قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جس میں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نہایت بلیغ انداز میں بہت سے قیمتی اور اہم ارشادات کو نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ آخری کتاب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوئی۔ اس قرآن مجید کی 114سورتیں ہیں جن میں مختلف امور پر گفتگو کی گئی ہے۔ قرآن مجید کی ایک انتہائی خوبصورت سورت سورہ انبیاء ہے۔ اس میں بہت سے انبیاء علیہم السلام کے احوال کوبڑے ہی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے ۔ سورہ انبیاء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام، حضرت ایوب علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے بہت ہی دلنشیں واقعات کو بیان کیا۔ سورہ کے آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحـمتہ للعالمین ہونے کا بھی ذکر کیاہے۔ سورہ انبیاء کی تلاوت کے دوران انسان اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اس کی زندگی میں آنے والے نشیب وفراز کے حوالے سے اس کو ہمہ وقت اللہ تبار ک وتعالیٰ کی مدد اور تائید کی ضرورت ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدداور اُس کے فضل کی وجہ سے انسان اپنی زندگی کے بہت سے مسائل اور الجھے معاملات پر قابو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
سابقہ انبیاء علیہم السلام کے سیرت وکردار میں ہمارے لیے جُہد مسلسل اوراستقامت کے بہت سے دروس موجود ہیں۔ انسانی زندگی میں آنے والی بہت سی مشکلات میں سے ایک بڑی مشکل کسی بڑی بیماری کاآ جانا ہوتا ہے۔ کسی بھی بڑی بیماری کی آمد کے بعد انسان کو تکلیف، صعوبت، تنگی اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انسان کی اس تکلیف میں مبتلا ہونے کے بعد اس کے قریبی اعزاء واقارب بھی اس کی تنگی اور تکلیف کے آثار کو اپنی ذات پر محسوس کرتے ہیں۔ بساء اوقات تکلیف اور تنگی اس حدتک بڑھ جاتی ہے کہ انسان کی اس تنگی اور تکلیف کی وجہ سے اس کے اعزاء واقارب بھی بیزار ہو جاتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے قریبی اعزاء کے لیے موت تک کی دعائیں مانگنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ انسان مدت مدید تک ہسپتالوں اور علاج گاہوں میں جاتا رہتا ہے لیکن صحت کی بحالی کے امکانات نظر نہیں آتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر کیا کہ وہ بھی ایک لمبی بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ اِس لمبی بیماری کے دوران حضرت ایوب علیہ السلام نے صبر اور استقامت کے دامن کو نہیں چھوڑا ۔ حضرت ایوب علیہ السلام متواتر خندہ پیشانی کے ساتھ بیماری کو برداشت کرتے رہے۔ یہاں تلک کہ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگی: اے میرے پروردگار مجھے ضرر پہنچا ہے اور آپ سب سے زیادہ رحم فرمانے والے ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر یہ دعا مانگی تو اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انبیاء میں ارشا د فرماتے ہیں کہ ہم نے ایوب علیہ السلام کی تکلیف کو دور کر دیااور ان کے اہل بھی ان کو پلٹا دیے اور ان جیسے اہل اور بھی عطاء فرما دیے اور اس بات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیا تک اپنے بندوں کے لیے نصیحت بنادیا۔ اس واقعہ میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی بیماری جب مادی اعتبار سے لا علاج قرار پا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ پھر بھی انسان کی بیماریوں کو دور کرنے پرقادرہوتے ہیں۔ چنانچہ انسان کو اپنی زندگی میںآنے والے اس بڑے بحران کاخندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کومضبوطی کے ساتھ استوار کرنا چاہیے اور اس کی بارگاہ سے نا امید نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی بڑی سے بڑی بیماری کو دور فرما سکتے ہیں۔ا حادیث کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہر بیماری کا علاج بھی اس کے ساتھ پید افرمایا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ اس علاج تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور بعض لوگ اس علاج کو پانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کو مومنوں کی بیماریوں کے لیے شفاء بنا دیا ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بہت سی ایسی چیزوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں انسانوں کی بیماریوں کا علاج ہے ۔ آب زم زم، شہد، کلونجی اورعجوہ کھجور اس کی چند مثالیں ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ مالی اعتبار سے اپنا علاج معالجہ کروانے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے رحمت کے طلب گار رہا کریں اگر ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے اپنی امید کو وابستہ کیے رکھیں گے تو ان شاء اللہ ‘اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے جملہ امراض کو دور فرما دے گا۔ سورہ انبیاء ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی زندگی میں آنے والی ایک اور بڑی مشکل یعنی غم کا ذکر کیا ہے۔ دور حاضر کا انسان مادی زندگی میں مصروف رہنے کی وجہ سے روحانی طور پر تشنگی کا شکار ہو کر غموں کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ ان غموں سے نجات پانے کے لیے بہت سے لوگ نفسیاتی معالجین سے بھی رجوع کرتے ہیں۔ نفسیاتی معالج تحلیلِ نفسی کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ مسکن ادویات دے کر مریضوں کا علاج معالجہ کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انبیاء میں حضرت یونس علیہ السلام کے بہت بڑے غم کا ذکر کیا ہے۔ مچھلی کے پیٹ میں پانی کی دبیز تہوں کے نیچے حضرت یونس علیہ السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا اور یہ بات کہی کہ اللہ تبار ک وتعالیٰ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اس کی ذات پاک ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہی کہ جو تکلیف مجھ کو آئی ہے میری وجہ سے آئی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی فریاد کو قبول فرما لیا اورارشاد فرمایا کہ میں نے ان کو غم سے نجات دے دی اور ساتھ ہی اہل ایمان کی ڈھارس بندھانے کے لیے اس بات کو بھی واضح فرما دیا کہ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے صرف یونس علیہ السلام کے غم کو دور نہیں کیا تھا بلکہ اللہ تبار ک وتعالیٰ مومنوں کے غموں کو بھی اسی طرح دور فرماتے ہیں۔ ڈپریشن، اضطراب، بے قراری، بے چینی اور دیگر ذہنی اور نفسیاتی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے رجوع کر نا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنے کی وجہ سے اللہ تبار ک وتعالیٰ اہل ایمان کو اندھیروں سے روشنیوں کی سمت نکال دیتے ہیں اور ان کے جملہ غموں کو دور فرما دیتے ہیں۔
اسی سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی زندگیوں میں آنے والی ایک اور بڑی مشکل یعنی بے اولادی کا ذکر کیا ہے۔ انسان کے پاس شہرت، وقار، مال ودولت اور دنیا کی تمام نعمتیں اور سازوسامان موجود ہو لیکن اولاد کی نعمت سے محروم ہو تو انسان کی زندگی تشنگی کا شکار ہو جاتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انبیاء میں حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر کیا ۔ سورہ آل عمران میں اس امر کا ذکر ہے کہ حضرت زکریاعلیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کی کفالت کیا کرتے تھے۔ آپ جب ان کے پاس محراب میں آتے تو سیدہ مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھل موجود ہوتے۔ آپ نے سیدہ مریم علیہا السلام سے پوچھا یہ پھل کہاں سے آئے ہیں ؟ تو سیدہ مریم علیہا السلام نے کہا یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جس کو چاہتا ہے بِلا حساب رزق دیتا ہے۔ حضرت زکریا نے اس موقع پر اللہ تبارک وتعالیٰ سے اولادِ صالحہ کی دعا مانگی ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعاؤں کا قرآن مجید میں مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے ۔جن میں سے ایک مقام سورہ انبیاء ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا مستجاب ہوئی اور اللہ تبار ک وتعالیٰ نے آپ کو بھی اولاد صالح نرینہ کی نعمت سے نواز دیا۔ حضرت ایوب، حضرت یونس اور حضرت زکریا علیہم السلام کا واقعہ بیان فرما کر اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کی نشاندہی فرما رہے ہیں کہ اللہ تبا رک وتعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں۔ اب یہ بندوں کا کام ہے کہ وہ اپنے رب سے کس طرح اپنے تعلق کو استوار کرتے ہیں۔ انسان عام طور پر اپنی مشکلات کے حل کے لیے مادیت کے دائرہ کار میں تو جستجو کرتا ہے لیکن اپنے خالق ومالک کے ساتھ تعلق کو استوار کرنا فراموش کر دیتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اپنی زندگی کے بحرانوں اور مشکلات پر قابو پا سکیں تو علم وحکمت اور دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے جہاں پر ہمیں مادی اسباب کو استعمال کرنا چاہیے وہاں پر ان مادی اسباب میں برکت پیدا کرنے والے اور غیب سے مدد فرمانے والی ذات اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنے تعلق کو ہر صورت استوار کرنا چاہیے۔ اگرہم صحیح معنوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے اپنے تعلق کو استوار کر لیں تو زندگی کے نشیب وفراز اور زندگی میں آنے والی مشکلات سے صحیح معنوں میں عہدہ برا ہو سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں اپنے ساتھ تعلق استوار کرنے کی توفیق عطا ء فرمائے۔ آمین۔