"AIZ" (space) message & send to 7575

دہشت گردی کا المیہ

وطن ِعزیز طویل عرصہ سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔گزشتہ کئی عشروں کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی متعدد نمایاں شخصیات اس اندھی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
حکیم محمد سعید انتہائی نفیس ، صاحب علم اور غیر متنارعہ شخصیت تھے۔ حکیم صاحب کا کسی مخصوص مذہبی فکر اور تنظیم سے تعلق نہیں تھا۔ان کاکام دکھی اور بیمار انسانیت کی خدمت تھا جس کے لیے انہوں نے ہمدرد دواخانے کی بنیاد رکھی اور طب کے زوال پذیر شعبے کو بحال رکھا۔ آپ کے ادارے سے بچوں کی دلچسپی پر مبنی انتہائی معیاری رسالہ ''نونہال‘‘ نکلا کرتاتھا جس میں بچوں کی تعلیم اور تربیت کے متعلق شاندار مواد ہوتا تھا۔ میں بھی بچپن میں نونہال بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔
حکیم سعیدکو حکمت اور بچوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیم سے بھی بہت دلچسپی تھی اور ہمدرد یونیورسٹی کے عنوان سے آپ کے تعلیمی ذوق کے اظہار کے لیے تاحال ادارے کام کر رہے ہیں ۔ حکیم سعید جیسے غیر متنازعہ انسان کو ایک دن نامعلوم دہشت گردوں نے خون میں غسل دے کرشہید کر دیا ۔
حکیم صاحب کی طرح جناب صلاح الدین بھی ایک محب وطن انسان تھے۔ آپ کی تحریریں اسلام اور پاکستان دوست طبقوں کی حوصلہ افزائی کا سبب ہوا کرتی تھیں۔صلاح الدین صاحب روشنیوں کے شہرکراچی کو ہمیشہ کے لیے روشن دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے اپنے رسالے '' تکبیر ‘‘ کے ذریعے پاکستان اورکراچی کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بھر پور طریقے سے بے نقاب کیا۔ صلاح الدین صاحب کا یہ طرز عمل بعض وطن اور اسلام دشمنوں کو ایک آنکھ نہ بھایا اورایک اندھی گولی نے ان کی زندگی کا بھی خاتمہ کر دیا۔
والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر اسلام اور انسانی حقوق کی سربلندی کے لیے ہمہ وقت سر گرم رہا کرتے تھے۔ آپ زندگی میں اتنا مصروف ہوا کرتے تھے کہ کئی دن ہماری ان سے ملاقات بھی نہیں ہو پاتی تھی۔ آپ کی صحت قابل رشک تھی اور آپ عمرکے جس حصے میں تھے اس بات کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ اچانک دنیا سے رخصت ہوجائیں گے۔ جلسے جلوسوں اور اجتماعات میں آپ کی شرکت تواتر سے ہوا کرتی تھی اور آپ کی گھرسے غیر حاضری اور راتوں کو تاخیر سے گھر آنا معمول تھا۔ میرے ان دنوں میٹرک کے بورڈ کے امتحانات ہو رہے تھے۔ مینار پاکستان کے عقب میں راوی روڈ پر تقریب تھی۔ میں امتحان کی تیاری میں مصروف تھا کہ اچانک اطلاع ملی کہ والد گرامی کے جلسے میں دھماکہ ہو گیاہے اور آپ کے دس رفقا دنیا سے کوچ کر گئے اور سوکے قریب شدید زخمی ہیں۔ والدگرامی کو علاج کے لیے سعودی عرب لے جایا گیا لیکن آپ جانبر نہ ہوسکے اور سات دن زخمی رہنے کے بعد دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کی رخصتی اہل خانہ اور آپ کے معتقدین کے لیے ایک المیہ تھی اور برس ہا برس تک ہم مختلف مواقع پر آپ کی کمی محسوس کرتے رہے۔
میر مرتضیٰ بھٹو ، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے فرزند اور محترمہ بے نظیر بھٹوکے بھائی تھے اور بعض سیاسی معاملات میں ان سے مختلف سوچ کے حامل تھے۔ اپنی سوچ ، فکر ،نظریات اور سیاسی معاملات کو آگے بڑھانے کے لیے اندرونِ سندھ رابطہ عوام مہم میں مصروف تھے۔اسی اثنا میں اطلاع ملی کہ میر مرتضیٰ بھٹوکو قتل کر دیاگیا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو ان دنوں بر سر اقتدار تھیں اورتوقع کی جا رہی تھی کہ وہ اپنے اثرور سوخ کو استعمال کرتے ہوئے جلد بھائی کے قاتلوںکوگرفتارکرلیں گی لیکن یہ خیال خام ثابت ہوا اور میر مرتضیٰ بھٹوکا لہو تفتیش کی نامعلوم راہوں پر بکھرگیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تھیں۔ ملک میں ان کے سیاسی جلسے جلوسوں کا انعقاد ہوتارہتاتھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو، جنرل پرویز مشرف کے دورکے آخری حصے میں وطن واپس آئیں تو ان کے جلوس کو بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیا۔ محترمہ اس حملے میں بچ گئیں ۔ وہ ملک بھر میں اجتماعات سے خطاب کرتی رہیں۔ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں تقریر کرنے کی غرض سے آئیں۔ جلسے کے بعد اپنی جیپ میں سوار ہو کر واپسی کے لیے روانہ ہوئیں تو پر جوش نعروں کا جواب دینے کے لیے اپنی جیپ سے باہر نکلیں اور باہر نکلتے ہی قاتلانہ حملے کا نشانہ بن گئیں اور موقع پر ہی دم توڑ گئیں ۔ ان کے قتل کا آج تک سراغ نہیں مل سکا۔
کچھ عرصہ قبل امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس نے لاہور کے قرطبہ چوک میں بعض نہتے پاکستانی نوجوانوںکو قتل کر دیا لیکن موقع پر گرفتار ہونے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو سزا نہ مل سکی۔ 
ابھی چند روز قبل جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کوئٹہ میں جلسے سے خطاب کرکے نکل رہے تھے کہ خودکش حملہ آور نے مولانا کے کاروان پر حملہ کردیا، مولانا اس حملے میں محفوظ رہے لیکن ان کی جماعت کے بعض کارکنان موقع پر ہی دم توڑ گئے۔دو روز قبل 9 محرم الحرام کو واہگہ بارڈر پر ہونے والے خودکش حملے میں تین رینجرزاہلکاروں سمیت درجنوں شہری جاں بحق ہوگئے ۔ ماضی قریب میں پشاور میں واقع چرچ پر بھی دہشت گردی کا حملہ کیاگیاتھا۔
یہ تو چند واقعات تھے جن کا میں نے سرسری طور پر ذکر کیا وگرنہ حالت یہ ہے کہ آئے دن کسی نہ کسی مقام پردہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا رہتاہے۔ دہشت گردی کے ان واقعات کی روک تھام کے حوالے سے حکومتیں اعلانات اور عزائم کا اظہار بھی کرتی رہتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاحال دہشت گردی کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکا۔
ان تمام واقعات کا نتیجہ انتہائی خطرناک نکل رہا ہے۔ صاحب ِسرمایہ اور تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی تعدادملکی صورت حال سے بے یقینی کا شکار ہوکر ملک کو خیر باد کہتی جا رہی ہے۔ بہت سے لوگ یورپ اور خلیجی ممالک میں جا کر آباد ہوتے جارہے ہیں ۔ بیرونی ممالک سے آنے والی بڑی کمپنیاں اور ادارے پاکستان کی اس صورت حال سے بدگمان ہوکر سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں اور پاکستان کا نام بیرونی دنیا میں ناکام ریاست کے طور پر لیا جارہا ہے۔
ماضی میں ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ شاید دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام ہو جائے اور مستقبل میں پاکستان امن کا گہوارابن جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوجی آپریشن کے باوجود دہشت گردی کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔ 
ہماری حکومتوں اور پالیسی ساز اداروں کو اس سلسلے میںبعض ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکے۔
1 : ریاست کی خارجہ پالیسی کو صرف پاکستان کے مفاد میں ترتیب دیا جائے تاکہ اس تاثر کو زائل کیا جا سکے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی طاقتور ریاستوں کے مفاد میں تشکیل دی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں سمجھوتے کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے واضح اور خود مختار پالیسی اختیارکی جائے۔
2 : دہشت گردی کے نیٹ ورکس کو بے نقاب کرنے کے لیے طاقتور عدالتی کمیشن قائم کیے جائیں۔ ان کمیشنوں کے ججوں کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے اور نیٹ ورکس کو بے نقاب کرنے کے بعد دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
3 : صحابہ کرامؓ ، اہلبیت عظامؓ اور امہات المومنین ؓ کی حرمت کے بارے میں ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کو نافذ کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والے عناصر کے تعین کے لیے تمام مکاتب فکر پر مشتمل علما کا بورڈ قائم کرکے ان کے خلاف موثر کارروائی کی جائے۔
4 : کسی بھی مسلک ، مکتبہ فکر اور اس کی محترم شخصیات کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے عناصرکے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے۔
5 : پورے ملک میں ناجائز اسلحے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے اور حساس مقامات اور مذہبی اجتماعات کی حفاظت کے لیے ناجائز اسلحہ بردار افراد کی بجائے حکومت خود سکیورٹی فراہم کرے۔
اگر ان تجاویز پر غیر جانبداری سے عمل کیا جائے اور تمام مذہبی، سیاسی اور لسانی جماعتیں قومی مفاد میں حکومت سے ان تجاویز پر عملدرآمد کے لیے تعاون کریں توبڑی حد تک ملک کو دہشت گردی کے ناسورسے نجات دلائی جا سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں