ملک میں کافی عرصے سے مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے بحث وتمحیص کا سلسلہ جاری ہے۔ اس بحث کے پس منظر میں ایک انجانا خوف یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم کے نتیجے میں معاشرہ خدانخواستہ بدامنی اور فساد کا شکار ہو جائے گا۔ دین کی تعلیم سے بے بہرہ لوگ دین اور مذہب کی تعلیم سے مکمل طور پر بدگمان ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ دین شاید انسانوں کی آزادیوں کو سلب کرنا چاہتا ہے اور دین کے فروغ کے نتیجے میں ہم پسماندگی کا شکار ہو جائیں گے۔
اس سلسلے کی اہم ترین بات یہ ہے کہ بعض لوگوں کے کردار اور عمل کی روشنی میں دین کو سمجھنا بہت بڑی کج روی ہے۔ دین بنیادی طور پر اللہ کی کتاب اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ کا نام ہے اور کلام اللہ اور احادیث نبویہؐ ہی کی روشنی میں دین کے اصل چہرے کو دیکھنے کی جستجوکرنی چاہیے۔ دین کی تعلیم وتبلیغ کا بنیادی مقصد عقائد اور اعمال کی پراگندگی کو دور کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ والعصر میں زمانے یا عصرکے وقت کی قسم اُٹھا کر انسانوں کو گھاٹے میں قرار دیا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اختیارکرتے ہوئے حق اور صبر کی تلقین کرتے ہیں۔
اس عقیدے اور عمل کی اصلاح کے نتیجے میں معاشرہ فکری اور اخلاقی زوال سے محفوظ ہو جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو جزیرۃ العرب کے لوگ بت پرستی، شجر پرستی، ستارہ پرستی اورحضرت عیسیٰ اور حضرت عزیر علیہم السلام کی پوجاکرنے میں مصروف تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو توحید باری تعالیٰ کا درس دیا اور ان کو سورج، چاند، ستارے اور پتھروں کی چوکھٹ سے اُٹھا کرایک اللہ کے آستانے پر جھکنے کا سبق سکھایا۔ عقیدہ توحید انسانوں کی وحشت اور درماندگی کو دور کرتا ہے۔ ایک رب پر بھروسے اور امید کی وجہ سے انسان زندگی کے نشیب وفراز کا مقابلہ پوری ہمت اور تو انائی سے کرتا ہے۔ کوئی بھی حادثہ یا تکلیف اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونے دیتی۔ ہر حادثے، مشکل اور تکلیف سے نکلنے کے لیے انسان اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے ہر طرح کی پریشانی اور تنگی سے نکلنے کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ بنا دیتے ہیں۔ اللہ کا خوف اور اس کی بارگاہ میں جوابدہی کا احساس انسان کو اس کے در سے دور نہیں ہونے دیتا۔
معاشرے میں بدامنی اور فساد کی بہت بڑی وجہ جہاں بداعتقادی اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے دوری ہے وہیں پر بدعملی کی وجہ سے بھی معاشرے میں بہت زیادہ فساد برپا ہوتا ہے۔ سودی لین دین کی وجہ سے معاشرہ ہمدردی اور ایثار جیسی خصوصیات سے عاری ہو جاتا ہے۔ خودغرضی اور شقاوت کی وجہ سے انسان ہمہ وقت دوسرے انسانوں کا استحصال کرنے میں مشغول رہتا ہے اور اس کا واحد مقصد غریب انسانوں کے خون کو چوس کر اپنی تجوری اور پیٹ کو بھرنا ہوتا ہے ؛ چنانچہ اسلام نے سود کی ہر شکل کو حرام قرار دے دیا۔
انسانی جان کی حرمت اور تکریم کے بغیر کوئی بھی معاشرہ باقی نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ایک انسان کے خون ناحق کو پوری انسانیت کا قتل عام قرار دیا اور ایک کے بچاؤ کی جستجو کو پوری انسانیت کے بچاؤ سے تعبیرکیا۔ مظلوم اور بے گناہ انسانوں کے قتل کو روکنے کے لیے قانون قصاص کو متعارف کروایا گیا تاکہ قاتل خواہ مرد ہو یا عورت ،آزاد ہو یا غلام قانون کی گرفت سے نہ بچ سکے۔ اس قانون کے نفاذ کا مقصد ظالم و درندہ صفت انسانوں کی بیخ کنی کے ذریعے معاشرے میں امن وامان قائم کرنا تھا۔
انسان کی جان کی طرح ان کی عزت کی حفاظت بھی انتہائی اہم ہے ۔ چنانچہ معاشرے میں نکاح کے بغیر عورتوں سے تعلق رکھنے کے خواہش مند افراد کی حصلہ شکنی کے لیے قرآن و سنت میں کڑی سزائیں مقرر کی گئیں۔ غیر شادی شدہ زانی کی سزا 100کوڑے رکھی گئی اور شادی شدہ زانی کو سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا۔ جبلی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک سے زائد نکاح کی بھی اجازت دی گئی۔ معاشرے میں بے حیائی کی ترویج کو روکنے کے لیے اختلاط کی حوصلہ شکنی کی گئی اور حجاب کے احکام کو قرآن مجید کی سورہ احزاب اور سورہ نور میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا۔ ان تعلیمات کا مقصد کسی کو گھٹن کا شکارکرنا نہیں تھا بلکہ معاشرے میں بسنے والے ہر شخص کی بہن، بیٹی اور بیوی کی آبرو کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ لوگوں کو جھوٹی تہمت سے بچانے کے لیے حد قذف رکھی گئی تاکہ کوئی بھی بدنیت شخص کسی
بے گناہ خاتون یا مرد کی کرادار کشی کرنے کی جسارت نہ کر سکے۔ انسانوں کی عزت وناموس کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے اموال کا تحفظ بھی انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ چوروں اور ڈکیتوں کے لیے سنگین سزائیں مقرر کی گئیں۔ چورمرد اور چور عورت کو اپنے جرم کی پاداش میںجب اپنے ہاتھ سے محروم ہونے کا اندیشہ لاحق ہوا تو ان کی ہمتیں اور حوصلے جواب دے گئے۔ منشیات کا پھیلاؤ معاشرے کی اخلاقی اور طبی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا تھا ۔ چنانچہ نشہ آور اشیا کو پینے والا کوڑوں کی سزاؤں کا مستحق ٹھہرا۔
یہ تمام قوانین انسانوں کے فائدے کے لیے تھے۔ ان اہم قوانین کے ساتھ ساتھ مثالی زندگی گزارنے کے لیے بہت سے اصولوں کو قرآن وسنت میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا۔ قرآن و سنت میںتصنع کی بجائے سادگی، فخر کی بجائے عاجزی، خودغرضی کی بجائے ایثار اور بے صبری کی بجائے صبر کا درس دے کر انسانوں کے لیے زندگی کے اعلیٰ ترین معیار مقررکیے گئے۔
مدارس میں اسی دین کی تعلیم دی جاتی ہے جو انسانوں کو انسانیت کی اعلیٰ ترین اقدار سے روشناس کروانے والا مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے ۔ مدارس کے نصاب کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ جرائم پیشہ اور مذموم مقاصد رکھنے والے عناصر زندگی کے کسی بھی شعبے میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ چنانچہ ایسے عناصر کی وجہ سے دین اور دینی تعلیمات دینے والے اداروں کو نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا کسی بھی طور پر مستحسن عمل نہیں ہے۔ مدارس پر یہ الزام ہے کہ وہ عصری تعلیم دینے کے حامی نہیں ہیں۔ یہ الزام غیر حقیقی ہے اس لیے کہ مدارس میں بنیادی علوم کے ساتھ ساتھ بہت سے معاون علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔ مدارس کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مدارس نے بڑے بڑے ماہرین تعلیم اورمحققین پیدا کیے جنہوں نے طب ، ہندسہ، کیمیا اور کتابت کی نئی جہتوں سے انسانوں کو روشناس کروایا۔ تاہم یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ جس طرح میڈیکل کالجزکا بنیادی مقصد میڈیسن کی تعلیم اور انجینئرنگ یونیورسٹیز کا بنیادی مقصد انجینئرنگ کی تعلیم دینا ہے اسی طرح مدارس کا بنیادی مقصد دین کی تعلیم دینا ہے اور اس بنیادی تعلیم سے زیادہ کسی اور علم کی ترویج کے لیے ان اداروں کو استعمال یا مجبور کرنا درست نہیں۔
اگر حکومت اور ریاست مدارس سے بدگمان ہے تو اس کو مدارس کے نصاب سے کہیں زیادہ اہمیت غیر نصابی سرگرمیوں کو دینی چاہیے۔ اگر کوئی مدرسہ انسانیت کو نقصان پہنچانے والی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اس کے ساتھ قانونی تقاضوں کے مطابق سلوک ہونا چاہیے ؛ تاہم کسی پراپیگنڈے اور سازش کی وجہ سے خیر کے ان سرچشموں کی بندش یاحوصلہ شکنی کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو اسلام کی آماجگاہ اور امن وسکون کا گہوارہ بنائے۔