"AIZ" (space) message & send to 7575

آبرو ریزی کے واقعات کا تدارک کیسے ہوگا ؟

عوام کی جان ،مال، عزت اور آبرو کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔جو حکومت اس فریضے کی ادائیگی میں ناکام ہوجائے اسے کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا ۔امن وامان کی صورت حال تسلی بخش نہ ہو تو معاشی سرگرمیاں بھی ماند پڑ جاتی ہیں ۔پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام جماعتیں اپنی انتخابی مہم میں عوام کو یقین دہانی کرواتی ہیں کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد بدامنی ،قتل و غارت اور آبرو ریزی کے واقعات پر قابو پالیں گی ، لیکن بر سر اقتدار آنے کے بعد ان مسائل پر قابو پانے کے لیے کوئی بھی جماعت جامع پالیسی مرتب کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔مسلم لیگ کے حالیہ دورِ حکومت میں جہاں قتل و غارت اور دہشت گردی کے واقعات پر قابو نہیں پایا جا سکا ،وہیں آبروریزی کے واقعات میں بھی بتدریج اضافہ ہوا ہے۔
چند ماہ قبل لاہور میں تین سال کی معصوم بچی کی آبروریزی کی گئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس موقع پر اس عزم کا اظہارکیاکہ چند دنوں میں بچی کے ساتھ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموںکو نشانِ عبرت بنا دیا جائے گا۔ بدقسمتی سے جرم و سزا کے ناقص نظام کی وجہ سے مجرم گرفتار نہ ہوسکے۔اس کے بعد بھی آبروریزی کے واقعات ہو تے رہے۔ مختلف اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت پنجاب میں بلاناغہ عصمت دری کے اوسطاً تین کیس رپورٹ کیے جارہے ہیں اور جو کیس رپورٹ نہیں ہو رہے ان کی تعداد کہیں زیادہ ہے ۔عصمت دری کے واقعات میں تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین عام طورپر انصاف کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہیں لیکن فرسودہ نظام کی وجہ سے وہ انصاف کے حصول میں ناکام ہو جاتی ہیں ، اس ناکامی کی وجہ سے ان کو شدید نوعیت کے نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
عوام کی غالب اکثریت جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کا دکھ بانٹنے کے بجائے انہیں منحوس تصورکرنا شروع کردیتی ہے۔ والدین اور عزیزواقارب انہیں بدقسمتی کی علامت سمجھنا شروع کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ایسی عورتیں مایوسی ،احساس کمتری اور احساس محرومی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جب ظالم کااحتساب نہیں ہوتا توعورتیں زندگی سے مایوس ہوکر خود سوزی کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتی ہیں ۔
حال ہی میں اسی قسم کا واقعہ مظفرگڑھ کی طالبہ کے ساتھ رونما ہوا ۔ بے چاری انصاف کی تلاش میں پولیس اور تھانوں کے چکرکاٹتی رہی ۔ مجرموں کا چالان نہ ہونے کی وجہ سے مظلوم طالبہ نے خود سوزی کرلی۔ یہ واقعہ درحقیقت حکمرانوںاور قانون نافذکرنے والے اداروں پراس مظلوم لڑکی کے عدم اعتماد کا اظہار تھا ۔ وزیراعلیٰ پنجاب اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد مظفرگڑھ پہنچے اورافسران کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر شدید برہم ہوئے۔ان کا غصہ اور ناراضگی بجاہے لیکن اس سے خودسوزی کرنے والی طالبہ کے ساتھ ہونے والے ظلم کا مداوانہیں ہوسکتا۔
عورتوںکی عزت کے تحفظ کے حوالے سے اسلامی قوانین بالکل واضح ہیں۔ آبروریزی کے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو 100کوڑے لگنے چاہئیں اوراگر مجرم شادی شدہ ہو تو اس صورت میں اس کو سنگسارکر دینا چاہیے ۔ عصمت دری کے واقعات پر غم وغصے کا اظہارکرنے کے بجائے اگرکسی مجرم کو 100کوڑوں یا سنگساری کی سزا مل جائے تو خود بخود معاشرے سے اس قسم کے جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
ہماری این جی اوزکی اکثریت اسلامی قوانین اور سزاؤں سے بدگمان ہے لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ کسی بھی قوم کے بگڑے ہوئے افراد کی اصلاح کے لیے اسلامی سزاؤں سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہو سکتا ۔
رسول کریم ﷺعورتوں کی آبرو کے تحفظ کے بارے میں انتہائی حساس تھے۔آپ ﷺ نے مدینہ کے حاکم ہونے کی حیثیت سے صرف مسلمان عورتوں کی آبروکا تحفظ نہیں کیا بلکہ غیر مسلم خواتین کی آبروکی حفاظت بھی کی ۔ایک مرتبہ بعض یہودی غنڈے اپنی ہی قوم کی ایک بیٹی کی آبروکے درپے ہوگئے۔ اس نے ان کومذہب ،عقیدے ،موسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور تورات سے نسبت کا واسطہ دیا لیکن غنڈہ غنڈہ ہوتا ہے ،اس کو نہ تومذہب کی شرم ہو تی ہے نہ عقیدے کا پاس ۔ اس کیفیت میں یہودی لڑکی نے حضرت رسول اللہ ﷺکا نام لے کر دہائی دی ۔نبی کریم ﷺکو اپنے حجرہ مبارک میں اس کی آوازسنائی دی ۔آپ ﷺ تیز رفتاری سے اس مقام پر پہنچے اور اپنی چادر مبارک یہودی لڑکی کے وجود پر ڈال کر اس کو ان غنڈوں سے نجات دلوائی ۔
نبی کریم ﷺکی تعلیمات کا اثر تھا کہ قرون اولیٰ کے مسلمان بھی اس حوالے سے انتہائی حساس تھے ۔دیبل کے ساحلوں سے اُٹھنے والی مسلمان بیٹی کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے حجاج بن یوسف نے اپنے قریبی عزیر محمد بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کو حجاز سے ہندوستان روانہ کیا ۔ابن قاسم نے اہل ہندکو راجہ داہراوردیگر ظالموں کے پنجہ ستم سے نجات دلانے کے لیے زبردست جدوجہد کی ۔اسی طرح خلیفہ معتصم باللہ کے دور میں عموریہ کے دارالخلافہ میں ایک مسلمان بیٹی کی آبروکو پامال کیاگیاتواس نے بغداد کی طرف منہ کر کے دہائی دی۔۔۔ ہائے معتصم ! جس وقت معتصم کو اس بات کا علم ہوا تووہ اپنے تخت پرکھڑا ہوگیا اور اس نے یہ الفاظ کہے: اے میری بیٹی، میں تجھے ظلم سے نجات دلانے کے لیے حاضر ہوں ۔ مسلمان حکمرانوں کی غیرت کا یہ اثر تھا کہ مسلمان بیٹیوں کی عزت و آبروصرف مسلمان ملکوں ہی میں محفوظ نہیں تھی بلکہ غیر مسلم ملکوں میں بھی ان کی عزت و آبرو کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ تھا۔
عصری معاشروں میں زنابالجبرکی روک تھا م کے لیے مختلف طرح کے قوانین وضع کیے گئے لیکن کوئی قانون بھی عورتوں کی عزت وآبرو کے تحفظ کو یقینی نہ بنا سکا ۔بھارت اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست ہے اوراس ملک میں زنا بالجبر کی روک تھام کے لیے سال ہا سال کی قید کے قوانین نافذ ہیں لیکن ماضی قریب میں بھارتی جنتا پارٹی کی رہنما ڈاکٹر سشما سوراج کو مطالبہ کرنا پڑا کہ ہندوستان میں زنابالجبر کی روک تھا م کے لیے سزائے موت کا قانون نافذکیا جائے۔گویا بالواسطہ انہوں نے اس امر کااعتراف کیاکہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون وہی درست ہے جس کو 1400برس پہلے رسول اللہ ﷺنے اللہ کے حکم سے انسانیت کو عطا فرما یاتھا۔اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عطاکردہ قوانین کے نفاذ میں ایسا اثر ہے کہ اس سے انسانیت کے تمام دکھوں، محرومیوں اور مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے ۔
پاکستان کے سیاستدان اور حکمران موجودہ فرسودہ نظام سے پریشان ہیں اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس امرکااعتراف بھی کیا ہے کہ اس سے لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔حقیقت یہ ہے کہ انسانیت کے دکھوں کے حل کے لیے نظام مصطفی ﷺ سے بہتر نظام نہ کوئی تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔
پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا تھا اور پاکستان کا آئین اور قرارداد مقاصد بھی قرآن وسنت کی بالادستی کی ضمانت دیتے ہیں ، اس لیے ہمارے حکمرانوں کو معاشرے سے جرائم کو مٹانے اور لوگو ں کو صحیح معنوں میں امن وسکون سے زندگی گزارنے کے قابل بنانے کے لیے قرآن وسنت کو فی الفوراس کی اصل روح کے مطابق نافذکردینا چاہیے ۔
حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم ﷺکو گرے ہوؤں کا حامی ،بے کسوں کا ساتھی ،مظلوموں کا مددگار اور حق کا علمبردار قراردیا تھا۔آج ہمارے معاشرے کو اسی مقدس ہستی کے نظام کی ضرورت ہے جو مظلوموں کی حامی اور مجبوروں کا ساتھ دینے والی تھی ۔آپ ﷺ کی شریعت کے حقیقی نفاذ سے انسانیت کے دکھ درد دور ہو سکتے ہیں۔ کا ش ، یہ بات ہمارے حکمرانوں اور ان کے ہمنواؤں کی سمجھ میں بھی آجائے اور وہ بیٹیوں اور بہنوں کی آبرو ریزی کرنے والے درندوں کے ساتھ آنحضرت ﷺکی تعلیمات کے مطابق سلوک کرکے ان کو نشانِ عبرت بنا دیںتاکہ آئندہ کسی بھیڑیے کوکسی کی ماں، بہن یا بیٹی کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہ ہو ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں