"AIZ" (space) message & send to 7575

ایک نظریاتی جرنیل

موت کا ذائقہ ہر انسان نے چکھنا ہے‘ لیکن بعض لوگ اپنے کردار اور عمل کا ایسا تاثر چھوڑ جاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود بھی ان کے نقوش ہمیشہ کے لیے دل و دماغ پر ثبت ہو جاتے ہیں۔ انہی یادگار لوگوں میں جنرل حمید گل بھی شامل ہیں۔ حمید گل مرحوم نے انتہائی متحرک اور قابل رشک زندگی بسر کی اور ملک و ملت سے اپنی والہانہ وابستگی کے سبب دھرتی کے قابل فخر سپوتوں میں شامل ہوئے۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمید گل کی زندگی کا وہ حصہ جو انہوں نے سروس مین کے طور پرگزارا اس کی تفصیلات سے صحیح معنوں میں ان کے ہم عصر اور ہم پیشہ لوگ ہی واقف ہوں گے۔ لیکن اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے جس انداز میں اپنی زندگی گزاری‘ اس سے معاشرے کا ایک بڑا حصہ آگاہ ہے۔
مجھے بھی جنرل حمید گل کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ دفاع پاکستان کونسل، ملی یکجہتی کونسل اور سی پی آر ڈی نامی ایک تھنک ٹینک کے پلیٹ فارم پر ان کے ہمراہ بہت سی تقریبات میں خطاب کاموقع بھی ملا۔ جنرل صاحب انتہائی خوش گفتار، ملنسار اور خوش طبع انسان تھے۔ ان کی گفتگو اور خطاب میں تسلسل اور خیالات میں غیرمعمولی ربط تھا۔ وہ اپنے نظریات کے ابلاغ میں انتہائی مہارت رکھتے تھے اور دلائل اور مثالوں کے ذریعے سامعین کے دلوںو دماغ کی گہرائیوں میں اپنی بات اتار دیتے تھے۔ 
جنرل صاحب نظریاتی اعتبار سے دائیں بازو سے وابستہ تھے اور اسلام اور پاکستان کے مخالفین کا ہمہ وقت تعاقب کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ انہوں نے ہمیشہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے کی خواہش اور امید رکھی اور اس حوالے سے ہمیشہ موثر گفتگو اور خطاب فرماتے رہے۔ وہ نفاذ اسلام کے حوالے سے نہ تو جمہوری اور پارلیمانی راستہ اختیار کرنے کے حامی تھے اور نہ ہی اسلام کا نفاذ طاقت کے ذریعے کرنا چاہتے تھے۔ ان کا یہ ذہن تھا کہ ملک میں جاری پارٹی سسٹم نے عوام کو تقسیم کیا ہے اورعوام کو گروہوں اور ٹولیوں میں تقسیم کیے بغیر نفاذ اسلام اور خلافت راشدہ کے احیاء کے لیے تیارکر نا چاہیے۔ جنرل صاحب کا گمان تھا کہ فقط متواتر ابلاغ کے ذریعے بھی ایسا وقت آ سکتا ہے کہ لوگ نفاذ اسلام کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں۔ ان کا یہ گمان تھا کہ بڑی عوامی تحریک نفاذ اسلام پر منتج ہو سکتی ہے۔ ووٹ اور طاقت کے استعمال کے حامی جنرل صاحب کے روڈ میپ سے مطمئن نہ ہو پاتے لیکن پھر بھی جنرل صاحب کی اسلام پسندی کی وجہ سے ہمہ وقت ان کے احترام پر تیار رہتے تھے۔ 
جنرل صاحب سامراج کے بہت بڑے مخالف تھے لہٰذا افغانستان پر امریکی حملے کے خلاف بھر پور آواز اُٹھائی۔ وہ افغانیوں کی امریکہ کے خلاف جدوجہد کو ہر اعتبار سے درست قرار دیتے اور اس کو قومی آزادی کے لیے چلائی جانے والی ایک تحریک سمجھتے تھے۔ ان کی نظروں میں افغان بین الاقوامی سامراج کے جبر واستبداد کے خلاف جہاد میں مصروف تھے اور وہ اس حوالے سے اُٹھائے جانے والے سوالات اور اعتراضات کابھر پور جواب دیتے تھے ۔ 
جنرل صاحب نے دفاع پاکستان کے پلیٹ فارم سے نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے بھرپور جدوجہدکی ۔ مولانا سمیع الحق اور حافظ سعید کی ہمراہی میں ،مینار پاکستان، لیاقت باغ راولپنڈی، جناح باغ کراچی اور دیگر مقامات پر نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے بھرپور آواز اُٹھائی۔ جب دفاع پاکستان کونسل نے لاہور سے اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرف لانگ مارچ کیا تو گرمی کی شدت کی وجہ سے جنرل صاحب کی طبیعت ناساز ہو گئی اس کے باوجود وہ مختلف مقامات پر منعقد ہونے والے بڑے عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے رہے۔ ان کا استقلال اس موقع پر دیدنی تھا ۔ جنرل صاحب کے بڑے بیٹے برادرم عبداللہ گل نے جنرل صاحب کی طبیعت کی خرابی کو دیکھتے ہوئے بڑے ادب اور احترام سے انہیں گھر واپس چلنے کا مشورہ دیا لیکن جنرل صاحب پوری استقامت سے لانگ مارچ میں شریک رہے۔ گو جنرل صاحب ملی یکجہتی کونسل کے باضابطہ رکن نہ تھے‘ اس کے باوجود فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے کونسل کے اجلاسوں میں تشریف لاتے اور اتحاد اُمت کی برکات کے حوالے سے انتہائی موثر گفتگو فرماتے۔ آپ ملی وحدت کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کی بھر پور حمایت کیا کرتے تھے اور ہمیشہ فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے قرآن وسنت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتے۔ 
جنرل صاحب قومی اور ملی مسائل پر ہونے والے ٹی وی مذاکرات میں بھی بکثرت شریک ہوتے اور اپنی فکر انگیز گفتگو کے ذریعے پوری قوم کی رہنمائی فرماتے۔ ان مذاکرات میں کئی مرتبہ آپ کی مڈبھیڑ سیکولر دانشوروںسے ہوتی جن کے سامنے آپ دھیمے انداز میں موثر دلائل رکھتے ۔ اکثر وبیشتر آپ کے مدمقابل شرکاء آپ کی شخصیت کی سحر انگیزی اور دلائل کے وزن کی وجہ سے لاجواب ہو جاتے۔ جنرل صاحب نے ہمیشہ پاکستان کے نظریاتی تشخص کو اجاگر کیا ۔ آپ پاکستان کو کسی بھی طور پر روایتی قومی ریاست کے طور پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے ۔ آپ کے نزدیک ایک کثیر القومی ریاست کے اتحاد ، بقاء اور ترقی کے لیے مذہب کا عنصر انتہائی ضروری تھا اور اس حوالے سے آپ اپنے موقف میں کسی بھی قسم کی لچک نہیں رکھتے۔ آپ کے نزدیک تحریک پاکستان کے قائدین کی جدوجہد کی سیکولر تعبیر ناقابل قبول تھی اور آپ اس تعبیر کوقیام پاکستان کے لیے دی جانے والی قربانیوں سے بے وفائی سمجھتے تھے۔ 
میں اور جنرل حمید گل سی پی آر ڈی نامی ایک تھنک ٹینک کے ممبر بھی رہے ۔ سی پی آر ڈی کے اجلاسوں میں ان کے افکار کو مزید قریب سے سننے اور جاننے کا موقع ملا۔ جنرل صاحب پاکستان کو دہشت گردی سے پاک ایک پر امن ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ آپ کے نزدیک پاکستان کے دشمن دہشت گرد ی کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے تھے ۔اس تھنک ٹینک کے ممبران نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس تجاویز پر مشتمل ایک ڈرافٹ بھی تیار کیا تھا جس کو ارکان کے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ سول اورعسکری قیادت کوبھی روانہ کیا گیا تھا ۔
مرحوم حمید گل کے ملک کے تمام مذہبی حلقوں سے قریبی مراسم تھے ۔ حافظ محمد سعید، مولانا سمیع الحق اور سید منور حسن صاحب کے ساتھ ان کی ذہنی ہم آہنگی آخری وقت تک برقرار رہی ۔ جنرل صاحب عمر بھر فعال رہے اور ریٹائرمنٹ کے باوجود سر گرم تحریکی اور سماجی زندگی گزارتے رہے ۔ ان کی وفات پر ملک کے تمام مذہبی طبقات نے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور ملک و ملت کے تمام بہی خواہ آپ کی مغفرت اور اخروی کامیابی کے لیے دعا گو ہیں۔
جنرل حمید گل کی موت نے اس حقیقت کو بھی اجاگر کیا کہ ہر شخص کو اس دارفانی کو خیرباد کہہ کے اپنے پروردگار کی طرف لوٹناہے۔دنیا سے رخصت ہونا اورقبر میں اترنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔ ہر رہائشی کالونی اور آبادی میں بنائے جانے والے قبرستا ن انسانوں کی عارضی زندگی کی حقیقت کو واضح کر رہے ہیں لیکن انسان کی کوتاہ بینی ہے کہ وہ ہر روز انسانوں کو مرتا دیکھ کربھی خود کو لا فانی سمجھ رہا ہے۔ اوروں کے جنازوں کو جاتا دیکھ کر بھی موت کے احساس سے عاری یہ انسان سمجھتا ہے کہ شاید اس کا جنازہ کبھی نہیں اُٹھایا جائے گا۔ اے کاش کہ انسان زندگانی کی حقیقت کو صحیح طریقے سے سمجھ کر اپنی حقیقی منزل کا تعین کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں