"AIZ" (space) message & send to 7575

دورۂ برطانیہ

برطانیہ میں مقیم دوست احباب کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد مجھے اپنے ہاں آنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ اس سال بھی نومبرکے شروع میں ریڈنگ میں مقیم دیرینہ دوست ندیم رحمن نے مجھ سے رابطہ کیا کہ کم ازکم دو ہفتے کے لیے برطانیہ ضرور آؤں۔ دوستوں کے اصرار کو مدنظر رکھتے ہوئے میں بھی سفر پر آمادہ ہو گیا۔ 22 نومبر کو اتوار کی صبح لاہور ایئر پورٹ پر پہنچا تو برمنگھم میں مقیم پی آئی اے کے سینئر افسر غلام رؤف صاحب سے ملاقات ہو گئی،جن سے میرے دوستانہ تعلقات کئی برسوںپر محیط ہیں۔ جب لاہور میں آپ پی آئی اے کے ہیڈ آفس میں کام کرتے تھے تو عموماً جہاز کی ٹکٹ میں اُنہی سے بک کروایا کرتا تھا؛چنانچہ اُنہیں دیکھ کر اطمینان ہوا کہ سفر اچھے طریقے سے گزر جائے گا۔ جہاز صبح 7بجے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے پرواز کر گیااور ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچ گیا۔کراچی ایئر پورٹ ٹرانزٹ لاؤنج میں بھی رؤف صاحب سے ملکی صورتحال اوردیگر مذہبی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ 11 بجے جہاز کراچی سے روانہ ہوا، راستے کاموسم مجموعی طور پر خوشگوار تھا۔ 8 گھنٹوں میں جہازکئی ملکوں پرسے پرواز کرتا لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ پر اتر گیا۔ 
فرانس میں ہونے والے دھماکوں کے سبب میرے ذہن میںیہ خیال تھا کہ شاید امی گریشن(Immigration) کے معاملات میں سختی ہو۔ لیکن خلاف توقع ایسا کچھ نہ ہوااور ایک دو منٹوں میں ہی کاؤنٹر سے فارغ ہوگیا۔ سفری سامان اُٹھایا اور ایئرپورٹ سے باہر نکل آیا۔ مجھے لینے کے لیے ندیم رحمن اور نبیل حسن موجود تھے۔ ڈیڑھ برس بعد دوبارہ برطانیہ آمد ہو رہی تھی لیکن اس عرصے کے دوران کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آئی۔ موسم شدید سرد تھا ،سردی کے پہلے جھونکے نے ہی برطانیہ آمد کا احساس دلا دیا۔ آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ریڈنگ میں ندیم رحمن بھائی کے گھر پہنچا کھانا کھایا، مغرب اورعشاء کی نمازیں ادا کیں اور لمبی تان کر سو گیا۔ 
اگلے دن صبح سویرے ہی آنکھ کھل گئی ۔ سفری تھکاوٹ اور اکتاہٹ کے احساسات نہ ہونے کے برابر تھے۔ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد بھی کچھ دیر تک سستاتا رہا۔ پیر سے لے کر بدھ تک دوست احباب سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ریڈنگ اور گردونواح کے دوست احباب برطانیہ آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے نماز جمعہ کی تصدیق کر رہے تھے،جمعہ ریڈنگ کی جامع مسجد میں پڑھایا،تقویٰ کے موضوع پر خطاب کا لب لباب یہ تھا کہ اگر انسان کبیرہ گناہوں سے بچ جائے تو اللہ تعالیٰ اس کی دیگر خطاؤں کو معاف فرما کر آخرت میں کامیابی عطا فرما دیتے ہیں۔ شام کوہیز کے دوست شہزاد سیٹھی لینے کے لیے آ گئے۔ سیٹھی صاحب کا لندن میں وسیع کاروبار ہے۔ انہوں نے ہفتے کے روز مجھے وسطی لندن کا دورہ کرایا اوردکھایا کہ کس طرح لندن میں مقیم لوگوں کی غالب اکثریت دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ کر اپنا وقت گزار رہی ہے۔ اتوار کی شام برادر عبدالحمید نے مارگیٹ آنے کی دعوت دے رکھی تھی۔ مارگیٹ لندن کے جنوب مغرب میں سمندر کے کنارے واقع ایک خوبصورت قصبہ ہے جس کو تینوں اطراف سے سمندر نے گھیرا ہوا ہے۔ مارگیٹ کی گھومتی، لہراتی ہوئی خوبصورت سڑکیںتھوڑی ہی دیر میں آپ کو سمندر کے کنارے تک پہنچا دیتی ہیں۔ برادر عبدالحمید مارگیٹ کی ایک بڑی جامع مسجد کے خطیب اور امام ہیں۔ یہ مسجد 2003ء تک گرجا گھر ہوا کرتی تھی لیکن یورپ میں دینی اقدار کی تنزلی کے سبب جب گرجا گھر ویران ہو گئے تو یہ گرجا گھر مسجد میں تبدیل ہو گیا۔ برادر عبدالحمید کا چھوٹا سا خوبصورت گھر مسجد سے پانچ منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔ اس مسجد میں دو دن تمام نمازیں با جماعت ادا کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایک خوبصورت نمازی جو دیکھنے میں پختون معلوم ہوتا تھا، کی نماز اور مسجد میں دلچسپی نے مجھے بہت متاثر کیا۔ پتا کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ پختون نظر آنے والا یہ شخص انگریز ہے اور اس نے مارچ 2015ء میں ہی اسلام قبول کیا ہے۔ یہ بات معلوم ہونے پر میرے تجسس بڑھا تومیں نے اس سے تبدیلی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہیں۔ 38سالہ نوجوان نے مجھے بتایا کہ اس کا نام جیمز تھا اور اسلام قبول کرنے کے بعد اس کا نام جمیل ہے۔
جمیل نے مجھے بتایا کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے حادثے کے بعد ذرائع ابلاغ میں نشر کی جانے والی مختلف خبروں کو سن کر اسلام کے بارے میںمتجسس ہوا اور کئی برس کی تحقیق کے بعد یقین ہو گیا کہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری پیغمبر اور رسول ہیں۔ جمیل دکھی تھا کہ میڈیا پر اسلام کا اصل چہرہ نہیں دکھایا جاتا اور مسلمانوں کو فقط دہشت گردوں کے روپ میں ہی پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ برما اور فلسطین سمیت دنیا کے مختلف مقامات پر مسلمان خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔ جمیل نے یہ بھی بتایا کہ قبول اسلام کے بعد اُسے دل ودماغ کا حقیقی سکون حاصل ہوااور ایک ایسے مذہب کو قبول کرکے اسے بہت خوشی ہوئی جو اپنی ساخت کے اعتبار سے آفاقی ہے۔ جمیل نے کہا کہ جب بھی میں مسلمانوں کو ملتا ہوں تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میرا خاندان کھویا نہیں بلکہ مجھے ایک نیا خاندان مل گیا ہے۔ جمیل کے قبول اسلام سے ایک مرتبہ پھر مجھے یہ یقین حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے لیے ہدایت کے دروازے کھول دیتا ہے اس کو کوئی بھی ہدایت کی نعمت سے محروم نہیں کر سکتا۔ مارگیٹ سے واپسی پر کچھ دیر میں ووکنگ میں رکا۔ یہاں میری آمد کا مقصد شفقت اور محبت کرنے والے ایک بزرگ دوست حاجی عبدالرزاق سے ملنا تھا۔ انہوں نے اپنے گھر پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ ووکنگ کے بعد لیٹن میں موجوددیرینہ دوست آصف ہاشمی کے گھر پہنچا، رات قیام کیا، ناشتہ کرنے کے بعد کچھ دیرمختلف امور پہ بات چیت ہوتی رہی۔نماز ظہر کی ادائیگی کے بعدآصف ہاشمی نے مجھے ریڈنگ واپس پہنچا دیا۔ بدھ کی رات ریڈنگ میں موجود دوست شہزاد کے گھرپاکستانی دوستوں کی نشست تھی۔ اس نشست میں ملکی صورتحال اور یورپ میں موجود مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ جمعرات کی دوپہر ریڈنگ کے معروف مذہبی کارکن حافظ عثمان عارف اصرار کرکے اپنے گھر کھانے پر لے گئے۔ کھانے سے فارغ ہو کر مانچسٹر روانگی تھی جہاں میں نے نماز جمعہ پڑھانا تھی۔ مانچسٹر کے راستے میں ویک فیلڈ میں اپنے دیرینہ دوست حافظ عبدالستار عاصم کے گھر قیام تھا۔ حافظ عبدالستار عاصم جید عالم دین ہیں اور برطانیہ میں اسلام چینل سے وابستہ ہیں۔ حافظ عبدالستار عاصم نے پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیااورہم نماز جمعہ سے ایک گھنٹہ قبل مانچسٹر روانہ ہو گئے۔ مانچسٹر میں توبہ اور استغفار کے موضوع پر خطبہ دیا ۔نماز کے بعد اپنے عزیز سہیل واسطی ، حافظ حمود الرحمن اور چوہدری اشرف صاحبان سے ملاقات کے بعد واپس لندن روانگی ہوئی۔ ریڈنگ پہنچا تومعروف پاکستانی نژاد برطانوی مبلغ عدنان رشید ملاقات کے لیے موجود تھے۔ ان کی تبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے تفصیلی گفتگوہوئی۔ صبح نماز فجر کے بعد تادیر سوتا رہا اور ظہر کی نماز کے بعد ہیتھروایئر پورٹ روانگی ہوئی۔ ہفتے کی دوپہر سفر کا آغاز ہونے لگا ہے ۔ جس وقت یہ سطور چھپ رہی ہوں گی ان شاء اللہ میں لاہور ایئر پورٹ پر اتر رہا ہوں گا۔یوں برطانیہ کا یہ سفر بہت سی یادوں کو دامن میں لیئے اختتام پذیر ہو گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں