نوابزادہ نصراللہ خان کو ہم سے جد ا ہوئے 11 برس سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔ آپ اس دنیائے فانی سے 25 ستمبر 2003 کو رخصت ہو گئے تھے۔ ایک عرصہ بیت جانے کے باوجود آپ کی یادوں کی خوشبوئوں سے دل کا گلشن مہک رہا ہے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کے والدِ گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر سے بڑے گہرے مراسم تھے اور میں نے بچپن میں کئی مرتبہ والدِ مرحوم کی ہمراہی میں نکلسن روڈ پر واقع ان کے دفتر میں ان کی مجلس میں بیٹھنے کا شرف حاصل کیا۔ والدِ گرامی تو اکثر و بیشتر ان کے دفتر میں آتے جاتے رہتے تھے لیکن کئی مرتبہ خود نوابزادہ نصراللہ خان صاحب بھی کھانے کی دعوت پر ہمارے گھر تشریف لاتے اور رات گئے تک مختلف امور پر بات چیت ہوا کرتی تھی۔
نوابزادہ نصراللہ خان ایک اصول پسند اور وضع دار سیاسی راہنما تھے۔ آپ کو آمریت سے بہت نفرت تھی۔ آپ جب تک زندہ رہے‘ فوجی آمروں کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کرتے رہے۔ ایوب خان، یحییٰ خان اور جنرل ضیاء الحق کے ادوار میں آپ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اٹھائی تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی آواز اتنی موثر ہوتی کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں ان کی قیادت میں متفق ہو جایا کرتی تھیں۔ نوابزادہ کے گھر یا دفتر میں ہونے والا اجتماع کسی نہ کسی سیاسی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوتا اور حساس اداروں کے اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد ہمہ وقت آپ کے دفتر کے گرد منڈلاتی رہتی تھی۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والے سیاسی اجتماعات میں علامہ ظہیر بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ اپنے طوفانی خطاب سے جب والد صاحب عوامی جذبات بیدار کرتے تو نوابزادہ نصراللہ خان آپ کی خطابت سے جھوم جایا کرتے تھے۔ 23 مارچ 1987ء کو علامہ ظہیر راوی روڈ پر ایک جلسے سے خطاب کے دوران ہونے والے بم دھماکے کے نتیجے میں بہت زیادہ زخمی ہو گئے تھے۔ والد صاحب کو علاج کے لیے سعودی عرب کے ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا‘ لیکن آپ جانبر نہ ہو سکے اور 30 مارچ 1987ء کو ریاض میں انتقال کر گئے۔ والد صاحب کی میت کو مدینہ منورہ منتقل کیا گیا اور بقیع کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ مجھے اب تک یاد ہے والد صاحب کے انتقال کی اطلاع ملتے ہی نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم ہمارے گھر تشریف لائے۔ نواب زادہ صاحب اس وقت انتہائی دل گرفتہ تھے۔ ان کا چہرہ غم اور کرب کی تصویر بنا ہوا تھا۔ آپ نے اس موقعہ پر کہا تھا کہ تشدد اور نفرت کے سوداگروں نے ملت کی متاع عزیز ہم سے چھین لی‘ آج وہ شحض ہم میں موجود نہیں رہا‘ جس کی ولولہ انگیز قیادت نے مارشل لا زدہ مایوس اور مضمحل ماحول کو سچا حوصلہ اورنئی توانائی دی تھی۔
والدِ مرحوم کے انتقال کے بعد بھی کئی مرتبہ والد صاحب کے تعلق کو نبھانے کے لیے نکلسن روڈ جاتا رہا۔ نواب زادہ صاحب کی مجلس روایتی سیاستدانوں والی مجلس نہیں ہوتی تھی بلکہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر انسان کے علم و آگہی میں اضافہ ہوتا تھا۔ نواب زادہ صاحب نے برصغیر کے عظیم مذہبی اور سیاسی راہنمائوں کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ ان کی صحبت میں گزرے ہوئے وقت کی روداد بیان کرتے ہوئے آ پ کئی مرتبہ ماضی میں کھو جایا کرتے تھے اور آپ کی آواز بھرا جایا کرتی تھی۔ میں نے آپ سے مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان، سید عطاء اللہ شاہ بخاری جیسے اکابرین کے بہت سے یاد گار واقعات سن رکھے ہیں۔
نواب زادہ صاحب بتلایا کرتے تھے کہ قیام پاکستان سے قبل آپ بیک وقت کانگریس اور مجلس احرار کے رکن ہوا کرتے تھے۔ مولانا آزاد کے علم اور شعلہ نوائی کا ذکر کرتے ہوئے آپ سب کچھ فراموش کر دیتے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی ختم نبوت کے لیے کی جانے والی جدوجہد کے بھی آپ معترف تھے اور ان کی درویشی اور فقر کا ذکر بھی آپ جوش اور جذبے سے کیا کرتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان کی صحافت اور جوش خطابت کا اکثر ذکر فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے کئی مرتبہ بتایا کہ مولانا ظفر علی خان کی ٹوپی اور پگڑی بھی آپ کے خطاب کے دوران جوش اور جذبے سے ہل رہی ہوتی تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی مجلس سے اٹھ کر آنے کے بعد انسان بہت دیر تک برصغیر کے ان عظیم رہنمائوں کی یادوں کا اسیررہتا تھا کہ جن کی بے مثال اور پُرخلوص جدوجہد کے سبب برصغیر کے مسلمانو ں کو انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل ہوئی تھی۔
نوابزادہ نصراللہ خان ایک درویش صفت آدمی تھے۔ ان کی مجلس میں ہر سیاسی اور مذہبی کارکن بغیر اجازت کے داخل ہو سکتا تھا۔ نوابزادہ مرحوم ہر غریب اور امیر کو بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور ہر شخص کے سوال کا جواب بڑے اطمینان اور سکون سے دیا کرتے تھے۔ عوام کے ہجوم اور آمدورفت کی وجہ سے کسی قسم کی تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی ایک بہت بڑی خوبی آپ کے دستر خوان کی کشادگی تھی۔ کھانے کے وقت دستر خوان پر حاضرین مجلس کو مدعو کرتے اور ہر کس و ناکس جی بھر کر کھانا کھایا کرتا تھا۔ برصغیر کے بڑے بڑے سیاسی راہنما، علما، خطبا نوابزادہ نصراللہ خان سے بڑے ذوق اور شوق سے ملنے جاتے اور واپسی پر آپ کے بڑے پن کا احساس اپنے دل میں سمو کر باہر نکلتے۔
نوابزادہ نصراللہ خان کے انتقال سے ملک کے سیاسی ماحول کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ سیاست خدمت کی بجائے تجارت بن گئی اور مڈل کلاس کی دسترس سے نکل کر سرمایہ داروں کے گھروں کی لونڈی بن گئی۔ علم، خطابت، شعور اور آگہی کی بجائے دکھاوا، مال، رشوت ستانی اور سفارش سیاست میں ترقی کی علامات بن گئیں۔نوابزادہ نصراللہ خان کی وفات سے نہ صرف یہ کہ قوم ایک بڑے راہنما سے محروم ہو گئی بلکہ سیاست بھی اعلیٰ اقدار اور بڑے اصولوں سے دور ہو گئی۔ آپ کی وفات سے سیاست کا ایک بڑا دور اختتام پذیر ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نوابزادہ نصراللہ خان کی خطائوں کو معاف فرما کر ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!