آج کا دن ملکی سیاست کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ شہر لاہور کا سیاسی فیصلہ ملک کے مستقبل کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ ایک دور تھا جب لاہور پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست کا مرکزتھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو بڑے فخر سے لاہور کو جیالوں کا شہر قرار دیتے رہے۔ جب تک لاہور پر پیپلز پارٹی کی گرفت مضبوط رہی اس وقت تک ملکی سیاست پربھی پیپلز پارٹی کے اثرات گہرے رہے۔
موجودہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن)نے 1988ء کے انتخابات میں ملک کی دینی جماعتوں کی ہمراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا۔ یہ اتحاد ابتدائی طور پر تو لاہور کی سیاست پر حاوی نہ ہو سکا لیکن اس کے توسط سے مسلم لیگ (ن)کو لاہور میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔ میاں نواز شریف کا تعلق تاجر طبقے سے تھا ۔ تجارتی اور مذہبی طبقات کی معاونت سے میاں صاحب ابتدا میں لاہور اوربعد ازاں پنجاب اور ملک کی سیاست پر بھی حاوی ہو گئے۔ پیپلز پارٹی 1970 ء سے 1988ء تک تنہاملک کی سیاست پر حاوی رہی‘لیکن 1988 ء کے بعد آنے والے تمام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا۔ کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ (ن) اقتدار اور طاقت کے ایوانوں میں داخل ہوتی رہی۔
بے نظیربھٹو کی وفات کے بعد پیپلزپارٹی میں قیادت کا خلا پیدا ہوا اور مسلم لیگ (ن) نے اس خلا کا بھر پور فائدہ اُٹھایا لیکن اسی دوران پاکستان تحریک انصاف نے عوامی سطح پر اُبھرنا شروع کیا ۔ مسلم لیگ (ن) کی روایتی سیاست کے مقابلے میں عمران خان کے جارحانہ انداز نے نوجوانوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا شروع کی اور 2013ء کے انتخابات میں لاہور میں پہلی مرتبہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ (ن) کا بھرپور طریقے سے مقابلہ کیا۔ ان انتخابات میں گو تحریک انصاف کو لاہور سے نمایاں کامیابی حاصل نہ ہوئی لیکن مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کے مقابلے میں تحریک انصاف اپنے ووٹ بینک کا تاثر قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
2013ء کے انتخابات کے بعد عمران خان نے انتخابات کو دھاندلی زد ہ قرار دیا اور حکومت کے خلاف بڑے جلسے اور بعد ازاں لانگ مارچ کر ڈالا ۔اس لانگ مارچ میں عوامی تحریک نے بھی عمران خان کا ساتھ دیا۔ میاں نواز شریف کی ٹھنڈی اور دھیمی طبیعت اور حکمت عملی کی وجہ سے لانگ مارچ اپنے مقاصد پوری طرح حاصل کیے بغیر ہی اختتام تک پہنچ گیا ۔ لانگ مارچ کے خاتمے کے بعدشروع میں تو مسلم لیگ (ن) کے رہنما پُر سکون رہے لیکن عمران خان نے احتجاجی سیاست کے ذریعے حکومت کو دباؤ میں لانے کی جدوجہد جاری رکھی۔
لاہور کے حلقے این اے 122 سے عمران خان عام انتخابات میں ایاز صادق کے مقابلے میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ عمران خان کا الزام تھا کہ ایک منظم سازش کے تحت انہیںاس حلقے میں انتخابی عمل سے باہرکیا گیا۔ عمران خان اس حلقے میں بار بار ری پولنگ کا مطالبہ کرتے رہے۔ بالآخر عمران خان کا یہ مطالبہ پورا ہوا اور اس حلقے میں باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز کیا گیا۔
اس حلقے میں عوام کی بڑی تعداد ایک عرصے سے مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دیتی چلی آرہی ہے لیکن گزشتہ عام انتخابات میں تحریک انصاف نے بھی اس حلقے سے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس ووٹ بینک کے باوجود چونکہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایاز صادق پر فوقیت حاصل نہ کر سکے ‘ اس لیے ابتدامیں عوام کا یہ گمان تھا کہ تحریک انصاف کا امیدوار ضمنی انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن)کے لیے پریشانی کا باعث نہیں بن سکے گا۔ عمران خان صاحب نے اس حلقے سے عبدالعلیم خان کو ٹکٹ دیا تو مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے اسے اپنے لیے خوش آئند خیال کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عبدالعلیم خان کے ماضی کے حوالے سے سیاسی حلقوں میں بعض تحفظات پائے جاتے تھے ۔ وہ پرویز مشرف کے کیمپ میں رہے اور مسلم لیگ (ق) کی سابق صوبائی کابینہ میں بھی وزیر بھی رہے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا خیال تھا کہ وہ اپنے پس منظر کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے لیے آسان شکار ثابت ہوں گے‘ لیکن یہی آسان شکار مسلم لیگ (ن) کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہوا۔
عبدالعلیم خان انتخابی سیاست کا وسیع تجربہ رکھتے ہیںاور پبلسٹی، انتخابی دفاتر کے قیام اور انتخابی جلسوں کے انعقاد کے خاصے ماہر ہیں۔ ان کی انتخابی مہم نے مسلم لیگ (ن) کو دباؤ میں مبتلا کر دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ایاز صادق نے بھی عبدالعلیم کی جارحانہ مہم کے خلاف مؤثر دفاعی مہم چلائی اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ کو متحرک کرنے کے لیے اپنی بساط کی حد تک بھر پور جدوجہد کی۔
عبدالعلیم خان میرے بچپن کے ہم جماعت ساتھی ہیں اور ہم نے ایک ہی سکول سے ایک ہی سال میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انہوں نے مجھ سے بھی اس حلقے میں تعاون کا مطالبہ کیا ۔ چونکہ دونوں امیدواروں کوپاکستان کے اسلامی نظریاتی تشخص سے خاطر خواہ دلچسپی نہیں تھی اس لیے میں نے دیرینہ تعلقات کے باوجود غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی ۔
بہر کیف آج وہ دن آچکا ہے ‘جب دودھ کا دووھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ آج کے انتخابی نتائج کے پاکستان کی سیاست پر دوررس اور گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ اگر مسلم لیگ (ن) انتخابات کی شفافیت کے تاثر کو برقرار رکھتے ہوئے اس انتخابی معرکے میں کامیابی حاصل کر لیتی ہے تو بلدیاتی انتخابات اور آئندہ انتخابات میں بھی مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک برقرار رہے گا‘لیکن اگر عبدالعلیم خان اس معرکے کے فاتح بن کر ابھرتے ہیں یا انتخابات دھاندلی زدہ قرار پاتے ہیں تو اس سے مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کو بہت بڑا دھچکا پہنچے گااور بلدیاتی انتخابات اور آئندہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کو کم ازکم لاہور کی سطح پر مسلم لیگ (ن) کے مقابلے پر اخلاقی اور سیاسی فوقیت حاصل ہو گی۔
اس موقع پر عام انتخابات میں پاکستان کی سیاست میں حصہ لینے والی مذہبی جماعتوں کو ٹھنڈے دل سے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی جماعتیں جب بھی متحد ہو کر سامنے آتی ہیں‘ ان کو عوام کی واضح تائید حاصل ہوتی ہے‘ ماضی میں جس کی مثال پاکستان قومی اتحاد، اسلامی جمہوری اتحاد اور متحدہ مجلس عمل کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ اس کے برعکس جب بھی یہ جماعتیں ٹکڑوں میں تقسیم رہتی ہیں تو روایتی سیاسی جماعتیں انہیں سیاسی اکھاڑے سے نکال باہر کرتی ہیں۔ مذہبی جماعتوں کو حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنا چاہیے اور پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی ذمہ داریوںکو بطریق احسن انجام دینا چاہیے ‘ اس لیے کہ اگر وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہیں تو پاکستان کی سیاست میں ان کے اثرات سمٹتے چلے جائیں گے اور بہت سے ایسے لوگ جو مذہب اور ریاست کے تعلق کے حوالے سے پہلے ہی تحفظات کا شکار ہیں مزید تشویش میں مبتلا ہوتے چلے جائیںگے۔ اس وقت ملک کا ایک مؤثر طبقہ پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست کی بجائے قومی ریاست بنانے کے درپے ہے۔ یہ لوگ پاکستان کے آئین میں کتاب وسنت کی بالادستی سے متعلقہ شقوں کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طبقے کی منفی پیش قدمی کوروکنے کے لیے دینی جماعتوں کو ایک مشترکہ لائحۂ عمل ضرور تیار کرنا ہوگا‘ تاکہ ملک کو اسلامی فلاحی جمہوری ریاست کے طور پر قائم ودائم رکھا جاسکے۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے سربراہ تحریک انصاف کی وکالت جب کہ مولانا فضل الرحمن ہر حکومت کی پشت پناہی اور بعض دیگر مذہبی جماعتیں ہمہ وقت مسلم لیگ (ن) کی غیر مشروط حمایت میں مصروف اور مشغول ہیں جس کی وجہ سے دین پسند عوام شدید اضطراب کا شکار ہیں۔ اگر دینی جماعتوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس نہ کیا اور ملکی سیاست کے لیے کوئی فعال لائحۂ عمل مرتب نہ کیا تو دین پسند طبقات انتخابات ،جمہوریت اور سیاسی عمل سے لاتعلق اور بیزار ہو جائیں گے اور اس کی تمام تر ذمہ داری قائدین پر عائد ہو گی جنہوں نے معمولی جماعتی اورگروہی مفادات کے لیے ملت کے مفادات کو پس پشت ڈال دیا۔