اقوام اور افراد کی زندگی میں امن اور سکون کے بعد رزق کی بڑی اہمیت ہے ۔انسانی معاشروں میں جدوجہد کا ایک بڑامقصد ہمیشہ سے رزق کمانا رہا ہے ۔رزق کی فراوانی جہاں انسان کی جسمانی اور طبعی ضروریات کو پورا کرنے کا سبب ہے وہیں پر انسانی معاشروں میں متمول افراد کو ہمیشہ نمایاں اہمیت دی جاتی ہے ۔رزق کی فراوانی کو دیکھ کر لوگ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت کا تعین بھی کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کئی مرتبہ اپنے نافرمانوں کو بھی رزق سے نواز دیتے ہیں اور کئی مرتبہ کسی حکمت کے پیش نظر اس کو اپنے مخلص بندوں پر بھی کشادہ نہیں فرماتے ۔
فرعون ،ہامان ،شداد اور قارون گو اللہ تعالیٰ کے نافرمان تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو فراواں رزق عطا کر رکھا تھا۔ قارون کے سرمایے کو دیکھ کرتو لوگوں کی اکثریت‘ اس کے مال جیسے مال کی تمنا کرنا شروع ہو گئی تھی ۔جب پر وردگار ِعالم کا عذاب آیا تو اس نے غافل لوگوں کی آنکھوں کوکھول دیا اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے پناہ طلب کرنے لگے ۔فرعون نے بھی اپنے مال اور اقتدار کی چمک دمک سے قوم کو پھسلائے رکھا اور موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہ کرنے دیا۔ نتیجتاً اقتدار اورسرمایہ پرست لوگ ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے۔
نبی کریم ﷺ کی مخالفت کرنے والوں میں بھی بہت سے نمایاں سرمایہ دار شامل تھے۔ ا ن سرمایہ داروں نے اپنے مال کی وجہ سے گھمنڈ کیا اور اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کو فراموش کر دیا ۔ ان کا مال اور دولت ان کی تباہی کاسبب بن گیا اور دنیا و آخرت کی ناکامی ان کا مقدر ٹھہری ۔ابو لہب مکہ کا سردار اور بہت بڑا سرمایہ دار تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ لہب میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ ابو لہب کا مال و دولت اس کے کسی کام نہیں آئے گا اور جہنم کے دہکتے انگارے اس کا نصیب ٹھہریں گے ۔
ما ل و دولت کی فراوانی نے جہاں بہت سے لوگوں کو ہلاکت اور تباہی کے راستے پر چلا دیا وہیں پر اسی مال ودولت کے ذریعے بہت سے صاحبِ ثروت لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو بھی حاصل کیا ۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے تونگری عطا فرمائی تھی ۔آپ ؓ نے اپنے مال سے اپنے شوہر نامدار حضرت رسول اللہ ﷺ کی خوب خدمت کی اور اسلام کی دعوت کو پھیلانے کے لیے ہمہ وقت اپنے مال کو خرچ کرنے پر آمادہ وتیار رہیں ۔
حضرت عثمانؓنے غریب اور مسکین مسلمانوں کے لیے تجوری کا منہ کھول دیا۔ جب بھی اسلام کو ضرورت پڑی آپ نے پورے جذبے اور خلوص سے مال خرچ کیا ۔غزوہ تبوک کے موقع پر آپ ؓ نے سات سو اونٹوں کومع سازو سامان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خرچ کرکے نبی کریم ﷺ کی زبان ِرسالت مآب سے سات مرتبہ جنت کی بشارت کو بھی حاصل کیا ۔حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی امیر صحابی تھے اور اپنے مال کے ذریعے اسلام کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے ۔حضرت خدیجہ الکبریٰؓ ،حضرت ابو بکر صدیقؓ ،حضرت عثمان غنی ؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ و دیگر امیر صحابہ کرامؓ کا طرزعمل ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ مال ودولت کمانا کوئی عیب نہیں بشرطیکہ انسان اپنے مال پر سانپ بن کر نہ بیٹھا رہے ۔مال و دولت کے ذریعے اگر انسان اپنی جائز ضروریات اورخواہشات کو پورا کرتا اور معاشرے کے محروم ،مجبور اور دکھی طبقات کے کام آتا ہے تو یہی مال ودولت اس کی دنیاوی و اخروی نجات کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔رزق اور سرمایے کے درست استعمال کی نیت رکھنے والے افراد کے لیے قرآن و سنت نے ایسے بہت سے نسخے تجویز کیے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے رزق میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں ۔
1۔ پختہ ایمان : انسان کا اگر اللہ تعالیٰ کی ذات پر پختہ ایمان ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرمادیتے ہیں۔ اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر96میں واضح فرما دیا کہ ''اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کو اختیار کر لیتے تو ہم ان کیلئے آسمان اور زمین سے برکات کھو ل دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا چنانچہ ہم نے ان کے کیے کے سبب ان کو پکڑ لیا۔‘‘ سورہ اعراف کی مذکورہ آیت بتلا رہی ہے کہ انسان کے پختہ ایمان کے نتیجے میں آسمان سے بھی برکات کا نزول ہوتا ہے اور زمین سے بھی برکات کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اگر آ سمان و زمین سے برکات کے دروازے کھل جائیں تواقوام اور افراد کے رزق میں کسی قسم کی کمی باقی نہیں رہ سکتی ۔
2۔تقویٰ اور خشیت الٰہی: دنیا میں انواع و اقسام کی ایسی چیزیں موجود ہیں جو انسان کو بہت مرغوب ہیں ۔یہ تمام پسندیدہ چیزیں انسان کے لیے حلال نہیں ہیں۔ چنانچہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف کو اختیار کرتا ہے اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے کامیابی کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں ۔سورہ اعلیٰ کی آیت نمبر 14میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ''تحقیق وہ کامیاب ہوا جس نے پاکیزگی کو اختیار کیا ‘‘اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 189میں ارشاد ہوا ''اوراللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔ان کامیابیوں میں سے ایک حصہ رزق کی فراوانی بھی ہے ۔اس حقیقت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۃ طلاق کی دوسری اور تیسری آیت میں یوں کیا ''اور جو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگیوں سے نکلنے کاراستہ بناتے ہیں اور اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا ‘‘۔
3۔اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل :اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے خوف کو اپنے دل میں جگہ دینے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا بھی انسان کے رزق میں اضافے کا سبب ہے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر 3میں ارشاد فرمایا '' اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرے گا پس اللہ اس کے لیے کافی ہوجائے گا یقینا اللہ تعالیٰ اس کے مقصد کو پورا کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا مقدر طے کر رکھا ہے ‘‘۔
4۔اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل : جو شخص کھلے دل سے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات کی تعمیل کرتاہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے بھی رزق کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں ۔اہل کتاب نے اللہ تعالیٰ کے حکموں کوفراموش کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کی عمل پیرائی کے حوالے سے اہل کتاب کاذکر کرتے ہوئے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66میں ارشاد فرمایا ''اوروہ اگر تورات ،انجیل اور اپنے پروردگار کی طرف سے اپنی طرف اترنے والے (قرآن )پر عمل کرتے تو اپنے اوپر اور نیچے سے کھاتے ‘‘۔یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے احکامات پرعمل کیا جائے تو اللہ تعالیٰ انسانوں کے لیے آسمان و زمین سے رزق کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں ۔
5:اللہ تعالیٰ سے بخشش اور مغفر ت کو طلب کرنا :جب انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں اور سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30کے مطابق ''جو مصیبت بھی انسان کی زندگی میں آتی ہے اس کے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے ‘‘۔جب انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے راستے کو چھوڑ کر اس سے مغفر ت اوربخشش کو طلب کرنا شروع کر دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتے ہیں اور اس کی ساری تنگیاں دور ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور اس کے رزق میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جاتاہے ۔اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے سورہ نوح کی آیت نمبر10،11 ،12میں یوں بیان فرمایا ''او ر اپنے رب سے استغفار کرو وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے ۔وہ تمہارے اوپر فراواں بارشوں کو نازل فرمائے گا ،تمہارے مالوں اور بیٹوں میں اضافہ کرے گا اور تمہارے لیے باغات او ر دریاؤں کو رواں فرمادے گا ‘‘۔
6۔پرخلوص دعا:قرآن مجید کے مطالعے سے بھی معلوم ہوتاہے جب بندہ اپنے لیے خلوصِ دل سے دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے غموںاور دکھوں کو دور فرما کر اس کی خواہشات اورتمناؤں کو پورا فرما دیتے ہیں ۔
7۔اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا : جب انسان اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کا بدل ضرور عطا فرماتے ہیں ۔سورہ سباء کی آیت نمبر 39میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ''اور تم جو کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کا بدل دے گا اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے ‘‘۔
قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج ،عمرہ اور نکاح کرنے والوں کے رزق میں بھی اللہ تعالیٰ اضافہ فرماتے ہیں۔ رزق حلال کے لیے کوشاں لوگوں کو قرآن وسنت کی ان تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے اور جس حد تک ممکن ہو ان پر عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان کے لیے ضرور رزق کے دروازوں کو کھول کر ان کی محرومیوں کا ازالہ فرمائیں گے ۔انشاء اللہ!