسلامی ملک پر حملہ کرنے کے لیے اپنی سرزمین کو استعمال کرنے دینا کسی بھی طور پر درست قدم نہیں تھا لیکن طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد اس بات پر مطمئن تھے کہ اڈے فراہم کرنے سے امریکہ سے جان چھوٹ گئی ہے ۔ وہ اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ اس قسم کے اقدامات سے کبھی بھی مثبت نتائج نہیں نکلتے اور امریکہ کے مخالفین پاکستان کے اس تعاون پر کسی بھی طور پر مطمئن نہیں ہو سکتے ۔بہت سے دوراندیش مذہبی رہنماؤں کو اس حقیقت کا ادراک اور احساس تھا کہ پاکستان بھی بتدریج اس جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا ۔ان مذہبی رہنماؤں نے مستقبل کے خطرات سے قوم کو آگاہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے بیانات اور گفتگو صدابصحرا ثابت ہوئی اور جنرل صاحب نے وہی کیا جو ان کی سمجھ میں آیا ۔
قبائلی علاقوں میں بسنے والے پختونوں کے بہت سے قریبی رشتہ دار اور تعلق دارافغانستان میں آباد تھے؛ چنانچہ انہوںنے امریکی حملوں کے بعد افغانیوں کی مکمل حمایت کی اور امریکی دشمنی مول لے لی۔امریکہ نے اپنی جنگ کا دائرہ قبائلی علاقوں تک بڑھا لیا اور افغانستا ن کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر بھی ڈرون حملے کرنے شروع کر دیے ۔ پاکستان کے حکمرانوں نے تو اپنی دانست میں پاکستان کو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن امریکہ سے کیا جانے والا تعاون پاکستان کو مہنگا پڑا اور پاکستان کے قبائلی علاقے بھی امریکی یلغار کا نشانہ بن گئے۔ ان ڈرون حملوںکے نتیجے میں جہاں قبائلی علاقوں میں امریکہ کے خلاف نفرت نے جنم لیا وہیں ریاست پاکستان کے خلاف بھی معاندانہ جذبات پیدا ہونا شروع ہو گئے ۔اس نفرت اور عناد کے نتیجے میں بعض جنگجوؤں نے پاکستان کے اداروں اور اہم شخصیات کو بھی ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا ۔ریاست پاکستان کا استدلال تھا کہ ڈرون حملوں میں پاکستان براہ راست ملوث نہیں ہے ، اس لیے قبائلی جنگجوؤں کو ریاست پاکستان کو نفرت اور انتقام کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے جبکہ جنگجوؤں کا خیال تھا کہ حکومت پاکستان کو ڈرون حملوں کی روک تھام کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے ۔حکومت ڈرون حملوں کی روک تھا م میں کامیاب نہ ہوسکی اور قبائلی علاقوں میں باغیانہ افکار کی نشوو نما ہوتی رہی ۔اس باغیانہ سوچ کے حوالے سے رائے عامہ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ایک حصے کا یہ ذہن تھا کہ باغیوں کو سختی کے ساتھ کچل دیا جائے، ان کا یہ کہنا تھا کو جو عناصر ریاست کی رٹ اور حاکمیت کو تسلیم نہیں کرتے ان کو سختی سے کچل دینا چاہیے۔اس کے برعکس دوسرے حصے کا یہ کہنا تھا کہ انتقام اور تشدد کی اس لہر کو روکنے کے لیے مذاکرات کا راستہ اختیارکرنا چاہیے اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہونے والے بڑے پیمانے پر جانی ضیاع کی روک تھا م کے لیے حکومت کو مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے ۔مذاکرات کے حامی بھی حکومت کی رٹ کی بحالی پریقین رکھتے تھے لیکن جو حکومت عوام کے جان اور مال کا تحفظ نہیں کر سکتی وہ باغیانہ اذہان کو اپنی اطاعت کا سبق کس طرح پڑھا سکتی ہے ۔
اس ساری کشمکش کا پاکستان دشمن طاقتوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور دہشت گردی کو فروغ دینے کے لیے قِسم قِسم کے نیٹ ورک اور حربے اختیار کیے۔ پاکستان دشمن طاقتیں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھیں کہ خانہ جنگی کے اس ماحول میں ریاست اور اس کے اداروں کی توجہ ان کی طرف مبذول نہیں ہو گی اور زیادہ تر الزامات جنگجوؤں پر ہی عائد کیے جائیں گے ۔
میاں نواز شریف صاحب کو حالیہ انتخابا ت میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ، عوام کی توقع تھی کہ قیام امن کے لیے نمایاں کردار ادا کریں گے لیکن مقام افسوس ہے کہ میاں صاحب کے برسراقتدار آنے کے بعد ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔ میاں صاحب اس حوالے سے گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں ۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں قومی اتفاق رائے سے طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ۔اس اعلان کو طالبان راہنما حکیم اللہ محسود نے بھی خوش آمدید کہا لیکن جس دن مذاکرات ہونے جارہے تھے اس روز وہ میران شاہ میں ایک ڈرون حملے کا نشانہ بن گئے ۔ میران شاہ ڈرون حملے کے بعد ملک بدامنی اور دہشت گردی کی ایک نئی لپیٹ میں آگیا۔ اس لہرکے نتیجے میں تمام طبقات زندگی اور ہر مکتب فکر کے نمایاں لوگ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔۔۔مساجد ،گرجا گھر اور عبادت گاہوں پر بھی مسلسل حملے کیے گئے ۔ان حملوں کے بارے میں مختلف آرا سامنے آتی رہیں لیکن کسی بھی حملے کے ذمہ دار کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جا سکا ۔
اس لہرکے نتیجے میں معاشر ے میں افواہوں کا ایک بازار گرم ہوا،شکوک و شبہات اور الزام تراشیوں کو فروغ حاصل ہوا اور مختلف مکاتب فکر کے درمیان بداعتمادی اور بدگمانی کی فضا پیدا ہوئی جس کے نتیجے میںپورامعاشرہ احساس عدم تحفظ کا شکار ہوا۔ اس وقت پورا سماج خوف اور دہشت کی لپیٹ میں ہے اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم کو اس حالت پر قابو پانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اپنانا ہوگا ، اگر وہ ڈرون حملوں کو روکنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو سمجھیں کہ مشکل کا ایک حصہ حل ہو چکا ہے ۔ جہاں تک طالبان سے مذاکرات کا تعلق ہے تو میاں صاحب نے اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن ، سید منور حسن اور عمران خان صاحب کے نام لیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا سمیع الحق ، سید منور حسن اور عمران خان اس مسئلے میں حکومت سے بدگمان ہیں ۔ مولانا سمیع الحق نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ مذاکرات کے لیے حکومت بالکل سنجیدہ نہیں اور جب بھی وزیراعظم ہاؤس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو مکمل رابطہ نہ ہو سکا۔ سید منور حسن اور عمران خان نے بھی ملتے جلتے ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ان حالات میں نہ جانے مذاکرات ہو پاتے ہیں یا نہیں ۔ حکومت مذاکرات کرے یا نہ کرے یہ حکومت کا اپنا فیصلہ ہے ، لیکن کم ازکم ڈرون حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کی روک تھا م میں تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرے ۔میاں صاحب اور ان کے رفقا یاد رکھیں کہ جو حکمران عوام کی جان کا تحفظ نہیں کرسکتے ان کو حکومت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ۔