محترم نعمان مختار لکھوی صاحب ایک جید عالم دین اور جوہر ٹاؤن میں واقع الفیصل اسلامک سنٹر کے مدیر ہیں۔ نعمان مختار لکھوی صاحب کا مدرسہ تدریسی اعتبار سے ایک مثالی تعلیمی ادارہ ہے۔ ہر سال نعمان لکھوی صاحب اس مدرسے میں ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں۔ کانفرنس کا عنوان ہر سال موقع کی مناسبت سے تجویز کیا جاتا ہے۔ اس سال کانفرنس کا موضوع عظمت اسلام تھا‘ جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ صوبہ پنجاب کے علاوہ صوبہ سندھ سے بھی جید علمائے کرام نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔ ہر عالم دین نے اپنے اپنے انداز میں عظمت اسلام کے موضوع پر خیالات کو سامعین کے سامنے رکھا۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ میں نے اس موقع پر عظمت اسلام کے حوالے سے اپنی چند گزارشات سامعین کے سامنے رکھیں‘ جن کا خلاصہ میں قارئین کی خدمت میں بھی پیش کر رہا ہوں۔
اسلام بلاشبہ دنیا کا ایک عظیم مذہب ہے۔ سورہ آل عمران کے دو مقامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اور صرف اسلام ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اسلام کے علاوہ کسی بھی دین کو اختیار کرنے والے شخص کے دین کو قبول نہیں کرے گا‘ اور قیامت والے دن جہنم ایسے شخص کا مقدر بن جائے گا۔ اسلام کی عظمت کے حوالے سے اگرچہ قرآن و سنت کے دلائل متعدد ہیں‘ لیکن عظمت اسلام کے حوالے سے جن نکات کو میں نے سامعین کے سامنے رکھا‘ ان میں سے اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ اسلام کے بہت سے مسلمہ اصول ایسے ہیں‘ جن سے صرف اہلِ اسلام نے ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں نے بھی استفادہ کیا۔ وہ اصول جن سے غیر مسلم لوگ مستفید ہوئے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ طلاق: اسلام میں طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ ایک مثالی گھرانہ وہی ہے جس میں میاں بیوی کے درمیان کسی قسم کی ناچاکی اور کسی قسم کی کشمکش نہ پائی جائے‘ لیکن بعض اوقات حالات اس نہج پر آ جاتے ہیں کہ گھر کے بسنے کے امکانات باقی نہیں رہتے۔ ایسے موقع پر زبردستی گھر کے نظام کو چلانے کی کوشش کرنا دلوں میں دوریاں اور دماغوں میں تشویش اور تکلیف پیدا کرتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان حالات سے نبرد آزما ہونے اور شوہر اور بیوی کے لیے اچھے ماحول میں ایک دوسرے سے جدا ہو جانے کے لیے طلاق کی گنجائش رکھی۔ اسلام میں دو مرتبہ طلاق کے بعد شوہر اپنی بیوی سے رجوع کر سکتا ہے‘ لیکن تیسری مرتبہ طلاق کے بعد رجوع کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ عیسائی مذہب کے مطابق طلاق ایک انتہائی نا پسندیدہ فعل ہے اور اس مذہب میں کسی بھی حوالے سے شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں تک کہ جدائی کی صورت میں مرد اور عورت کو بائبل نے بدکردار قرار دیا‘ لیکن آج دنیا بھر کے مسیحی معاشرے اور دیگر مذاہب کے پیروکار طلاق کے اصولوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اسلام کے عطا کردہ وہ اصول ہیں‘ جن کے ذریعے شوہر اور بیوی کے درمیان تفریق ہو سکتی ہے۔
2۔ اختیاری جرم پر مواخذہ: بنیادی طور پر قانون دان یہ حقیقت جانتے ہیں کہ مجرم اسی شخص کو قرار دیا جا سکتا ہے‘ جس نے اپنی مرضی سے جرم کا ارتکاب کیا ہو‘ جس شخص کو جرم کرنے پر مجبور کر دیا جائے اور اس کے لیے اس کے ارتکاب کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو‘ ایسے شخص کو قانون کی نگاہ میں مجرم نہیں سمجھا جاتا۔ یہ اصول بھی اسلام سے حاصل کیا گیا۔ سورہ نور میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا ذکر کیا کہ لڑکیوں کو بدکرداری پر مجبور نہیں کرنا چاہیے‘ لیکن اگر کوئی شخص ان کو جبراً جسم فروشی پر مجبور کرتا ہے اور وہ مجبور ہو کر پر آمادہ و تیار ہو جاتی ہیں تو ایسی صورت میں اللہ تبارک و تعالیٰ ان سے مواخذہ نہیں کرے گا‘ بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کے گناہ کو معاف کر دے گا۔
3۔ محرم رشتہ داروں کا احترام: اسلام میں خاندانی نظام کو بچانے کے لیے اور ایک اچھی زندگی کو یقینی بنانے کے لیے محرم رشتہ داروں کا تصور پیش کیا گیا‘ جس کے مطابق کسی بھی انسان کے لیے اس کی ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی، ساس، بہو، رضاعی ماں، رضاعی بہن اور اپنی منکوحہ کی بیٹی محرم رشتہ دار ہیں۔ انسان ان رشتوں کے ساتھ خلوت میں آ سکتا ہے۔ ان رشتوں کے ساتھ نکاح کرنا اسلام میں حرام ہے۔ ہندو تہذیب میں ایک دور میں سوتیلی بہنوں کے ساتھ نکاح کیا جاتا تھا‘ لیکن اسلام کی آمد کے بعد آج ہم اس بات کا بڑی آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں کہ کوئی ہندو ایسا نہیں جو اپنی بہن، اپنی ماں یا اپنی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے پر آمادہ و تیارہو۔ یہ ادراک بھی اگر دنیا والوں کو حاصل ہوا تو بنیادی طور پر اسلام کی وجہ سے ہی حاصل ہوا۔
4۔ صحیفوں کا محفوظ ہونا: اسلام کے مسلمہ اصولوں سے جہاں غیر مسلموں نے استفادہ کیا وہاں دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی ایک امتیازی حیثیت یہ بھی ہے کہ اسلام کی تعلیمات فراہم کرنے والے صحیفے محفوظ ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی مذاہب موجود ہیں ان کی بنیادی کتابیں تحریف کا شکار ہو چکی ہیں‘ لیکن اسلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسلام کی دو بنیادی دستاویزات اللہ کی کتاب اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اسی طرح محفوظ و مامون ہیں‘ جس طرح آج سے چودہ سو برس قبل محفوظ و مامون تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ حجر میں اس امر کا اعلان فرما دیا کہ بے شک ہم نے ذکر کو نازل کیا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کے لیے لکڑیوں کی چھالوں، سنگ مر مر کی سلوں اور کاغذ کے سینے کو منتخب نہیں کیا بلکہ رہتی دنیا تک رہنمائی کرنے والی کتاب کو زندہ انسانوں کے دھڑکتے ہوئے دلوں کے اندر محفوظ و مامون فرما دیا ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین جو کہ قرآن و سنت کی شرح ہیں وہ بھی اسی طرح محفوظ و مامون ہیں جس طرح قرآن مجید محفوظ و مامون ہے؛ چنانچہ مسلمانوں کی جملہ عبادات جن میں نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی اور نوافل شامل ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کی سماجی رسومات‘ جن میں شادی بیاہ اور جنازے کی نماز اور تدفین شامل ہیں‘ کے بارے میں بھی شریعت کے تمام کے تمام پیغامات اسی طرح محفوظ ہیں جس طرح اس وقت محفوظ تھے جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تدریس کا فریضہ سرانجام دے رہے ہوتے تھے۔
اسلام کی عظمت کے حوالے سے اور بھی بہت سے نکات ہیں‘ لیکن فقط ان چار نکات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اسلام دنیا کے دیگر تمام مذاہب کے مقابلے میں اپنی تعلیمات کے اعتبار سے، اپنے وزن کے اعتبار سے اور انسانیت کی رہنمائی کے اعتبار سے سب سے زیادہ عظیم مذہب ہے۔ یہ بدنصیبی ہے کہ اتنے عظیم مذہب کے حامل ہونے کے باوجود مسلمان آج اسلام سے اس طرح تعلق استوار نہیں کر پا رہے جس طرح قرون اولیٰ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسلام سے اپنا تعلق استوار کیا تھا۔ اسلام کی عظمت کے حوالے سے قارئین کو اس بات کو بھی ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو زندگی کے کسی ایک شعبے میں نہیں بلکہ تمام تر شعبوں میں انسانیت کی رہنمائی کرتا ہے۔
اگر مسلمان دنیا اور آخرت کی سربلندی اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے اس عظیم مذہب کے ساتھ اپنا تعلق مضبوطی کے ساتھ استوار کر لینا چاہیے۔ اگر مسلمان اسلام کے ساتھ اپنا تعلق مضبوطی کے ساتھ استوار کر لیں گے تو آخرت کی سربلندی کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اسی طرح سربلند اور کامیاب اور کامران ہو جائیں گے جس طرح اسلام سے تمسک اختیار کرنے والی پہلی تین نسلیں دنیا میں سربلند اور سرخرو ہو کر رہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے عظیم مذہب کی عظمت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔