ہمارا معاشرہ ایک عرصے سے سیاسی، مذہبی اور سماجی اعتبار سے عدم برداشت کا شکار ہے۔ جس کی وجہ سے کئی مرتبہ مختلف نظریات کے لوگ ایک دوسرے کے بارے میں تعصب اور تشدد پر مبنی رویوں کا اظہار کرتے ہیں۔ کئی مرتبہ بات بحث و تکرار کی حدود سے نکل کر لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات معاشرے کا امن وسکون بھی تہہ وبالا ہو جاتا ہے۔ معاشرتی بگاڑ اور عدم برداشت کی کیفیت کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے لیے جس ٹھنڈے دماغ اور غیر جانبدارانہ رویّے کی ضرورت ہے وہ سر دست ہمارے معاشرے میں مفقود ہے۔ جب تک اس معاملے پر اعتدال سے غور و فکر نہیں کیا جائے گا اس وقت تک معاملات کی اصلاح نہیں ہو سکے گی۔ تاریخ انسانیت میں عدم برداشت کی متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جو اس رجحان کی اصل وجہ کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو بنایا تو فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔ سب فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا لیکن ایک عزازیل نامی جن نے‘ جو کثرت عبادت کی وجہ سے فرشتوں کی جماعت میں شامل ہو چکا تھا‘ حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ ابلیس کے اس عدم برداشت کا بنیادی سبب اس کا تکبر تھا۔ ابلیس خود پسندی کا شکار تھا اور وہ تخلیقی اعتبار سے اپنے آپ کو حضرت آدم علیہ السلام سے بہتر سمجھتا تھا۔ چنانچہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ عدم برداشت کا ایک بڑا سبب تکبر ہوتا ہے۔ جب کوئی تکبر اختیار کر لیتا ہے تو اس کی نظروں میں دوسرا شخص ہیچ ہو جاتا ہے اور وہ اس کو قبول کر نے پر تیار نہیں ہوتا۔
قرآن مجید میں ہی ہابیل اور قابیل کا واقعہ بھی مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی کو قبول کر لیا جبکہ قابیل کی قربانی کو قبول نہ کیا۔ ہابیل نے جب اس ماجرے کو دیکھا تو حسد کا شکار ہو گیا۔ ہابیل نے قابیل کو تقویٰ اختیار کرنے کی تلقین کی جس کو قابیل نے قبول نہ کیا اور حسد کے جذبات سے مغلوب ہو کر ہابیل کو شہید کر دیا۔ بعد ازاں قابیل ندامت کا شکار ہو کر کف افسوس بھی ملتا رہا لیکن اس وقت تک معاملات ہاتھ سے نکل چکے تھے۔ ہابیل اور قابیل کے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ عدم برداشت کا ایک بڑا سبب حسد بھی ہے۔ حسد کی نوع کی ایک اور کیفیت رقابت بھی ہے۔ رقابت کا جذبہ انسان کو ایک ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے کہ انسان اپنے محبوب کی توجہ دوسرے انسان کی طرف منتقل ہوتے ہوئے دیکھ کر بے چین ہو جاتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنے محبوب کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے، چاہے اس سے کسی دوسرے کی حق تلفی ہی کیوں نہ ہوتی ہو۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے والد گرامی حضرت یعقوب علیہ السلام ان سے خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے سوتیلے بھائی اس کیفیت کو دیکھ کر جذبہ رقابت میں مغلوب ہو گئے۔ اکثر بھائی تو ان کی جان کے در پے ہو گئے تھے تاہم ایک بھائی نے باقی بھائیوں کو مشورہ دیا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو قتل کرنا کوئی ضروری نہیں اگر ان کو والد کی نظروں سے دور کرنے کے لئے کسی کنویں میں اُتار دیا جائے تو اس سے بھی مقصد پورا ہو سکتا ہے۔ باقی بھائیوں نے اپنے اس بھائی کی تجویز کو قبول کر لیا‘ لیکن رقابت کے جذبات اس حد تک غالب رہے کہ انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے درمیان جدائی ڈال کر ہی دم لیا۔
جذبہ رقابت کے اثرات گھریلو تنازعات میں بہ آسانی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سوکنوں کے باہمی تنازعات کا سبب بھی یہی جذبۂ رقابت ہے۔ اسی طرح ساس، بہو اور نند، بھابھی کے جھگڑوں کی بنیادی وجہ بھی یہی منفی جذبہ ہے۔ اسی وجہ سے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پاتے اور اسی منفی جذبے کی وجہ سے خاندانوں کے خاندان بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ تکبر، حسد اور رقابت کے علاوہ تعصب بھی عدم برداشت کا ایک بڑا سبب ہے۔ متعصب انسان تنگ نظر ہوتا ہے اور وہ حقیقت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ تعصب صرف مذہب کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی متعدد اقسام اور وجوہ ہیں۔ علاقائی، لسانی، خاندانی، گروہی اور جماعتی تعصبات بھی انسانوں کے درمیان عدم برداشت کا بہت بڑا سبب بن جاتے ہیں۔
نبی اکرمﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر تھے۔ آپ کی دعوت اور پیغام ہر اعتبار سے حق اور سچ پر مبنی تھے‘ لیکن کفار مکہ نے آپ کے ساتھ مذہبی بنیاد پر تعصب کا اظہار کیا۔ بت پرست آپ کے ساتھ مذہبی اختلاف کی وجہ سے عداوت پر تیار ہو گئے۔ انہوں نے صرف تعصب کی بنیاد پر نبی آخر الزماںﷺ کی دعوت کی بھرپور مخالفت کی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں ابوجہل کی اس دعا کا بھی ذکر کیا جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کی تھی کہ اے اللہ اگر رسول اللہﷺ پر نازل ہونے والا کلام حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کو برسا یا ہمیں درد ناک عذاب میں مبتلا کر دے۔
نبی کریمﷺ تیرہ برس تک مکہ مکرمہ میں اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ فرماتے رہے۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو اپنے ساتھیوں سمیت مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ آپﷺ کی آمد سے قبل مدینہ کے گرد و نواح میں تین قبیلے آباد تھے جن کی آباد کاری کا بڑا مقصد نبی آخرالزماں کا انتظار اور ان کی جمعیت میں شمولیت تھی۔ نبی کریمﷺ کی مدینہ آمد کے بعد آپ کی شخصیت و سیر ت کو دیکھ کر یہودی اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ آپؐ ہی اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ آپؐ آل اسحاق کی بجائے آل اسماعیل سے تعلق رکھتے ہیں تو وہ نسلی عصبیت کی وجہ سے نبی کریمﷺ کی مخالفت پر اتر آئے۔ تعصب کا ایک بڑا سبب ناجائز مفادات کو لاحق ہونے والے خطرات بھی ہوتے ہیں۔ تعصب کا مداوا کرنے کے لیے انسانوں کو اپنے دل کو حق اور انصاف کے لیے کھولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میںجہاں اپنے بندوں کو بہت سی بیش قیمت نصیحتیں کی ہیں، وہاں پر اس نے انہیں حق پر کاربند رہنے اور حق پرستوں کا ساتھ دینے کا بھی درس دیا ہے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 119 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کا ساتھ دو‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 135 میں ارشاد فرما یا ہے ''اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے سچی گواہی دو‘ خواہ وہ تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے رشتہ دار اور ماں باپ کے خلاف ہی ہو۔ اگر کوئی امیر ہو یا فقیر تو اللہ تعالیٰ ان دونو ں کا زیا دہ خیر خواہ ہے ۔ خواہش نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا ۔اگر تم لگی لپٹی کہو گے تو جان رکھو اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے‘‘۔
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سمجھا دیاکہ اگر کمی کوتاہی رشتہ دار میں بھی ہو تو اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور فقط محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ان کی غلط باتوں کی وکالت نہیں کرنی چاہیے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے محبت کی وجہ سے عدل و انصاف کا دامن نہ چھوڑنے کی تلقین کی ہے، وہاں پر اللہ تعالیٰ نے قرآ ن مجید میں نفرت کی وجہ سے حق بات کو چھوڑنے کی بھی مذمت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑ ے ہو جایا کرو اور کچھ لوگوں کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف ہی نہ کرو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیز گاری کے قریب تر ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے‘‘۔ گویا کہ ہر صاحب ایمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذاتی پسند یا نا پسند سے بالا تر ہو کر حق، سچ اور عدل و انصاف کی شاہراہ پر چلتا رہے ۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل لوگ خاندانی عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے کی جانی دشمنی پر آمادہ و تیار رہا کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں بسنے والے دو قبائل اوس اور خزرج کے مابین زبردست اختلاف تھا لیکن نبی کریمﷺ نے ان کو عدل و انصاف کا درس دیا اور معاملات کو خاندا نی سطح پر دیکھنے کی بجائے اصولی سطح پر دیکھنے کا خوگر بنا دیا۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن جائے تو ہمیں معاشرتی بگاڑ کے اسباب پر توجہ دے کر اپنی فکر وعمل کی اصلاح کرنا ہو گی۔ اگر ہم نے اپنی فکر اور عمل کو کتاب وسنت کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق ڈھال لیں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔