گزشتہ چند روز امت مسلمہ پر بہت بھاری تھے۔ ڈیڑھ ارب مسلمان جس ذہنی اذیت اور کرب سے گزرے ،انہیںالفاظ کے سانچے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ یورپی حکومتوں ، اداروں اور ذرائع ابلاغ نے گزشتہ عشرے کے دوران جس انداز میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اس کی مثال ماضی سے پیش نہیں کی جاسکتی۔ یورپی ممالک کہنے کو تو سیکولر ہیں اور حریت فکر،آزادیٔ اظہار، شہری آزادیاں، سماجی انصاف اور انسانی حقوق کے دلفریب نعرے لگاکرتوجہ اپنی طرف مبذول کرواتے رہتے ہیں لیکن امرواقع یہ ہے کہ یہ ممالک مذہبی تعصب کا مظاہرہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ آج سے چند برس قبل ڈنمارک کے ایک اخبارنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے چھاپے، جس پر سارا عالمِ اسلام سراپا احتجاج بن گیا۔ عالم اسلام کے انتہائی موثر احتجاج کے باوجود ڈنمارک کے اخباراور حکومت نے اپنے اس رویے پر نہ تو ندامت کا اظہارکیا اور نہ ہی مستقبل میں ایسی ناپاک جسارتوں کے امکانات کو رد کیا۔
اس المناک سانحے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پربھی ایک مستقل پیج اس ناپاک کام کے لیے مختص کر دیا گیا۔گو فیس بک قابل نفرت مواد کو عوامی احتجاج پر ہٹانے کی دعویدار ہے، لیکن اس پیج کے خلاف کروڑوں مسلمانوں کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہ دی گئی اور فیس بک پر یہ پیج موجود ہے۔ اسی طرح ویڈیو مواد کی سب سے بڑی ویب سائٹ یوٹیوب نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس سے متعلق توہین آمیز فلم کو آویزاں کیے رکھا۔کئی مسلمان ممالک میں کام کرنے والے دینی اداروں اور باشعور افراد نے اس عمل پر بھر پور احتجاج کیا لیکن اس کے باوجود یوٹیوب نے حریت فکر اور آزادیٔ اظہار کی آڑ میں توہین رسالت کی ناپاک جسارتوںکو جاری رکھا۔
یورپ کے سیکولرازم کا عمومی تاثر تودنیا میں یہی ہے کہ وہاں پر ہر شخص کومرضی کے ساتھ زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہے اور ریاست لوگوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کرتی اور یورپی ممالک توہین آمیز خاکوں کے بارے میں بھی دنیا کو یہی پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے آزاد پریس کو کسی بھی طور پر بند اور پابند نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ یورپی سیکولرازم حقیقت میںمذہبی عدم برداشت اور جانبداری کا شکار ہے اور اہل مغرب مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
حقیقی سیکولرازم کا تقاضا تو یہ تھا کہ اگر ایک عورت کو اپنی مرضی کے ساتھ مختصر لباس پہننے کی اجازت ہے تو اس کو حجاب نقاب کرنے کی مکمل اجازت دی جاتی لیکن یہ ثابت شدہ امر ہے کہ فرانس اور جرمنی میں مسلمان عورتوںکو نقاب اورحجاب کے حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ فرانس میں پبلک مقامات پر حجاب کرنے والی عورتوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اور تعلیمی اداروں سے ان کے نام کو خارج کردیا جاتا ہے۔ جرمنی میں چند برس قبل مصر سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون مروۃ الشربینی کو الیکس نامی ایک متعصب جرمن کی نفرت کا نشانہ بننا پڑا۔ شام کی سیرکے دوران الیکس نامی نوجوان مروہ الشربینی پر آوازیں کستا اور نفرت انگیز رویے کا اظہارکرتا۔ مروۃ الشربینی نے اپنے مذہبی حقوق کی پاسداری کے لیے جرمن عدالت سے رجوع کیا، عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران ہی الیکس نے خنجر کے پے درپے وار کر کے مروۃ کو شہیدکردیا۔ الیکس کو اس کی جارحیت پر کسی بھی قسم کی سزاکا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ مذہبی آزادی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود یورپ ہی کے ملک سوئٹزر لینڈ میں مسجدوں کے میناروں کی تعمیر پر پابندی عائد کر دی گئی اور ان میناروں کو سوئس تہذیب کے لیے بہت بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔
مذہبی عدم برداشت اور مسلمانوں سے نفرت کے جملہ مظاہر میں سے توہین قرآن اور توہین رسالت کے واقعات سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ باقی تمام واقعات کے ازالے کے لیے یا تو قانونی جنگ لڑی جاسکتی ہے یا سماجی سطح پر متحد ہو کر منفی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن آزادیٔ اظہار کے نعرے کی آڑ میں توہین قرآن اور توہین رسالت کے واقعات کو کسی بھی طور پر گوارا نہیں کیا جا سکتا۔
ماضی میںجس وقت پادری ٹیری جونز نے توہین قرآن کی ناپاک جسارت کی تھی تو اس وقت دنیائے اسلام میںبالعموم ایک تاثر پایا جاتا تھا کہ اس قسم کے منفی ہتھکنڈے اختیار کرنے والے یہ ناپاک عناصر توہین آمیزکارروائیاں اپنی ذاتی حیثیت میں رہ کر رہے ہیں اور انہیں کسی بھی قسم کی سرکاری یا ریاستی سرپرستی حاصل نہیں۔ بعض مسلمان دانشور بھی مذہبی طبقات کو یہ پیغام بڑی شدومد سے دیتے تھے کہ چند افراد کی ذہنی پرا گندگی اور ناپاک جسارت کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں لیکن وقت اور حالات نے ثابت کیا کہ توہین آمیز کارروائیوں کو باقاعدہ مغربی قیادت کی سرپرستی حاصل ہے اور وہ اس حوالے سے امت مسلمہ کے جذبات کی قدرکرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ چارلی ہیبڈو کے ناپاک اقدامات پر جس طرح یورپی سربراہان ہم آواز ہوکر میدان عمل میں اترے ہیں اس نے دنیانے ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ یورپی سربراہان اور عوام کا یہ طرز عمل کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔
ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین پر یورپ اور اہل مغرب نے اس لیے اتفاق کیا تھا کہ کسی بھی فرد یا ادارے کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے اس طرح کے قوانین وقت کی اہم ضرورت تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت اداروں اور افراد کی حرمت اور ناموس سے کہیں بڑھ کر نہیں ہے؟ اگر ہتک عزت کے قوانین کے تحت زیادتی کرنے والے شخص کو کروڑوں ڈالرکا ہرجانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے تو کیا کائنات کے مقدس ترین وجود کی گستاخی کرنے والے لوگ کسی سزا کے مستحق نہیں ہیں ؟ اگر آزادیٔ اظہار اور حریت فکر فردکی عزت اور عدالت کے تقدس کے مقابلے میں بے بس ہو سکتی ہے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر حملہ کرنے کی بے لگام آزادی کیوں ہے؟ اس سارے رویے کی وجہ مذہبی عدم برداشت اور عصبیت کے ساتھ ساتھ کمزور مسلمان سیاسی قیادت بھی ہے۔
اگر مسلمان ممالک اور ان کے نمائندہ ادارے اس مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو توہین آمیز واقعات کا تدارک ہو سکتا ہے۔ مسلمان ممالک کی برآمدات ، درآمدات کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ یورپی ممالک کو اپنی قیمتی مصنوعات کی فروخت کے لیے مسلمان ممالک میں بسنے والے کروڑوںمسلمان خریداروں کی ضرورت ہے اگر ان کو اس بات کا خطرہ لاحق ہو جائے کہ مسلمان حقیقت میں ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرسکتے ہیں تووہ اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے مسلمانوں کے ساتھ جانبدارانہ طرز عمل تبدیل کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اگر چارلی ہیبڈوکے دفاع کے لیے چالیس ممالک کے سربراہان جمع ہو سکتے ہیں اور چالیس لاکھ افرادکو سڑکوں پر لا سکتے ہیں توکیا مسلمان سربراہان اپنے مرکز محبت کے دفاع کے لیے میدان عمل میں نہیں آسکتے۔ مسلمان حکمرانوںکو اس مسئلے پر سنجیدہ اور موثر کردارادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اس مسئلے پر مذہبی اور غیر مذہبی کی تفریق بھی ختم ہو چاہیے۔ معاشرے کے تمام طبقات بشمول سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو متحد ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کے لیے آواز اٹھانی چاہیے۔ اگر مسلمان ہم آواز ہو جائیں تو بین الاقوامی سطح پر بھی حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے موثر قانون سازی کروائی جا سکتی ہے۔ اگر جمہوریت عوام کی رائے ہی کا نام ہے تو اہل مغرب کو ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی رائے اورجذبات کا احترام کرنا چاہیے۔ اگر جمہوریت حریت فکر اور آزایٔ اظہار ہی کانام ہے تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ چارلی ہیبڈوکی کامیڈی کرنے والے اداکارکو کل فرانس میں گرفتارکیوں کیا گیا؟ اہل مغرب کو اپنے رویوں پر یا تو نظر ثانی کرنی چاہیے یاخود ساختہ جمہوریت کا نعرہ چھوڑ کرکھلم کھلا آمریت کا نقیب بن جانا چاہیے۔