ہمارا ملک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ یہاں ہر شخص کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔ اگر کوئی شخص کسی مخصوص سیاسی یا مذہبی مکتب فکر اور نظریے پر عمل کرتا ہو تو اس کو کوئی دوسرا شخص تنگ نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود بعض لوگ آزادیٔ اظہار کی آڑ میں ایسے اقدامات کر گزرتے ہیں جو نہ صرف ملک کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں، بلکہ ان سے ہماری مذہبی اقدار اور روایات کو بھی گزند پہنچتا ہے۔
سوشل میڈیا کے پھیلاؤ کے بعد بہت سے لوگوں نے آزادیٔ اظہار کی آڑ میں ایسے نظریات کی نشر و اشاعت شروع کر دی ہے جو کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں۔ دنیا بھر میں لوگوں اور اداروں کے احترام اور عزت کو یقینی بنانے کے لیے ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں‘ جن کا مقصد اداروں کی خود مختاری اور عزت کو برقرار رکھنا اور انسانوں کی آزادی اور وقار کا تحفظ کرنا ہے۔ افراد اور اداروں کے احترام کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر مشرق و مغرب کا اتفاق ہے اور تمام مذاہب کے پیروکار ان پر یقین رکھتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ بعض عناصر آزادیٔ اظہار کی آڑ میں کئی بار مقدسات پر بھی حملے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا کہ بعض ناعاقبت اندیش لوگوں نے فیس بک پر ایسے پیجز بنائے‘ جن پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی توہین پر مبنی مواد کو مسلسل نشر کیا جاتا رہا۔ یہ لوگ بدقسمتی سے اپنے آپ کو جمہوریت پسند اور آزادیٔ اظہار کا علمبردار سمجھتے ہیں۔ ریاست ہر شخص کو زندہ رہنے کا حق دیتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ حریت فکر اور آزادیٔ اظہار کی آڑ لے کر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی توہین کا سلسلہ شروع کر دیں۔ بعض این جی اوز اور لبرل عناصر نے ان لوگوں کی بازیابی اور رہائی کے لیے تحریک چلانا شروع کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مملکت خداداد میں آزادیٔ اظہار کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ ان عناصر کو اپنے کردار اور رویوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ماضی میں جب کبھی بعض مذہبی عناصر کو گرفتار کیا گیا یا ان پر مقدمات قائم کیے گئے تو ان لوگوں نے ان کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے ان تمام اقدامات پر خاموشی اختیار کی‘ لیکن اب جب اللہ اور اس کے رسولﷺ کی مخالفت کرنے والے بعض عناصر کو تفتیش کے لیے تحویل میں لیا گیا ہے تو یہ لوگ پورے ملک میں احتجاج کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ملک میں کوئی شخص جرائم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کا عدالتی ٹرائل ہونا چاہیے اور اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج سے قبل یہ لوگ عدالتوں کی خود مختاری کے حوالے سے کیوں خاموش رہے اور اب اللہ اور رسولﷺ کی توہین پر مبنی مواد کی نشر و اشاعت کی گئی تو ان لوگوں کو عدالتی خود مختاری اور قانون کی بالادستی جیسے دل فریب نعرے کیوں یاد آنا شروع ہو گئے؟ معاصر معاشروں کا یہ المیہ رہا ہے کہ لوگ اپنے حقوق کے لیے ہر جائز و ناجائز دلیل پیش کرتے ہیں لیکن دوسروں کے حقوق کی بات آئے تو جائز راستوں کو بھی بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب تک یہ رویے ملک میں موجود رہیں گے مملکت خدا داد میں لوگوں کی حق تلفی ہوتی رہے گی۔ ریاست کا یہ فرض ہے کہ ہر شخص کو اس کے نظریات‘ خواہ وہ سیاسی ہوں یا مذہبی‘ کے مطابق زندگی گزارنے کا مکمل موقع فراہم کرے اور ہر کسی کے جان، مال اور عزت کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ لیکن ایسے عناصر جو انسانیت، اخلاق اور مذہب کی تمام حدود کو پھلانگتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی توہین جیسے اقدامات سے بھی باز نہیں آتے تو ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔
اہم خبر جو 14 جنوری کو اسلام آباد کے دنیا نیوزکے ایڈیشن میں شائع ہوئی وہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں منشیات فروشوں کے خلاف آپریشن کیا گیا اور 200 گھروں کی تلاشی لینے کے بعد 11 افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ نہرآبادی اوبھیقہ سیداں میں سرچ آپریشن کے دوران شراب کی 46 بوتلیں ،ایک کلوچھ سو گرام حشیش ،230گرام ہیروئن اور 6 موٹر سائیکلیں برآمد ہوئیں۔ آج سے کچھ عرصہ قبل قائد اعظم یونیورسٹی کے حوالے سے بھی ایک روح فرسا رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ اس یونیورسٹی کے طلبہ بھی منشیات کے استعمال میں مصروف ہیں اور یہ بات صرف قائد اعظم یونیورسٹی تک محدود نہ تھی بلکہ ملک میں بہت سے مقامات پر منشیات کی آزاد ترسیل کی اطلاعات ملتی رہتی تھیں۔ اسی طرح اسلام آباد ہی کے ایڈیشن میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایک فیکٹری سے شراب کی 115 بوتلیں برآمد ہوئیں۔ ہمارے ملک میں شراب پینے کا کلچر ایک عرصے سے خفیہ طور پر جاری وساری ہے۔ کچھ عرصہ قبل ممبر قومی اسمبلی جمشید دستی نے پارلیمنٹ لاجز میں بھی شراب کی ترسیل کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات کیے تھے۔ ہماری ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ملک میں منشیات کی آزادانہ خریدوفروخت پر مکمل پابندی عائد کرے اور جو لوگ اس قسم کے دھندوں میں ملوث ہیں ان کے خلاف فی الفور موثر اقدامات کیے جائیں۔ منشیات فروشی اور اس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرنے والے لوگ انسانیت کے دشمن ہیں۔ یہ معاشرے کے موثر اور صحت مند عناصر کو بیمار اور غیر موثر کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور وہ عناصر خصوصیت سے قابل مذمت ہیں جو طلباء کو اس راستے پر چلانا چاہتے ہیں۔
کچھ عرصہ قبل سینیٹ میں قائد اعظیم یونیورسٹی میں منشیات کی ترسیل کے حوالے سے ایک تفصیلی بحث ہوئی تھی۔ لیکن افسوس کہ تاحال اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے ملک میں کوئی موثر لائحہ عمل تیار نہیں کیا جا سکا۔ پاکستان کا اسلامی جمہوری تشخص اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ملک میں منشیات فروشی جیسی لعنت کو ہر صورت میں روکا جائے اور جو لوگ منشیات اور شراب فروشی میں کردار ادا کرتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
تیسری اہم خبر جو اس ہفتے پڑھنے کو ملی وہ یہ ہے کہ تیزاب گردی اور آگ سے جلانے والے مجرم کو تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا دی جائے گی، متاثرہ شخص کی موت پر مجرم کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ ملزم کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے اس قسم کے کیسوں کو جلد ازجلد نمٹایا جائے گا۔ اس خبر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم کے بل کو متفقہ طور پر منظورکر لیا۔اس بل کے مطابق تیزاب گردی اور آگ سے جلانے جیسے واقعات میں متاثرہ شخص کی موت ہونے سے جرم کا ارتکاب کرنے والے مجرم کو کم ازکم عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ دانستہ تیزاب یا آگ سے جلانے یا زخم پہنچانے والے شخص کو 3 سے 7 سال قید اور ایک لاکھ جرمانہ ہوگا۔ ملز م کے خلاف دوران کارروائی جہاں تک ممکن ہو روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی۔ ایکٹ پر عمل کرنے اور تیزاب کے ساتھ جلانے کے جرم کی نگرانی کا بورڈ قائم کیا جائے گا۔
ہمارے ملک میں کئی مرتبہ گھریلو اختلافات اور ناچاکیوں کا بدلہ لینے کے لیے اس قسم کے انسانیت سوز واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں ۔ ان واقعات کا تدارک کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس قسم کے بل معاشرے کی بقا اورسالمیت کے لیے نہایت ضروری اور ہر اعتبار سے حوصلہ افزا ہیں اور ہماری قومی اسمبلی کو اس قسم کے معاملات پر پہلے سے زیادہ توجہ مرتکز کرتے ہوئے مزید قانون سازی کرنی چاہیے۔ ہمارے معاشرے میں گھریلو اور سماجی تشدد اور خاص طور پر عورتوں اور ماتحتوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کے تدارک کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی اسمبلی کے ارکان اگر اس قسم کے قوانین کی تیاری میں اپنا وقت صرف کریں گے تو نہ صرف ملک میں مجبور افراد اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا بلکہ ہماری مقننہ کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔
چوتھی اہم خبر یہ ہے کہ اکبر بگٹی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے معروف سردار شاہ زین بگٹی نے پنجاب کا دورہ کیا اور اس دورے کے دوران انہوں نے مختلف سیاسی اور مذہبی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں کے دوران انہوں نے بلوچوں کے حقوق کے حوالے سے بعض تحفظات کا اظہارکیا۔ اس دورے کے دوران وہ مرکز لارنس روڈ میں مجھ سے ملاقات کے لیے آئے۔ میں نے اس موقع پر ان کے جائز مطالبات کی تائید کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں بسنے والے تمام مسالک، قومیتوں اور لسانی گروہوں کو ان کے جائز حقوق ملنے چاہئیں۔ جب تک ملک میں انصاف اور عدل کا بول بالا نہیں ہو گا اس وقت تک ملک میں افراتفری اور تنازعات جاری رہیںگے۔ ہماری حکومتوں اور وفاق کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک میں بسنے والی تمام قوموں کو ان کے جائز حقوق دے تاکہ ملک میں کشمکش اور افراتفری کا خاتمہ ہو اور ملک امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔