14جنوری کو مجھے اپنے مرکز میں جماعت اسلامی پنجاب کے امیر میاں مقصود احمد کا دعوت نامہ موصول ہوا کہ جماعت اسلامی پنجاب کے زیر اہتمام آج( بدھ )پرنس ہال بالمقابل قذافی سٹیڈیم فیروز پور روڈ لاہور میں بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ میاں مقصود احمد کے دعوت نامے کو پڑھتے ہی میرے ذہن میں قرآن مجید کے وہ احکامات آنے شروع ہو گئے جن کا تعلق انسانی جان کی حرمت کے ساتھ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت 32 میں اس بات کو واضح فرما دیا کہ ایک انسان کا قتل ایک انسان کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا قتل ہے۔ اس کے بالمقابل سورہ نساء کی آیت 93 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومن کی جان کی حرمت کا ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا پس اُس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جہاں وہ لمبا عرصہ رہے گااور اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا غضب اور لعنت ہوگی اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر دیا گیا ہے۔
انسان دنیا میں ایک مرتبہ آتا ہے اور ہر معصوم اور بے گناہ کا یہ استحقاق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ زندگی کے ایام کو اچھے طریقے سے دنیا میں بسر کرے۔ لیکن بعض ناعاقبت اندیش لوگ ہر دور میں انسانی جانوں کے درپے رہے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں فرعون کے مظالم کا ذکر کیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیاکرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک عرصے تک فرعون کو ڈھیل دئیے رکھی ، لیکن اس کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل ہی میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرما کر فرعون کے احتساب کا احسن طریقے سے بندوبست فرما دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حـمیدکی سورہ بروج میں اصحاب الاخدود کا ذکر کیا ہے ۔ اصحاب الاخدود کا ''جرم‘‘ صرف یہی تھا کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کو تسلیم کرنے والے تھے۔ اس ''جرم‘‘ کی پاداش میں ان کے لیے آگ سے بھری خندقوں کو کھودا گیا اور ان میںاصحاب الاخدود کو ڈال دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ ان سے انتقام صرف اس لیے لیا گیا کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ایمان رکھنے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد بھی مسلمانوں پر حلقۂ حیات تنگ کر دیا گیا ۔ ان کے ساتھ ہر طرح کے ظلم وستم کو روا رکھا گیا۔ حضرت بلال حبشی، حضرت زنیرہ، حضرت سمیہ اور دیگر بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ظلم اور بربریت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتے رہے۔ تاریخ مختلف ادوار سے گزرتی رہی، یہاں تک کہ تاریخ نے وہ ادوار بھی دیکھے جب چنگیز خان او ر ہلاکو خان جیسے فاتحین نے اپنے دشمنوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرکے تاریخ میں اپنے نام کوبربریت اور ظلم کی ایک علامت بنا لیا۔
پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانانِ بر صغیر کو انگریزوں کے جانے کے بعد ہندؤں کی مکاری اور ان کے دجل سے بچانا تھا۔ اس مقصد کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ عورتوں کی عصمتوںکو پامال کیا گیا ، بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو سے تر کیا گیا۔ معصوم بچوں کو ذبح کر دیا گیا لیکن مسلمانانِ برصغیر اس بات پر مطمئن تھے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے اُنہیں ایسا دیس حاصل ہو گیا ہے جس میں اسلام کے آفاقی اصولوں کو صحیح طور پر لاگو کیا جا سکے گا۔ پاکستان اپنے قیام کے وقت دو حصوں میں تقسیم تھا، ایک مشرقی حصہ جو مشرقی بنگال پر مشتمل تھا اور ایک مغربی حصہ جو موجودہ پاکستان پر مشتمل ہے۔ مغربی اور مشرقی حصوں کے درمیان لسانی اور قومی بنیادوں پر تنازعات پیدا ہوئے ‘بدنصیبی کہ انہیں احسن طریقے سے حل کرنے کی کوشش نہ کی گئی اور یہ بڑھتے بڑھتے سیاسی تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔ نتیجتاً 1971ء میں بنگالیوں نے علیحدہ وطن حاصل کرنے کی بھرپور جدوجہد کی، اس جدوجہد میں ہندوستان کی مکاری اور سیاسی چالبازی بھی شامل ہو گئی۔ درد دل رکھنے والے مسلمان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل ہونے والے وطن کو یکجا رکھنا چاہتے تھے لیکن قوم پرست اور نسل پرست بنگالیوں کو بھارت کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ ان قوم پرست رہنماؤں نے جذباتی انداز میں اپنی تحریک کو آگے بڑھایا اور ملک وملت کے بہی خواہ ان کے مقابلے میں سیاسی اعتبار سے یکجا نہ ہو سکے۔
بنگلہ دیش معرض وجود میں آگیا ۔ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد بنگلہ دیش کو آئینی اور قانونی طور پر ایک جمہوری ریاست کے طور پر متعارف کرایاگیا۔ جمہوری معاشرے میں اختلافِ رائے اور مختلف سیاسی سوچ رکھنے کی مکمل اجازت ہوتی ہے اور مخالفین کو اس بنیاد پر کبھی بھی تہہ تیغ نہیں کیا جاتا کہ وہ حکومتی جماعت سے مختلف نظریات رکھتے ہیں لیکن بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد بنگلہ دیش میں سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر اپنے مخالفین سے انتقام لینے کے سلسلے کو ازسرنو شروع کیا گیا۔ سب سے پہلے ملا عبدالقادر شہید کو پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا اور ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے تحریک آزادیٔ بنگلہ دیش میں بنگالیوں کی آزادی کی مخالفت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس بنیاد پر جماعت اسلامی کے کئی رہنماؤں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔
وزیر اعظم بنگلہ دیش حسینہ واجد شیخ مجیب کی بیٹی ہیں اور ایک بڑی سیاسی جماعت کی رہنما۔وہ اپنے آپ کو بنگالیوں کے حقوق کی علمبردارگردانتی ہیں۔ حسینہ واجد بنگالی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمان ہونے کی بھی دعویدار ہیں۔ لیکن ان کا طرز عمل ظاہر کرتا ہے کہ موصوفہ کے دل میںمذہب وملت کا کوئی درد نہیں اور وہ ان مظلوم اور مجبور رہنماؤں کے ساتھ جو سلوک کر رہی ہیں اس نے ماضی کے جابر اور ظالم حکمرانوں اور بادشاہوں کی تاریخ کو ازسرنو تازہ کر دیا ہے۔ حسینہ واجد کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ہر عروج کے ساتھ زوال بھی بندھا ہوتا ہے۔ ہر بلندی کے ساتھ پستی بھی ہے۔ تاریخ میں جہاں پرچڑھاؤ ہے وہیں پر اتار بھی ہے۔
حسینہ واجد اگر اقتدار کے نشے میں بدمست ہو کر مظلوم مسلمان رہنماؤں کو انتقام کا نشانہ بناتی رہیں گی تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل کے مظلوموں کی داد رسی کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرما دیا تھا اسی طرح بنگلہ دیش کے مظلوم اورمقہور لوگوں کی نمائندگی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کسی نہ کسی رہنما یا قائد کو ضرور پیدا کرے گا جو حسینہ واجد اور اس کے ہمنواؤں سے اس ظلم و بربریت کا ضرور حساب لے گا۔
ظلم ظلم ہوتا ہے جو ایک عرصہ جاری رہنے کے بعد مٹ جاتا ہے۔ قاتل کو اپنے قتل کئے پر ضرور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے بھائی کو حسد کی وجہ سے شہید کر دیا لیکن بعد ازاں ندامت نے اس کو گھیر لیا۔ اسی طرح تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ ہر دور میں ظلم کرنے والے اور ناحق خون بہانے والے لوگ ہمیشہ اپنے کیے پر شرمندہ ہوئے ہیں۔ اس وقت حسینہ واجد پاکستان کی دشمنی میں اس حد تک آگے بڑھ چکی ہیں کہ اپنے ہی ملک کی ایک منظم جماعت کے قائدین کو چن چن کر موت کے گھاٹ اتار رہی ہیں۔ حسینہ واجد کو یاد رکھنا چاہیے کہ پھانسی کا پھندہ بے جان ہوتا ہے اور اس کو اس بات کا پتہ نہیں ہوتا کہ اس کی زد میں کون آرہا ہے۔ آج اگر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو تختہ دار پر چڑھایا جا رہا ہے تو کوئی بعید نہیں کہ کل پھانسی کا پھندہ ان کی گردن میں پڑا نظر آئے۔ حسینہ واجد کو چاہیے کہ اعتدال، بردباری، صبروتحمل اور سیاسی برداشت کے رویے کو اپناتے ہوئے جمہوری روایات کو فروغ دیں اور ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرتے ہوئے نئے سفر کا آغاز کریں۔ لیکن اگر موصوفہ نے تنگ نظری اور تعصب کی سوچ کو نہ بدلا تو وہ پروردگار عالم اور تاریخ کے انتقام سے نہیں بچ سکیں گی۔ اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ آنے والے عشروں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت اور تاریخ کے انتقام کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا۔