اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک طاق رات میں قرآن مجید کو لوحِ محفوظ سے آسمان دنیاپر نازل فرمایا ۔قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ آخری کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے زندگی گزارنے کے پورے نظام کو مرتب فر مادیا ہے ۔اس کتاب سے منسوب ہر چیز کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سربلندی عطا فرمائی ۔چنانچہ رمضان المبارک کے مہینے کو بھی نزول قرآن کی وجہ سے نمایاں مقام حاصل ہوااور اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزوںکو اُمت مسلمہ کے لیے فرض کردیا ۔اللہ تعالیٰ نے خصوصیت سے اُس رات کی عبادت کو جس میں قرآن مجید کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اُتارا گیا، ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر قرار دے دیا ۔اللہ تعالیٰ سورۃ القدر میں ارشاد فرماتے ہیں ''بے شک ہم نے قرآن مجید کو قدر والی رات میں اتارا اور تم کیاجانوقدر والی رات کیا ہے ؟ قدر والی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح الامین ہر حکم لے کر اترتے ہیں ۔سراپا سلامتی ہے یہ رات طلو ع فجرتک ‘‘۔
لیلتہ القدر کو یہ غیر معمولی مقام اور سربلندی صرف نزول قرآن کی ساعتوں میں حاصل نہیں ہوئی بلکہ اللہ تعالیٰ نے تاقیامت ہر رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک طاق رات کو اس شرف سے بہرہ ور فرما دیا ۔
جو شخص بھی رضائے الٰہی کے لیے لیلتہ القدر کی ساعتوں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتا ہے ،اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو ہزار مہینوں کی عبادت کا ثواب عطا فرماتے ہیں ۔
سابق اُمتوں کی عمریں اُمت محمدیہ کے مقابلے میں طویل تھیں۔حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ہود علیہ السلام کے اُمتی کئی سو برس تک زندہ رہے ۔لمبی عمریں پانے کی وجہ سے ان کو طویل عرصے تک اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرنے کا موقع بھی میسر آیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو کمر عمری کے باوجود لیلتہ القد ر عطا فرما کر لمبے عرصے کی عبادت کا متبادل عطا فرما دیا ۔
انسانی زندگی میں مختلف طرح کے موسم و ادوار آتے رہتے ہیں جن میں مختلف طرح کی سرگرمیاں اپنے پورے عروج پر ہوتی ہیں۔ بعض ایام میں کاروباری اور بعض ایام میں سیاسی سرگرمیاں اپنی انتہا پر ہوتی ہیں ۔ایک موسم میں کی جانے والی سرگرمیاں دوسرے موسم میں ہونے والی سرگرمیوں سے قدرے مختلف ہوتی ہیں ۔اسی طرح رمضان کے ایام خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کی بندگی کے ایام ہیں جن میں کثرت سے اللہ تعالیٰ کا ذکراور عبادت کرنی چاہیے ۔
آخری عشرہ رمضان المبارک کے گزرنے کی خبر سنانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عطا اور فضل بے پایاں کی نوید بھی سناتا ہے ۔اس عشرے میں لیلتہ القدر کی ساعتوں سے بہرہ ور ہونے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے ۔نبی کریم ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں عموماً آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔تاہم جس سال آپ ؐ دنیا سے رخصت ہوئے ،اس برس آپ ﷺ نے بیس روز کا اعتکاف فرمایا ۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی بعثت سے قبل بھی غار حرا میں خلوت اختیار کی تھی ۔نزول وحی سے قبل آپ ﷺ کو متواتر سچے خواب آنا شروع ہوگئے جن کا سلسلہ چھ مہینے تک جاری رہا اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے آپ ؐپر 23برس وحی کا نزول فرمایا ۔ نبی کریم ﷺ نے خلوت کا سلسلہ بعد از نبوت بھی اعتکاف کی شکل میں جاری رکھا ۔اُمت محمدیہ کو بھی اپنے نبیﷺ کی اتباع میں رمضان کے آخری عشرے میں خلوت کو اختیار کرنا چاہیے اور اپنے دنیاوی معمو لات سے عارضی طور پر کنارہ کشی اختیار کرکے تزکیہ نفس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہیے ۔
اعتکاف کے دوران انسان اپنی معاشرتی اور معاشی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے مسجد مقیم ہو جاتا ہے۔تنہائی میں رہنے کی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو استواراورمضبوط کرنے کا موقع بھی ملتا ہے اور اپنے مقصدِ تخلیق پر غور و فکر کرنے کی توفیق بھی حاصل ہوتی ہے ۔
دنیا کے ہنگاموں میں مشغول اور مصروف انسان عام طور پر اپنے آپ کو دنیا کی گہما گہمی سے علیحدہ نہیں کرپاتا۔اعتکاف کے دوران اسے ایک ایسا ماحول میسر آجاتا ہے، جس میں دنیاوی مشاغل اور خیالات سے چھٹکارا اور رہائی حاصل ہو جاتی ہے اور خالق ومالک کی بندگی اور عبادت کا موقع میسر آجاتاہے ۔
لیلتہ القدر کی جستجو کا بہترین طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان بکثرت اپنے گناہوں پر نادم ہو اور اپنے پروردگار سے اپنے گناہوں کی معافی مانگے ۔حضرت رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو لیلتہ القدر کی ساعتوں میں یہ دعا پڑھنے کو کہا ''اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے پس ہمیں معاف فرما ‘‘۔
انسان کے گناہ اس کی زندگی میں آنے والی تکالیف اور پریشانیوں کی بنیادی وجہ ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تمہارے ان اعمال کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں ‘‘۔انسان جب اپنے گناہوںپر نادم ہو کر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کر تاہے تو اللہ تعالیٰ انسان کی کوتاہیوں کو معاف فرمادیتا ہے۔
سورہ فرقان میں اللہ تعالیٰ نے شرک ،قتل اور زنا جیسے کبیرہ گناہوں کا ذکر کیا جو انسانوں کو جہنم میں لے جانے والے ہیں لیکن جب انسان سچے دل سے گناہوں پرنادم ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''جو شخص توبہ کرے ،ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ایسے
لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے اور رحم کرنے والا ہے‘‘۔جب اللہ تعالیٰ انسان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمادیتا ہے تو انسان کی زندگی میں آنے والی مشکلات اور تکالیف بھی دور ہو جاتی ہیں ۔دنیا دارالعمل ہے اورنزع کی گھڑیوں کے آنے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ نے توبہ کے دروازے کوبھی کھلا رکھا ہے چنانچہ انسان کو عارضی زندگی کے لمحات کو غنیمت سمجھتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ سے مغفرت کو طلب کرتے رہنا چاہیے ۔حدیث پاک میں بنی اسرائیل کے گناہ گار انسان کفل اور سوانسانوں کے قاتل کا واقعہ مذکور ہے ۔اس نے سچے دل سے توبہ اور استغفار کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی خطاؤں کو معاف کر دیا ۔ استغفار کرنے سے جہاں انسان کی دنیاوی تکالیف کا خاتمہ ہو جاتا ہے وہیں پر پروردگارِ عالم کی رحمت و برکات کا بھی نزول ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام کے فرمان کونقل فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہو کر کہا تھا ''پھر میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو یقینا وہ بخشنے اور معاف کرنے والا ہے ۔وہ آسمان سے رحمت والی بارشیں برسائے گا اور مال اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گااور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گااور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا ‘‘ ۔مذکورہ بالا آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آسمان سے اترنے والی رحمت کی بارشوں اور معاشی خوشحالی کا اللہ تعالیٰ کی رضامندی سے انتہائی گہر ا تعلق ہے ۔اگر اللہ تعالیٰ راضی ہوتو انسان کے معاشی معاملات خود بخود بہتر ہو جاتے ہیں اور اگر پروردگار عالم ناراض ہو تو انسان کی معاشی حالت بتدریج ابتری کا شکار ہوجاتی ہے ۔ہمیں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مبارک گھڑیوں کو پانے کی بھرپور جدوجہد کرنی چاہیے اور اس مقصد کے لیے اعتکاف کرنے سے بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی بندگی اور عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین۔