"AIZ" (space) message & send to 7575

شدت پسندی اورامن کا قیام

ملک میں بدامنی اپنے عروج پر ہے اور صدر پاکستان جناب ممنون حسین نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پوری کوشش کے باوجود نہ تو فرقہ وارانہ دہشت گردی کے واقعات پر قابو پایا جا سکااور نہ ہی سٹریٹ کرائمزمیں کمی ہو ئی ہے ۔ آئے دن قتل وغارت گری کے واقعات دیکھ دیکھ کر پوری قوم وحشت زدہ ہو چکی ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ امن وامان کی صورت حال بہتر ہو جائے ۔ان گمبھیرحالات سے نجات حاصل کرنے کے لیے قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ ہماری قوم اس وقت فکری طور پر تقسیم ہے اور مختلف مکاتب فکر، سیاسی جماعتیں اور قومی رہنما اس صورت حال کا اپنے اپنے انداز میں تجزیہ کر رہے ہیں۔ 
آراء کے اختلاف سے تجزیہ کرنے میں آسانی ہوتی ہے،اس سے مفید تجاویز سامنے آتی ہیں لیکن جب آراء کا اختلاف مخالفت تک جا پہنچے تو صورت حال بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہو جاتی ہے۔ اس وقت قوم مجموعی طور پراعصابی دباؤ اور اضطراب کا شکار ہے‘ ہر شخص حالات کامن پسند تجزیہ کرنے کے بعد چاہتا ہے کہ پوری قوم اس کی رائے سے متفق ہو جائے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ حکومت اور افواج پاکستان کی پالیسیوں اور اقدامات کی بھی مشروط حمایت کی جاتی ہے ۔ جب حکومت اور فوج کی پالیسیاں کسی کی رائے سے ہم آہنگ ہوں تو اسے قومی اور امن پر مبنی پالیسی قراردیا جاتا ہے اور جب حکومت اور فوج کی پالیسی میں حالات کے لحاظ سے کوئی تبدیلی آجائے تو اس کو قومی سلامتی کے خلاف قراردے دیا جاتا ہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ کئی بارایک مؤقف میں واضح تضادات سامنے آتے ہیں‘ اس کے باوجود دوسرے کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اسے بھی من وعن قبول کرلے ۔ جو شخص علم اور دانشمندی کی بات کر تا ہے اسے مختلف طریقوں سے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
فوج اور ریاست کی بالادستی کی بات کرنے والے آپریشن کی صورت میں تو فوج اور ریاست کی رٹ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن مذاکرات کی صورت میں ریاست کے اختیارات کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ آپریشن کے ہمنوا آپریشن کے مخالفین کو ریاست کے مفادات کا دشمن قرار دینے سے کبھی نہیںچوکتے ، لیکن جب یہی ریاست خود مذاکرات کے راستے پر چل پڑتی ہے تو اس وقت اس کی بصیرت پر ماتم کیا جاتا ہے ۔گویا صرف اپنے نقطہ نظر کوحرف آخر سمجھنے کا داعیہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ اس کے خلاف کوئی رائے سننا قابل قبول نہیں رہا۔
بہت سے لوگ ریاست کے باغیوں کو تو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن جب مذہبی جماعتیں اور علما ء جرائم کے خاتمے کے لیے سخت سزاؤں کی بات کرتے ہیں تواسے شدت پسندی سے تعبیرکیا جاتا ہے ۔اگر آئین اور ریاست کے باغیوں کو تہ تیغ کرنا درست ہے تو گھناؤنے جرائم کے مرتکبین کوکڑی سزائیں دینا کیوں غلط ہے؟
طالبان سے اختلاف کرنے والوں کو ان کی شدت پسندی اور آئین شکنی سے گلہ ہے لیکن انہی لوگوں کو پارلیمنٹ لاجز میں ہونے والی مبینہ خلافِ شریعت و آئین سرگرمیوں پرکوئی اعتراض نہیں۔ دراصل ہمارے معاشرے میں اعتدال پسندی میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے اور عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں سے ہر سطح پر انحراف کیا جارہا ہے ۔ 
کراچی میں امن و امان کی صورت حال عرصہ دراز سے تشویشناک ہے ۔ ابھی حال ہی میں مجھے ناظم آباد کراچی میں ہونے والی شان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق ایک بڑی کانفرنس میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا ۔کراچی کی فضا پر مجھے خوف اور خدشات کے بادل منڈلاتے نظر آئے ۔ہر شخص دعاگو تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور مقام کے بیان کے لیے منعقد ہونے والی کانفرنس خیر وعافیت سے اختتام کو پہنچ جائے۔ کانفرنس کے منتظمین بھائی عامر نجیب ، اشرف قریشی اور دیگر ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ کراچی میں کھلے مقام پرکانفرنس کرنابہت بڑا رسک بن چکا ہے لیکن دوستوں کی شدید خواہش پریہ کانفرنس کھلے میدان میں رکھی جا رہی ہے۔کراچی میں بھتہ خور ،قوم پرست ،فرقہ واریت کے علمبرداراور جرائم پیشہ لوگ بڑی تعدادمیں آباد ہیں ۔ان لوگوں نے کئی برسوں سے شہر کے امن و سکون کوتباہ و برباد کر رکھا ہے ۔ اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ریاستی ادارے جرائم پیشہ افراد کے خلاف چھاپہ مارکارروائیاں کر رہے ہیں ۔کراچی کے بعض نمایاں رہنماؤں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں پرگہری تشویش ہے اور وہ اس آپریشن کو سیاسی انتقام سے تعبیر کررہے ہیں۔ یہی رہنما شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں کے مکمل ہمنوا ہیں اورملک کے معاملات فوجی تحویل میں دینے کا مطالبہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر فوجی آپریشن کراچی میں غلط ہے تو وزیرستان میں کیسے درست ہے اور اگر وزیرستان میں درست ہے توکراچی میںکیوںغلط ہے؟ 
امن و امان کی مجموعی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں گروہی، جماعتی اور فرقہ وارانہ سوچ سے اُٹھ کر ملک و ملت کے مفادات میں پالیسی تشکیل دینا ہوگی ۔کوئی بھی ملک داخلی طور پر فوجی آپریشن کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ ریاست میں جہاں کہیں بھی گروہی سطح پر تصادم موجود ہے اسے ختم کرکے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے معاملات کو بہتر بنانا چاہیے ۔ مذاکرات کا حتمی نتیجہ کم ازکم جرائم اور قتل عام کے خاتمے کی صورت میں نکلنا چاہیے ۔ 
اگر ریاست میں جاری تصادم کے خاتمے کے نتیجے میں بغاوت پرآمادہ گروہ کسی قانون اور ضابطے کے پابند ہو جاتے ہیںتو اس سے امن و امان کی ضمانت مل سکتی ہے ۔ آئین پاکستان قرآن و سنت کی بالا دستی کی ضمانت دیتا ہے یعنی ریاست کے نزدیک قرآن و سنت کو ہرقانون کے مقابلے میں بالادستی حاصل ہے۔ اس ساری صورت حال میں قتل و غارت گری ،ڈکیتی ،چوری ،منشیات فروشی اور آبرو ریزی کے واقعات کو روکنے کے لیے اسلامی قوانین پراتفاق کرنے سے صورت حال بہتر ہوسکتی ہے ۔
قرآن و سنت میں مذکور سزائیں پُرامن شہریوں کے لیے کسی بھی اعتبار سے خطرنا ک نہیں ،ان سزاؤںکاہدف قاتل ،راہزن‘ ڈکیت ،چور ،فسادی اور بدمست لوگ ہیں۔ اگر قاتل کو قانون قصاص کا سامنا کرنا پڑے ، ڈاکو سزائے موت کا مستحق ٹھہرے ، چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں اور زانی کو 100کوڑوں کی سزادی جائے تو معاشرے کے بدنیت افراد کی حوصلہ شکنی ہوگی ۔ اسلامی قوانین کا خوبصورت ترین پہلو یہ ہے کہ اس میں چھوٹے بڑے کی کوئی تفریق نہیں ۔ جرم کرنے والا فرد خواہ سربراہِ ریاست ہی کیوں نہ ہو قرار واقعی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔
پارلیمنٹ لاجزکے بارے میں کیے جانے والے انکشافات کے بعد عوام کاتاثر یہ ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کوجرم ثابت ہونے کی صورت میں بھی قانون کی گرفت میں نہیں لیا جائے گااس لیے کہ طاقت ور لوگ آئے دن کسی نہ کسی طرح قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق مجرم خواہ چھوٹا ہو یا بڑا اس کے مرتکب کوسزا ضرور ملنی چاہیے۔ آپ نے واضح فرما دیا تھا کہ سابق قومیں اس لیے اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہریں کہ ان میں سے بڑے لوگ جرم کرتے تو چھوڑ دیے جاتے اور جب کمزور لوگ جرم کرتے تو قانون کی زد میں آجاتے ۔
قیام پاکستان کے وقت بانی پاکستان حضرت محمد علی جناحؒ نے جس اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کاوعدہ کیا تھا وہ تاحال ہمیں میسر نہیں آسکی۔ایسی ریاست جبھی میسر آسکے گی جب اسلام کی آفاقی تعلیمات کی بنیاد پر قوم کو متحد کرکے داخلی انتشار پر قابو پایا جائے گا ،اسلامی قوانین کو نافذ کرکے جرائم کاخاتمہ کیا جائے گااور امن و امان کی خراب صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے قانون کا معاشرے کے ہر فرد پر یکساں اطلاق کیا جائے گا اور یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب ہم خود پسندی اور فکری شدت پسندی کو چھوڑکر میانہ روی اور انصاف پسندی کا راستہ اختیارکر لیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں