قرآن کریم اللہ تبارک وتعالیٰ کی ایک ایسی کتاب ہے جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے اور پڑھنے والوں کی کامل رہنمائی کی ہے۔ حکمرانوں کے چنائو اور ان کے کردار کے حوالے سے بھی قران مجید نے بہت مفید معلومات فراہم کی ہیں۔ سورہ بقرہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت شموئیل علیہ السلام کے عہد کا ذکر کیا کہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے ان سے ایک بادشاہ کے تقرر کا مطالبہ کیا کہ جس کی زیرِ قیادت وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں تو حضرت شموئیل علیہ السلام نے اس موقع پر ان کو بتلایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے جنابِ طالوت کو بادشاہ مقرر کر لیا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگوں نے استفسار کیا کہ جناب طالوت کے پاس مال کی فراوانی نہیں ہے جس پر حضرت شموئیل نے انہیں بتلایا کہ اللہ نے ان کو منتخب کر لیا ہے اور انہیں علم اور جسم میں کشادگی عطا کی ہے۔ سورہ بقرہ میں بیان کردہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کا طاقتور اور صاحب علم ہونا ضروری ہے۔ علم کے ذریعے معاملات کا تجزیہ کرنے اور طاقت کے ذریعے احکامات کی تنفیذ میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ سورہ ص میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے اور خواہش کی پیروی سے بچنے کا حکم دیا۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مثالی حکمران لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور اپنی خواہشات اور رجحانات کو درست راستے کی تنفیذ کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ حکمرانوں کے ان اوصاف کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے عظیم حکمرانوں کے کار ہائے نمایاں کا بھی ذکر کیا۔ جن میں سے چند اہم کام درج ذیل ہیں:
1۔ بداعتقادی کی حوصلہ شکنی اور خاتمہ: سورہ نمل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کا ذکر کیا کہ جس میں جنات، چرند، پرند اور جانور حاضری دیا کرتے تھے۔ اس دربار میں ایک دن ہدہد تاخیر سے پہنچا۔ جب اس سے تاخیر کا سبب معلوم کیا گیا تو اس نے اس بات کا ذکر کیا کہ میں نے سباء کی خوشحال بستی پر ایک ملکہ کو حکومت کرتے ہوئے اور وہاں کے لوگوں کو سورج کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ واقعہ سننے پر حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید سے والہانہ وابستگی کے باعث بے تاب ہوگئے، فوراً سے پہلے متحرک ہوئے اور آپؑ نے ملکہ سباء کو اپنے تخت سمیت دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ردعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید میں شراکت کو کسی بھی طور پر گوارہ نہ کیا اور بعد ازاں آپ کی پُراثر دعوت کی وجہ سے ملکۂ سباء بھی حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔
2۔ فتنہ وفساد کی بیخ کنی: قرآن کریم کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مثالی حکمرانوں نے فتنہ وفساد کی بیخ کنی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ چنانچہ جنابِ ذوالقرنین علیہ السلام جب ایسی بستی کے پاس پہنچے جس کے لوگ یاجوج وماجوج کے فتنے کا نشانہ بنے ہوئے تھے تو حضرت ذوالقرنینؑ نے یاجوج وماجوج اور بستی والوں کے درمیان موجود دو پہاڑ وں کے مابین پائے جانے والے خلا کو لوہے کی چادروں سے بند کرکے‘ اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال کر ایک رکاوٹ کو کھڑا کر دیا تاکہ بستی کے لوگ یاجوج و ماجوج کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں۔
3۔ مالیاتی نظام کی تنظیم: قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ مذکور ہے کہ کہ آپؑ نے اپنے عہد میں متوقع قحط کی پیش بندی کے لیے مناسب انداز میں غلے کی تدوین کی اور جب عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو جہاں حضرت یوسفؑ کی تدبیر کی وجہ سے اہلِ مصر قحط سالی کا شکار نہ ہوئے وہیں پر دنیا کے بہت سے لوگ حضرت یوسفؑ کے پاس غلے کے حصول کے لیے پہنچتے رہے۔
4۔ اقامت صلاۃ اور نظام زکوٰۃ: قرآن مجید کی سورہ الحج میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جنہیں زمین پر تمکن دیا جائے‘ انہیں چاہیے کہ وہ نمازوں کو قائم کریں، زکوٰۃ کو ادا کریں اور معروف کاموں کا حکم دیں اور بدی سے روکیں۔
5۔ جرائم کے خاتمے کے لیے مؤثر قوانین کا نفاذ: نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ نے جرائم کی بیخ کنی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود کو ہمہ گیر انداز میں نافذ کیا۔ حتیٰ کہ جب بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور حضرت اسامہؓ بن زید کو بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں سفارش کے لیے روانہ کیا گیا تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ اس موقع پر نبی کریمﷺ نے سابقہ امتوں پر آنے والے عذاب کی ایک اہم وجہ کو بھی بیان کیا کہ جب ان میں سے کوئی چھوٹا کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو وہ اس کو سزا دیتے اور جب کوئی بڑا کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ نبی کریمﷺ کے عہد مبارکہ میں حدود اللہ کے نفاذ کی برکات کے ساتھ معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن گیا۔ بعد ازاں حضرت عمر فاروقؓ بھی نبی کریمﷺ کی تعلیمات پر پوری شدومد سے کاربند رہے اور جہاں کہیں جرائم کا ارتکاب کیا گیا آپؓ نے فوراً سے پہلے مجرموں کو قرار واقعی سزا دی۔ سنن کبریٰ اور بیہقی کی روایت نمبر 15976 میں ذکر ہے کہ صنعاء نامی علاقے میں ایک شخص رہتا تھا، وہ کسی کام سے دوسری جگہ گیا اور پیچھے اپنی بیوی اور ایک بیٹا چھوڑا۔ یہ عورت اس بچے کی سوتیلی ماں تھی۔ عورت نے ایک مرد کو دوست (برا نفسانی دوست) بنا لیا۔ جس کی خبر بیٹے کو ہو گئی۔ اس عورت نے اپنے دوست سے کہا کہ اس لڑکے کو قتل کر دو۔ دوست نے انکار کر دیا تو عورت نے بھی دوستی سے انکار کر دیا۔ جس پر دوست نے عورت کا کہنا مان لیا۔ اس نے اپنے ایک اور ساتھی کو بھی شامل کیا اور عورت اور اس کا خادم بھی اس منصوبے میں شامل ہو گئے۔ اس طرح چاروں نے مل کر اس لڑکے کو قتل کر دیا اور اس کے ٹکڑے کرکے ایک خالی کنوئیں میں پھینک دئیے۔ پھر سوتیلی ماں چلانے لگی، لوگ جمع ہوئے، اس کے بیٹے کو تلاش کیا گیا تو لاش بری اور بدبودار حالت میں ملی۔ اس وقت قتل میں ملوث شخص بھی ساتھ کھڑا تھا۔ وہ یہ منظر دیکھ کر کپکپانے لگا تو لوگوں نے اسے پکڑ لیا اور آخرکار اس نے اعتراف کر لیا اور پورا معاملہ سامنے رکھ دیا۔ اس نے اپنے باقی ساتھیوں کا بھی بتا دیا۔ صنعاء علاقے کے امیر نے یہ واقعہ حضرت عمرؓ کی بارگاہ میں لکھ بھیجا اور حکم پوچھا تو حضرت عمر ؓ نے قتل میں ملوث چاروں مجرموں کو قتل کرنے کا حکم دیا اور یہاں تک فرمایا کہ اللہ کی قسم! اگر صنعاء کے تمام باشندے بھی اس میں ملوث ہوتے تو میں تمام کو قتل کرتا‘‘۔ صحیح بخاری شریف میں بھی یہ واقعہ اختصار کے ساتھ مذکور ہے کہ ''ایک لڑکے کو کشیدہ طور پر قتل کیا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا: اگر اس میں صنعاء کے تمام افراد بھی شریک ہوتے تو میںتمام کو قتل کرتا‘‘۔
6۔ رعایا کی خبرگیری اور بنیادی سہولیات کی فراہمی: حکمرانوں کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر رعایا میں کسی کو بدحالی کا شکار دیکھیں تو فوراً سے پہلے اس کی بدحالی کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ بخاری شریف میں حضرت عمر فاروقؓ کے عہد مبارک کا ایک واقعہ یوں مذکور ہے کہ ''عمر بن خطابؓ ایک ساتھی کے ساتھ بازار گئے۔ آپؓ سے ایک نوجوان عورت نے ملاقات کی اور عرض کیا کہ اے امیر المومنین! میرے شوہر کی وفات ہو گئی ہے اور چند چھوٹی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اللہ کی قسم کہ اب نہ ان کے پاس بکری کے پائے ہیں کہ ان کو پکا لیں، نہ کھیتی ہے، نہ دودھ کے جانور ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ فقر و فاقہ سے ہلاک ہو جائیں گی۔ میں خفاف بن ایماء غفاریؓ کی بیٹی ہوں۔ میرے والد نبی کریمﷺ کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں شریک تھے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ ان کے پاس تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہو گئے، آگے نہیں بڑھے۔ پھر فرمایا: مرحبا! تمہارا خاندانی تعلق تو بہت قریبی ہے۔ پھر آپؓ ایک بہت قوی اونٹ کی طرف مڑے جو گھر میں بندھا ہوا تھا اور اس پر دو بورے غلے سے بھرے ہوئے رکھ دیئے۔ ان دونوں بوروں کے درمیان روپیہ اور دوسری ضرورت کی چیزیں اور کپڑے رکھ دئیے۔ اور اس کی نکیل ان کے ہاتھ میں تھما کر ارشاد فرمایا کہ اسے لے جا، یہ ختم نہ ہوگا اور اس سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ تجھے اس سے بہتر دے گا۔ ایک صاحب نے اس پر کہا 'اے امیر المومنین! آپ نے اسے بہت دے دیا۔ عمر فاروقؓ نے کہا: تیری ماں تجھے روئے، اللہ کی قسم اس عورت کے والد اور اس کے بھائی‘ جیسے اب بھی میری نظروں کے سامنے ہیں کہ ایک مدت تک ایک قلعے کے محاصرے میں وہ شریک رہے آخر اسے فتح کر لیا۔ پھر ہم صبح کو ان دونوں کا حصہ مال غنیمت سے وصول کر رہے تھے۔
حکمرانوں کے کردار اور اوصاف کے حوالے سے پیش کی جانے والی گزارشات میں عوام اور حکمرانوں کے لیے رہنمائی کے بہت سے اہم نکات موجود ہیں۔ عوام کو دست حکمرانوں کا چناؤ کرنا چاہیے ا ور حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔