دفاع پاکستان کونسل ایک منظم، غیر سیاسی اور فعال پلیٹ فارم ہے جس کا مقصد ملک کے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔ اس پلیٹ فارم نے مختلف ادوار میں عوام الناس کی بیداری کے لیے منظم جدوجہد کی ہے۔ کچھ برس قبل نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے اس پلیٹ فارم کے زیر اہتمام ملک بھر میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتماعات کا انعقاد کیا گیا تھا جن میں ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے عوام الناس نے غیر معمولی دلچسپی کا اظہار کیا۔ دفاع پاکستان کونسل ملک کو درپیش چیلنجز اور بدلتے ہوئے حالات کے حوالے سے مولانا سمیع الحق کی صدارت میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سربراہی اجلاس بھی منعقد کرتی رہتی ہے۔ اگرہنگامی صورتحال میں سربراہان کا جمع ہونا ممکن نہ ہو تو سٹیئرنگ کمیٹی کے اجلاسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
دفاع پاکستان کونسل کے قیام کے دن سے لے کر میری تنظیم بھی اس پلیٹ فارم کا حصہ رہی ہے اور دیگر قائدین کی ہمراہی میں جب بھی کبھی ملک وملت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا میں نے بھی خطرے کے تدارک کے لیے اپنی رائے کو دفاع پاکستان کونسل کے اجلاسوں میں پیش کیا۔ ہمارا ملک پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کے لپیٹ میں ہے ان واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت اور عسکری ادارے پختہ عزائم کا اظہار اور منظم منصوبہ بندی کا اہتمام کرتے رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے۔ طویل عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک کو دہشت گردی کی خطرناک لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی ٔ کشمیر بھی پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں نبی کریم حضرت محمدﷺ کی شان اقدس میں توہین کرنے والے بلاگرز بھی قانون کی گرفت سے بے نیاز ہو کر گستاخانہ مواد کو نشر کرنے میں مشغول ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی رہنما اور کشمیر کاز کو عوام الناس کے سامنے اُجاگر کرنے والی ممتاز شخصیت حافظ محمد سعید بھی کچھ عرصے سے نظر بندہیں ۔ان تمام امور پر غوروخوض کرنے کے بعد دفاع پاکستان کونسل کی سٹیرنگ کمیٹی کے نمایاں ممبران نے پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ پریس کانفرنس میں بریفنگ دینے والوں میں جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ، جماعۃ الدعوہ کے رہنما حافظ عبدالرحمان مکی، جماعت اہل حدیث کے رہنما حافظ عبدالغفار روپڑی،سابق وزیر اطلاعات محمد علی درانی کے ہمراہ راقم الحروف بھی شامل تھا۔ پریس کانفرنس میں جن تجاویز اور آراء کا اظہار کیا گیا ان کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
دہشت گردی کے تدارک کے لیے دفاع پاکستان کونسل نے حکومت اور عسکری اداروں کی کوششوں کو خوش آئند قرار دینے کے باوجود ان میں کچھ اصلاحات کا مطالبہ کیا۔
دہشت گردی کی روک تھام کے لیے جہاں ملک بھر میں آپریشن کرنا اور دہشت گردوں کو ہدف بنا کر ان کا خاتمہ کرنے کی کوشش کرنا اور ان کی پکڑ دھکڑ کے لیے منصوبہ بندی کرنا ضروری ہے وہیں پر سرحد پار سے بننے والے دہشت گردی کے منصوبوں پر توجہ دینا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ماضی میں امریکی جاسوس ''ریمنڈ ڈیوس ‘‘اور ''را ‘‘کے ایجنٹ دہشت گردی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششیں اس وقت تک مؤثر نہیں ہو سکتیں جب تک ان بیرونی عناصر کو بے نقاب کرکے کیفر کردار تک نہ پہنچایا جائے جو دہشت گردی کے ان واقعات کے حقیقی منصوبہ ساز اور پشت پناہ ہیں۔ دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث عناصر کی پکڑ دھکڑ سے معاملات میں وقتی طور پر تو بہتری آ سکتی ہے لیکن کلی طور پر اس مسئلے کا حل اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سرحد پار سے ہونے والی منصوبہ بندی کی روک تھام کے لیے مؤثر حکمت عملی نہ تیار کی جائے۔
پریس کانفرنس میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اس آپریشن کا ہدف بالکل واضح اور قطعی ہونا چاہیے اور کسی بھی عنصر کو کسی بھی حوالے سے اپنے ذاتی یا گروہی مفاد کے لیے آپریشن کو استعمال کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے ۔اس تاثر کا ازالہ کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ آپریشن کے ذریعے کسی مخصوص قومیت کے حامل افراد یا کسی خاص مذہبی فکر رکھنے والے گروہ کوٹارگٹ کیا جائے گا۔ پاکستان میں تخریب کاری کرنے والے کا تعلق خواہ کسی بھی نقطۂ نظر ، مذہبی فکر یا سیاسی جماعت سے ہو اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے لیکن قیاس آرائیوں ، افواہوں اور امکانات کی بنیاد پر کسی قومیت یا مذہبی طبقے کے خلاف کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔ دہشت گردی کی مذمت کے ساتھ ساتھ اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا گیا کہ تحریک آزادیٔ کشمیر اور پاکستان کے دفاع کے لیے کام کرنے والے مؤثر رہنما حافظ سعید صاحب کی نظر بندی نے خطے میں بھارت کے دباؤ میںاضافہ کیا ہے اور آزادیٔ کشمیر کے لیے جدوجہد کرنے والے پاکستانی اور مقبوضہ کشمیر کے رہنماؤں اور عوام جذبات کو دھچکا پہنچایا ہے ۔ حافظ سعید صاحب اور ان کی جماعت کاماضی میں عدالتی ٹرائل کیا گیا لیکن وہ باعزت طور پر بری ہوئے اور ان پر ملک میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ مسلم لیگ(ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ صاحب نے بھی اس بات کی تائید اور توثیق کی ہے۔ لیکن ماضی قریب میں ملک کے وزیر دفاع خواجہ آصف صاحب نے یورپ کے دورے کے دوران حافظ سعید صاحب کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے نہ صرف یہ کہ ان کی کردار کشی ہوئی ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کو پاکستان کے خلاف انگلیاں اُٹھانے کا موقع ملا ہے کہ پاکستان کے اندر دہشت گرد موجود ہیں لیکن پاکستان ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہا۔ خواجہ آصف صاحب کا یہ بیان ہر اعتبار سے غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پروفیسر حافظ سعید نے ملک وملت کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف ہمیشہ مؤثر آواز اُٹھائی ہے اور ان کی فلاحی تنظیم ''فلاح انسانیت فاؤنڈیشن‘‘ نے آفت زدہ انسانیت کی بلا تفریق مسلک ومذہب مدد اور خدمت کی ہے۔حافظ سعید صاحب کی شخصیت پر اس قسم کی الزام تراشی سے نہ صرف یہ کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی امدادی کارروائیوں اور فلاحی سرگرمیوں کو نقصان ہو گا بلکہ بھارت کے پاکستان کے خلاف بلاجواز پراپیگنڈے کو بھی تقویت ملے گی۔
دفاع پاکستان کونسل کی پریس کانفرنس میں گستاخ بلاگرز کے خلاف کاروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ یہ امر افسو س ناک ہے کہ اس سے قبل نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے ہونے والی گستاخانہ کاروائیوں پر ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں مؤثر انداز میں آواز اُٹھاتی رہی ہیں لیکن اب جب کہ توہین آمیز مواد کو قومی زبان میں تواتر کے ساتھ نشر کیا جارہا ہے تو اس مسئلے کو حکومت اور اس کے ذیلی ادارے مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہر مسلمان کے دل میں نبی کریم ﷺ کی غیر معمولی محبت اور احترام موجود ہے اور ایمانی غیرت کا تقاضا ہے کہ جو شخص بھی آپﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرے اس کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ 295ّC کا قانون اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ جو شخص بھی نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کرے گا وہ واجب القتل قرار پائے گا لیکن یہ مقام افسوس ہے کہ بلاگرز کے خلاف تاحال کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک دین پسند اور محب وطن شخص نظر بند ہے جب کہ اللہ ،رسول ﷺ اورملک وملت کے خلاف سرعام متواتر کے ساتھ منفی جذبات کااظہار کرنے والے لوگوں پر کسی قسم کی گرفت نہیں کی جا رہی۔ دفاع پاکستان کونسل دہشت گردی، مسئلہ کشمیر، مسئلہ ناموس رسالت ﷺ اور حافظ سعید صاحب کی گرفتاری کے حوالے سے آنے والے ایام میں منظم انداز میں جدوجہد کرے گی اور عوام الناس کو ان اہم امور کے حوالے سے بیدار کیا جائے گا ۔دفاع پاکستان کونسل کا عوامی کردار ہمیشہ انتہائی مؤثر اور غیر معمولی اہمیت کا حامل رہا ہے اور اس کے زیر اہتمام ہونے والے اجتماعات نے عوام کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی دفاع پاکستان کونسل ایک مرتبہ پھر ان امور پر عوام الناس کی مکمل رہنمائی کرے گی اور ایک منظم تحریک کو بپا کرکے دہشت گردی کا تدارک کیا جائے گا، کشمیر کاز کو آگے بڑھایا جائے گا ، نبی کریم ﷺ کی حرمت کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا اور حافظ سعید صاحب کی نامناسب نظر بندی کے فیصلے کو بھی تبدیل کروایا جائے گا۔