قیام ِپاکستان کو 69 برس ہونے والے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان سے متعلق کئی مسائل تاحال حل طلب ہیں۔ اُن میں سے ایک اہم مسئلہ ''مسئلہ کشمیر‘‘ بھی ہے۔ کشمیر کے بسنے والے لوگوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے اور قیام ِپاکستان کے وقت ایک سازش کے تحت انہیں پاکستان سے ملحق نہ ہونے دیا گیا۔ اس الحاق کے نہ ہونے پر اگر اہل کشمیر مطمئن ہو جاتے تو اور بات تھی۔ مگر یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 69 برس کے دوران کشمیریوں نے بھارت کی بالا دستی اور اُس کے ساتھ الحاق کو کسی بھی طور پر قبول نہیں کیا اور بغیر کسی انقطاع کے وقفے وقفے سے اہل کشمیر پاکستان سے الحاق کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے ممتاز رہنما سید علی گیلانی ‘ میر واعظ ‘ یٰسین ملک ‘ مولانا شوکت مرحوم اور دیگر بہت سے رہنماؤں نے ہر دور میں جہاں پر کشمیر میں ہونے والے ظلم وبربریت کے خلاف بھرپور طریقے سے صدائے احتجاج بلند کی‘ وہیں پر پاکستان سے الحاق کی خواہش کو بھی کئی مرتبہ عوامی اور نجی سطح پرظاہر کیا۔
کشمیر کے لوگ 14 اگست کو پاکستان کے ساتھ یوم آزادی کو مناتے اور بھارت کے یوم آزادی کے دن کو یوم سیاہ کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ کشمیر میں اُٹھنے والی حالیہ بیداری کی لہر ماضی کی کئی لہروں کے مقابلے میں اس اعتبار سے زیادہ طاقت ور ہے کہ برہان وانی کے ریاستی قتل کے بعد کشمیری ایک مرتبہ پھر بھر پوری یکجہتی ، قوت اور تندہی کے ساتھ پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ پاکستانی قوم نے اس حوالے سے اگرچہ وہ کردار تو ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا لیکن 20 جولائی کو پوری قوم کسی نہ کسی اعتبار سے کشمیریوں کے ساتھ ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہوئے نظر آئی۔ حکومت پاکستان نے 20 تاریخ کو جب یوم سیاہ کا اعلان کیا تو پوری قوم نے اس کال پر لبیک کہا۔ حافظ محمد سعید اور ان کے رفقاء نے 19 جولائی سے لے کر 20 جولائی تک عوام کے جم غفیر کو اس مسئلے میں متحر ک کرنے کی جستجو کی اور اسلام آباد میں لاکھوں افراد کے اجتماع سے خطاب کیا۔ 20 تاریخ کولاہور میں بھی بہت سی اہم تقریبات کا انعقاد کیا گیا جن میں سے ایک اہم تقریب ایک مقامی ہوٹل میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ہوئی۔ جماعت اسلامی کے زیر اہتمام ہونے والی اس تقریب میں جہاں پر جماعت اسلامی کے سینئر رہنما لیاقت بلوچ ، فرید پراچہ ا ور میاں مقصود نے بیداری ٔ عوام کے حوالے سے اپنی آراء کا اظہار کیا‘ وہیں دیگر سیاسی ومذہبی جماعتوں کے نمائندگان نے بھی اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا۔ مجھے بھی اس موقع پر اپنی رائے دینے کا موقع میسر آیا۔ میں نے سرکردہ رہنماؤں کے سامنے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو گزارشات پیش کیں‘ انہیں میں قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
کشمیر کا مسئلہ تین اعتبار سے توجہ طلب ہے: پہلا حوالہ انسانی بنیاد ہے کہ جب بھی کبھی انسانوں کی ایک بڑی جمعیت اور کثیر تعداد کسی مسئلے پر متفق اور متحد ہو جائے تو اس کو صرف ریاستی جبر کے ذریعے یا طاقت کے ذریعے کچلنا ممکن نہیں رہتا اور اگر اس کو ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کی بھی جائے تو اس کا کوئی اخلاقی اور سیاسی جواز نہیں ہوتا۔ اقوام عالم کو انسانی حقوق کے حوالے سے ہونے والی سنگین خلاف ورزیوں پر توجہ دینی چاہیے۔ ماضی میں مغربی اقوام نے مشرقی تیمور ‘سوڈان و دیگر جگہوں میں عیسائی ریاستوں کے قیام کے لیے اپنا پورا وزن ڈالا۔ اپنی یکجہتی اور اتفاق ِ رائے کے ذریعے ان مسائل کو حل کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ دنیا بھر میں اگر کسی جانور یا مجسمے کے ساتھ بھی کوئی معاملہ ہو تو مغربی اقوام اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ رہتی ہیں لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی مسائل پر نہ جانے وہ کیوں خاموشی کو اختیار کر لیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین، برما اور کشمیر کے مسئلے پر اقوام عالم کا ضمیر بالکل سویا ہوا نظر آتا ہے۔ انسانی حوالے سے اگر مغربی اقوام اپنا کردار ادا نہیں بھی کرتیں تو اہل پاکستان کو اس حوالے سے بہر صورت اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
کشمیر کے مسئلے کا دوسرا حوالہ مذہبی ہے۔ کشمیر میں بسنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ بلادِ عرب، انڈونیشیا، ملیشیا، ترکی اور دیگر مسلمان ممالک پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو رشتہ اخوت کے تحت حل کروانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس اعتبار سے بھی اہل پاکستان پر یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ کلمہ طیبہ کے تعلق کی وجہ سے مظلوم کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم وبربریت کے خلاف بھر پور طریقے سے صدائے احتجاج کو بلند کیا جائے۔
مسئلہ کشمیر کا تیسرا پہلو قومی نوعیت کا ہے ۔ کشمیری عوام سے جہاں پر انسانی اور مذہبی اعتبار سے زیادتیاں کی گئی ہیں وہیں پر قومی اعتبار سے ان کو صرف پاکستان سے تعلق اور محبت کی نسبت سے ظلم وتشدد کا نشانہ بننا پڑ رہا ہے ۔ کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان سے ملحق ہونا چاہتے ہیں۔ اس اعتبارسے عالمی برادری اور دیگر اسلامی ممالک کوئی بھی کردار ادا نہ کریں تب بھی پاکستان کو اپنی ذمہ داری کو بھر پور طریقے سے ادا کرنا چاہیے اور مسئلہ کشمیر کو ترجیحی بنیادوں پر حل کروانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کشمیر میں ہونے والی سنگین نوعیت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف جب بھی قوم میں اشتعال اور جذبات بھڑکتے ہیں تو حکمران قومی جذبات کو بھانپتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن مستقل اور ترجیحی بنیادوںپر اس مسئلے کو حل کروانے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی جاتی۔ کچھ عرصہ قبل چین کے حوالے سے یہ بات منظر عام پر آئی تھی کہ چین نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی تائید کا اعلان کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی کیا تھاکہ پاکستان کو یہ بات واضح کرناہو گی کہ وہ خود کس مقام پر کھڑا ہے۔
ہمارے موجودہ حکمران اتفاق سے خود بھی کشمیر کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور حال ہی میںانہیں کشمیر میں نمایاں سیاسی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ لیکن بہرحال یہ ایک قومی المیہ ہے کہ ماضی قریب میں بھارت کو تجارتی اور اقتصادی اعتبار سے پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوششیں بھی اسی دور حکومت میں کی گئی تھیں ۔کشمیر عوام پاکستان کے ساتھ ملحق ہونا چاہتے ہیں۔ جب بھی کبھی پاکستان اور انڈیا کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات کیے جاتے ہیں تو ان میں جہاں پر بہت سے ضمنی اور غیر اہم مسائل کو زیر بحث لایا جاتا ہے وہاں پر بالعموم کشمیر اور آبی جارحیت جیسے بنیادی مسائل کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یوم سیاہ منانا یقینا قابل قدر ہے لیکن اس پر اکتفا کر لینا کسی بھی اعتبار سے قابل قدر اور قابل تحسین نہیںہے۔ مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قرار داد کے مطابق حل کروانے کے لیے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرنا ، سفارت خانوں کو متحرک کرنا اور اپنے ملک میں موجود موثر لوگوں کے ذمے اس اہم کام کو لگانا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں کشمیر کمیٹی ایک عرصے سے کام کر رہی ہے۔ کشمیر کمیٹی کے حوالے سے بھی عوام کے ذہنوں میں مختلف تحفظات موجود ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کمیٹی کے ذریعے اپنے حلیفوں کو سیاسی مفادات ، مراعات اور اہم مناصب دیے جاتے ہیں لیکن کشمیر کمیٹی اس حوالے سے قابل ذکر اور قابل قدر کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ کشمیر کمیٹی کو اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا چاہیے۔ دفتر خارجہ اور کشمیر کمیٹی کے باہم روابط کو مربوط کر کے پوری دنیا میں اس مسئلے کو انسانی ، مذہبی اور قومی حوالے سے اجاگر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور کشمیری عوام کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے کشمیر کے ساتھ حقیقی وابستگی کا اظہار کرکے ان کو آزادی دلوانے کی جستجو کرنی چاہیے۔