"AIZ" (space) message & send to 7575

قومی سلامتی سے متعلق اہم امور

پاکستان مسلمانانِ ہند کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ جسے برصغیر کے مسلمانوں نے طویل عرصے کی جدوجہد کے بعد حاصل کیا۔ پاکستان کی آزادی کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں نے ہجرت کی ‘بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں رنگین کیا گیا‘ معصوم بچوں کو ذبح اور نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔وطن عزیز کے دفاع اور اس کی سلامتی کے لیے اس کا ہر باشندہ ہمیشہ دعا گو رہتا ہے۔ عرصہ ٔ دراز تک ملک کی سیاسی اور دینی جماعتیں دفاع وطن کے لیے اپنا اپنا کردار اپنے اپنے انداز میں کرتی رہیں۔ کچھ سال قبل دفاع پاکستان کونسل کے نام سے پاکستان کے دفاع کے لیے باقاعدہ ایک فورم قائم کیا گیا۔ نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے دفاع پاکستان کونسل نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔ انتخابی گہما گہمی کے بعد کچھ عرصے کے لیے دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ کشمیرمیں ہونے والے حالیہ مظالم اورپاکستان اور بھارت کی کشیدگی کی وجہ سے دفاع پاکستان کونسل کا ازسر نو احیاء کیا گیا۔ 
میں دفاع پاکستان کونسل کے قیام کے روز اوّل ہی سے اس کے ساتھ وابستہ رہا ہوںاور میں نے اس فورم میں شریک تمام جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کو پاکستان اور اسلام کی محبت سے سرشار پایا ہے۔ جب بھی کبھی پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوا یا ایسے اقدامات کیے گئے جن سے پاکستان کے دفاع اور اس کی خودمختاری پرحرف آتا ہو دفاع پاکستان کونسل کی سٹیئرنگ کمیٹی اور اس سے تعلق رکھنے والے قائدین نے اس کا بروقت نوٹس لیتے ہوئے ان تمام اقدامات کا تدارک کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالیہ چند دنوں میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیںجن پر دفاع پاکستان کونسل کی سٹیئرنگ کمیٹی کے رہنماؤں کو دوبارہ جمع ہونا پڑا۔ بعدازاں ان قائدین نے لاہور میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے پیغام کوعوام تک بھی منتقل کیا۔ افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کا اچھی سطح پر برقراررہنا دفاع پاکستان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ عرصۂ دراز سے پاکستان میں افغان مہاجرین آباد ہیں۔ اگرچہ ان افغانی باشندوں کا اصل ملک افغانستان ہے لیکن افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے انہیںمجبوراً پاکستان میں اپنا وقت گزارنا پڑ رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بعض حکومتی ذمہ داران نے ایسے بیانات جاری کیے جن سے یہ تاثر ملتا تھا کہ حکومت پاکستان افغانیوں کو کسی بھی طور پر مزید پناہ دینے کے لیے تیار نہیں اور ان کے انخلاء کے لیے فی الفور اقدامات کرناچاہتی ہے۔ یہ اقدامات نہ صرف یہ کہ پاکستان دشمن افغانیوں اور بھارت کے گٹھ جوڑ پر منتج ہونے کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ یورپ اور امریکہ میں مقیم پاکستانی آباد کاروں کے لیے بھی اس قدم کی وجہ سے قانونی اور آئینی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی تھیں۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت رکھنے والے قائدین پر ظلم وستم کرنے کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ پاکستان چین کی اقتصادی راہداری کے خلاف پاکستان کے دشمن عناصر مسلسل پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح کراچی اور بلوچستان میں بھارت اوردیگر پاکستان دشمن قوتیں مداخلت کرکے پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا چاہتی اور اس کی خودمختاری اور سالمیت پر ضرب کاری لگانا چاہتی ہیں۔ یہ تمام اموردفاع پاکستان کونسل کے لیے تشویش کا باعث تھے۔ چنانچہ سٹیئرنگ کمیٹی کے ہنگامی اجلاس میں ان تمام باتوں پر غوروغوض کیا گیا اور اس کے بعد جو فیصلے کیے گئے ان کو میں قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
سٹیئرنگ کمیٹی کے ارکان نے دفاع پاکستان کونسل کے قائدین کی ہدایات پر اس امر کا فیصلہ کیا کہ دفاع پاکستان کونسل پاکستان کے دشمنوں اورملک میں دشمن کے آلۂ کاروں کا مقابلہ سیسہ پلائی دیوار بن کر کرے گی۔ کمیٹی کے ارکان نے حالیہ پاک بھارت کشیدگی کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں آزادی اور خود ارادیت کی جدوجہدفیصلہ کن مراحل میں پہنچ گئی ہے۔ بھارت بوکھلا چکا ہے اور پاکستان کے خلاف شر انگیزی اور دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات اوردھمکیوںپر اتر آیا ہے۔ اڑی کا واقعہ بھارتی ظلم وبربریت کو چھپانے کے لیے سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے روکنے کے لیے بھارت اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ آزاد کشمیر کو آزادیٔ کشمیر کا بیس کیمپ بنا کر پوری قوت سے کشمیریوں کا ساتھ دیا جائے۔ 
سٹیئرنگ کمیٹی کے ممبران نے کورکمانڈرز میٹنگ میں بھارت کو موڑ توڑ جواب دینے کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا۔ 
سٹیئرنگ کمیٹی کے ممبران نے بنگلہ دیش میں محب اسلام اور بھارت مخالف دینی اور جمہوری قوتوں کے خلاف حسینہ واجد کے ظالمانہ ‘ غیر انسانی اور غیر دستوری سلوک ‘ عوام کے قتل عام اور قائدین کی پھانسیوں کی شدید مذمت کی۔ بنگلہ دیش میں ظلم وستم کے اس کھیل کو بھارتی ایماء قرار دیا گیا۔ بھارت پاکستان کے خلاف چونکہ مقبوضہ کشمیر میںہزیمت کا شکار ہے اس لیے وہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں نئی صف بندی کر رہا ہے اور بنگلہ دیش کو بھی اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے۔ 
حکومت پاکستان بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 1974ء ہونے والے سہ فریقی معاہدے کوبنگلہ دیش بھارت کی ایماء پر سبوتاژ کر رہا ہے چونکہ یہ ایک قانونی معاہدہ تھا اس لیے اس کی خلاف ورزی کو عالمی عدالت میں چیلنج کرنا چاہیے۔ 
دفاع پاکستان کونسل کے قائدین نے اس امر کا اظہار کیا کہ پاک چین اقتصادی راہدری پاکستان کے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹک رہی ہے۔ چنانچہ پاکستان کے تمام دشمن اس کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ اس لیے اس موقع پر افغان مہاجرین کے متعلق عدم حکمت اور عجلت میں تیار کردہ پالیسی نے حالات کو مزیدگمبھیر کر دیا ہے۔ افغان مہاجرین کی تذلیل کا سلسلہ کسی بھی طور پر پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو مل بیٹھ کر اس حوالے سے مشترکہ حکمت عملی طے کرنا چاہیے اور دینی اداروں میں افغان طلبہ وطالبات کے داخلے پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ افغان مہاجرین کی شوریٰ نے اس سلسلے میں ایک سال کا وقت طلب کیا ہے جس کا خیر مقدم کیا گیا اور واپسی کے طریقہ کار کے سلسلے میں افغان مہاجرین کی شوریٰ کے ساتھ مشاورت کرکے طریقہ کار کو طے کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ 
کمیٹی کے ممبران نے کہا کہ موجودہ حالات میں آزادی ٔ کشمیر کی تحریک اپنے پورے عروج پر پہنچ چکی ہے اور کشمیر میں پاکستان کے جھنڈے لہرائے جا رہے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں ایسے عالم میں کراچی اور بلوچستان میں پاکستان کے ـمخالف نعرے خالصتاً بھارتی مداخلت کا نتیجہ ہیں ۔ بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کے نیٹ ورک کے ناقابل تردید ثبوت بھی منظر عام پر آچکے ہیں۔ ان کو عالمی برادری کے سامنے رکھنا چاہیے۔ 
سٹیرنگ کمیٹی کے ارکان نے قومی سلامتی سے متعلقہ ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے درجہ ذیل فیصلے بھی کیے:
1۔ 4اکتوبر کو اسلام آباد میں آل پارٹی پاکستان کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گااور دفاع پاکستان کونسل کے قائدین وزیرداخلہ ‘ وزیر دفاع اور وزیر سرحدی امور سے ملاقاتیں کریں گے۔
2۔ کوئٹہ ‘ پشاور اور اسلام آباد میں بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا اور اگر حکمران بھارتی دوستی سے باز نہ آئے تو کوئٹہ اور پشاور میں دھرنے دیے جائیں گے۔ 
3۔ افغان مہاجرین سے یکجہتی، انسانی بنیادوں پر مسائل کے حل اور پاک افعان عوام کے درمیان مضبوط رشتے کو قائم رکھنے کے لیے افغان مہاجرین شوریٰ سے مسلسل رابطہ برقرار رکھا جائے گا۔ 
4۔ اہم میڈیا اداروں کے مالکان اور نمائندگان سے بھی دفاع پاکستان کونسل کے وفود ملاقات کریں گے۔ 
5۔ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں سری نگر سے چکوٹھی تک اور آزاد کشمیر میں مظفرآباد سے چکوٹھی تک عوامی مارچ کیا جائے گا جس سے دونوں ملکوں کے قومی قائدین خطاب کریں گے۔ 
ان تمام اقدامات کا مقصد پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہونے والی سازشوں کا تدارک کرنا اور حکمرانوں کی غفلت کو دور کرنا ہے۔ دفاع پاکستان کونسل کے قائدین اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے اور رائے عامہ کو بیدار کرنے کے لیے اپنا کردارادا کر رہے ہیں۔ اب یہ ذمہ داری حکومت پاکستان پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی دفاع پاکستان کونسل کے قائدین کی ترجیحات کے مطابق پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کا رخ متعین کرے تاکہ پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا جا سکے اور مادر وطن کو دشمن کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھا جا سکے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں