4 ستمبر کو دنیا بھر میں یوم حجاب کے حوالے سے تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جن کے ذریعے دنیا کے سامنے اس بات کو رکھا جاتا ہے کہ حجاب مسلما ن عورت کا بنیادی حق ہے جسے جبراً محروم کرنے کی مذہبی اور اخلاقی اعتبار سے کوئی گنجائش نہیں۔
سابقہ الہامی کتابوں میںبھی عورتوںکو حیا داری کی تلقین کی گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ مسیحی عورتیں آج بھی اپنے سر اور جسم کو اچھی طرح ڈھانپ کے رکھتی ہیں۔ قدامت پسند یہودیوں کے یہاں بھی حجاب کا رواج موجود ہے۔ بہت سے یہودی گھرانوںمیں عورتیں نقاب کا بھی اہتمام کرتی ہیں۔ اگرچہ ہندوعورتیں مسیحی یا یہودی عورتوں کی طرح نقاب نہیں کرتیں لیکن مذہبی قدامت پسند ہندو عورتوںکے ہاں سر ڈھانپنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید نے حجاب کی اہمیت کو سابقہ الہامی کتابوں سے کہیں بڑھ کر اجاگر کیا اور اس حوالے سے سورۃ احزاب اور سورۃ نور میں تفصیلی احکامات کانزول ہوا۔ بعض اہم مقامات کا ترجمہ درج ذیل ہے :
اللہ تعالیٰ سورۃ احزاب کی آیت نمبر 59 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے پیغمبر ﷺ ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمان عورتوںکوکہہ دوکہ جب وہ (باہر نکلا کریں ) تو اپنے چہروں پرچادر لٹکا کرگھونگھٹ نکال لیا کریں۔ یہ چیز ان کے لیے موجبِ شناخت اور امتیازہوگی تو کوئی ان کو ایذا نہ دے گا اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور مہربان ہے‘‘۔ اسی طرح سورۃ نور کی آیت نمبر 31 میں ارشاد ہوا: ''اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ و ہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی پاکدامنی کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینتوں کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جوازخود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھاکریں اور اپنے خاوند ، باپ،سسر، بیٹوں، شوہرکے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں، اپنی ہی قسم کی عورتوں ، لونڈی، غلاموں نیز ان خدام سے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھتے ہوں یا ایسے کم سن لڑکے جو عورتوں کی پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں کسی پر اپنی زینت ظاہر نہ ہو نے دیںاوراپنے پاؤں ایسے طور پر زمین پر نہ ماریںکہ ان کی جھنکارکانوں میں پہنچے اوران کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور مومنو! سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پا جائو‘‘۔ قرآن مجیدکے ان احکامات کے علاوہ قرآن مجیدکے دیگر مقامات پر غورکرنے سے یہ حقیقت بھی انسان کے سامنے واضح آجاتی ہے کہ اسلام اختلاط کی حوصلہ شکنی کرتا اور بلا ضرورت غیر مرد و عورت کے روابط کی مذمت کرتا ہے۔ قرآن مجید نکاح کے لیے ان عورتوں کے چناؤ کی تلقین کرتا ہے جن کے غیر مردوں سے اعلانیہ یا خفیہ مراسم نہیں ہوتے ۔
اللہ تعالیٰ سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 5 میں اہل کتاب کی عورتوں سے شادی کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن غیر مردوں کے ساتھ شناسائی اختیارکرنے والی عورتو ں سے نکاح کی اجازت نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : '' آج تمہارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلا ل ہے اور تمہارا کھانا ان کو حلال ہے اور پاکدامن مومن عورتیں اور پاکدامن اہل کتاب کی عورتیں بھی حلال ۔ہیں جبکہ ان کا مہر انہیں دے دو اور ان سے عفت رکھنا مقصود ہو نہ کہ کھلی بدکاری کرنا اور نہ چھپی دوستی کرنا ‘‘۔ قرآن مجید درحقیقت اہل ایمان سے ایسے سماج کی تشکیل کا تقاضا کرتا ہے جس میں بدکاری کاارتکاب کرنا تو بڑی دورکی بات ہے بدکاری کے راستوں پر چلنے کی بھی کوئی گنجائش نہ ہو۔ یہ جبھی ممکن ہے جب آزادانہ اختلاط کی حوصلہ شکنی کی جائے اور معاشرے میں حجاب کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
حجاب کے ناقدین حجاب کو عورت کی غلامی سے تعبیرکرتے اور اس کو عورت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے عام مسلمانوں کو اس سے بدگمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹھنڈے دل سے غورکرنے پر یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حجاب کسی بھی اعتبار سے عورت کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ حجاب پر عمل پیرا ہوکراور اختلاط سے بچ کر بھی عورت ترقی کی منزلیں طے کر سکتی ہے۔
عورت حجاب میں رہتے ہوئے کامیاب معلمہ ، مستند لیڈی ڈاکٹر،اعلیٰ پائے کی مصنفہ ، بہترین نرس اور قابل قدر مبلغہ بن سکتی ہے۔ زیور تعلیم سے خود کو بھی آراستہ کر سکتی ہے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کا بھی اہتمام کر سکتی ہے۔ حجاب کے ذریعے نہ صرف عورت اپنی عزت و ناموس کو محفوظ کر لیتی ہے بلکہ حجاب کی وجہ سے عورت بدگمانیوں سے بھی محفوظ ہو جاتی ہے ۔
اہل مغرب نے ماضی قریب میں جن اسلامی شعائر پرکڑی تنقید کی ان میں سر فہرست جہاد اور حجاب ہیں ۔ جہاد کو بالعموم دہشت گردی اور حجاب کو عورت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جاتا ہے۔ حجاب پر کی جانی والی تنقید اور منفی پراپیگنڈے کے باوجود مغرب میں حجاب کی پزیرائی میں اضافہ ہوا ہے اور بہت سی غیر مسلم خواتین نے مسلمان عورتوں کا حجاب دیکھتے ہوئے اسلام قبو ل کر لیا۔
حجاب کی پزیرائی کی وجہ سے اہل مغرب عام طورپر حجاب کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو سیکولر قرار دینے کے باوجود حجاب کو دیکھ کر ان کا رویہ جارحانہ اور معاندانہ ہو جاتاہے۔
آج سے چند برس قبل جرمنی میں مصر سے تعلق رکھنے والی خاتون مروۃالشربینی کو الیکس نامی ایک متعصب شخص کی نفرت کا نشانہ بننا پڑا۔ یہ تنگ نظر انسان مروہ پر آوازیں کستا اوراس کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ مروہ نے ایلکس سے نجات حاصل کرنے کے لیے مجبوراً عدالت سے رجو ع کیا ۔ عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران ایلکس نے مروۃ الشربینی پرچاقو سے حملہ کر کے اس کو شہید کردیا۔ مروہ کے شوہر نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے اس کو عدالت سے بے دخل کر دیا۔ مروۃ الشربینی کا لہو رنگ لایا اور اسکندریہ (مصر) میں ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس کے جسد خاکی کا استقبال کیا اور اسلام کی اس بیٹی کوعقیدت اور اعزازکے ساتھ دفن کیاگیا۔ فرانس کے سابق صدر سرکوزی نے بھی سیکولرجمہوریت کا نعرہ لگانے کے باوجود فرانس میں حجاب پرپابندی عائدکیے رکھی اور خلاف ورزی کرنے والی خواتین کو جرمانے اور جیل کی سزائیں برداشت کرنا پڑیں۔
مقام تاسف ہے کہ یورپ میں ہم جنس پرستوں کے حقوق تو محفوظ ہیں لیکن حجاب کرنے والی عورتوں کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ سرکوزی نے جب متعصبانہ روش کا مظاہرہ کیا تواس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ان ایام میں، میں نے ایک نظم لکھی جس کو میں نظر قارئین کرنا چاہتا ہوں :
فرانس میں پڑی ہے جو مسلمہ کو مار
دل پہ لگی ہے چوٹ اور آنکھیں ہیں اشکبار
غیرت پہ مسلماں کی ہے کفر کی یلغار
سینے میں زخم ہے تو تن بھی ہے فگار
حریت کے ضابطوں کو کیا اس نے تار تار
عریانیت کا نام ہے آزادی کا اظہار
چبھتی ہے ان کو شرم حیا سے ہیں یہ بیزار
آزادی کے نام پہ عورت کا ہے شکار
چہرہ جو اس نے ڈھانپا چلانے لگا مکار
اپنی مرضی کی زندگی کا نعرہ کہاں ہے یار
سراب ہیں یا دھوکہ یہ مغربی افکار
جو بن ٹھن سنور کے نکلے وہ آزادی کا اشتہار
اور نقاب کی سزا ہے جیلیں یا تختہ دار
اُمت کا اتحاد ہے وقت کی پکار
ہر پیروجواں رہے اسی کے لیے تیار
پھر گھر سے لے کے نکلو خالدؓ کا ولولہ اور جرات کرارؓ
عالم کو پھر دکھاؤ فاروقؓ کی عدالت صدیقؓ کا وقار
ظہیر ظالموں سے کہہ دو ہے حجاب میں ہماری عزت و وقار
اور آرہے ہیں لمحے جب شرم و حیا کے دشمن ہوں گے ذلیل و خوار