"AIZ" (space) message & send to 7575

معزز مہمان

پاکستان ہمارا دیس ہے ۔ جس کی تعمیر وترقی کی خواہش ہرمحب وطن پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ موجودہ دنیا میں کوئی بھی ریاست انفرادی سطح پر تعمیر وترقی کے سفر کو طے نہیں کر سکتی۔ ہر ریاست کو اپنے استحکام کے لیے بہت سے معاون دوست احباب کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک بعض ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ رویہ اپنایا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کو چین کی شکل میںایک انتہائی ہمدرد اور غیر معمولی تعاون کرنے والا دوست میسر رہا ہے ۔ اسی طرح پاکستا ن کے ترکوں کے ساتھ بہترین دوستانہ اور مثالی تعلقات رہے ۔
عالم عرب میں سعودی عرب غیر معمولی اہمیت اور حیثیت کا حامل ہے۔ حرمین شریفین کی نسبت سے امت مسلمہ کی اس خطے کے ساتھ غیر معمولی روحانی اور نظریاتی وابستگی ہے۔ سعودی عرب نے ہر مسلمان ملک کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہترین سطح پر استوار رکھا،بالخصوص پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات ہر دور میں غیر معمولی رہے ہیں ۔ شاہ فیصل مرحوم پاکستان اور اہل پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے ۔ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے بھائیوں نے بھی ان کی روایات کو برقرار رکھا۔ پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی اقتصادی یا سیاسی بحران آئے ان کے حل کے لئے سعودی حکومت اور پاکستان میں موجود سعودی سفیروں نے نمایاں کردار اد ا کیا۔ شمالی علاقہ جات بالاکوٹ اور گلیات کے علاقوں میں آنے والے ہولناک زلزلے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی بے گھر ہو گئے۔ ان کی بحالی کے لئے سعودی عرب نے غیرمعمولی کردار ادا کیا اور کروڑوں ریا ل کے منصوبہ جات کے ذریعے گھروں کی آباد کاری اورمتاثرین کی خورونوش، رہائش ، ادویات اور لباس سے متعلقہ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے سعودی حکومت اور پاکستان میں موجود سعودی سفیر نے نمایاں کردار اد ا کیا۔
پاکستان نے واجپائی کے دور میں بھارت کے ایٹمی اور عسکری دباؤ سے نکلنے کے لئے ایٹمی دھماکے کئے۔ ان ایٹمی دھماکوںکے بعد پاکستان کو زبردست اقتصادی دباؤ کا سامنا تھا، ان ایام میں سعودی عرب نے پاکستان کا غیر معمولی دوست ہونے کا ثبوت دیا اور کئی ماہ تک ہزاروں بیرل مفت تیل فراہم کر کے پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔سعودی عرب نے مسلم لیگ کی حکومت کے حالیہ دور حکومت میں بھی پاکستان کی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے کروڑوں ڈالر کی خطیر رقم پاکستان کو ہدیہ کی جس کے نتیجے میں پاکستان کی گرتی ہوئی معیشت کو غیر معمولی سہارا حاصل ہوا ۔اور پاکستان کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں واضح طور پر بہتر ہو گئی۔ سیاسی اعتبار سے بھی پاکستان میںجب کبھی ڈیڈ لاک لگا سعودی عرب کے نمائندگان نے اس ڈیڈلاک کو ختم کرنے کے لئے اپنی خدمات کو پیش کیا۔ قومی اتحاد اور پیپلز پارٹی کی کشمکش کے دوران ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہو چکا تھا۔ سعودی عرب کے پاکستان میں موجود سفیر نے حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان رابطوں کو بہتر بنا نے کے لئے پل کا کردار ادا کیا اور پاکستان کو سیاسی اعتبار سے مستحکم کرنے کے لئے جس حد تک ممکن تھا کردارادا کیا ۔اسی طرح پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر پرویز مشرف کے درمیان جب سیاسی کشمکش کا آغاز ہوا تومیاںصاحب کو جیل کا سامنا کرنا پڑاتو میاں صاحب کی بیرون ملک منتقلی کے لئے بھی سعودی عرب نے اپنا کردار ادا کیا ۔
پاکستان کے ہزاروں کی تعداد میں ایسے طلبہ ہیں جنہوں نے سعودی عرب کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم کو حاصل کیا اور اس کے بعد سعودی عرب رہ کر یاپاکستان میںواپس آکر دینی تعلیم اور دعوت دین کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دیا۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ، جامعہ ام القریٰ مکہ مکرمہ ،اور جامعۃ الامام ریاض سے ماضی میں بھی میں پاکستانی طلبہ تعلیم حاصل کرتے رہے اورموجودہ دورمیں بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے ۔پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد روزگا ر کے سلسلے میں سعودی عرب میں مقیم ہے اور وہاں سے زرمبادلہ کی رقم اپنے ملک بھجواکر ملک کی معیشت کوبہتر بنانے میں اپنا کردار اد اکر رہی ہے ۔ 
مجھے سعودی عرب کا کئی دفعہ سفر کرنے کا موقع ملا۔ ان سفر وں کے دوران وہاں کا مثالی امن وامان دیکھ کر بے اختیار لبوں پر یہ دعا آجاتی ہے کہ اے کاش اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان میں بھی اس قسم کا بے مثال امن و امان قائم کردے اور اس کی معیشت کو بھی مستحکم کر دے ۔ مسلمانوں کی اکثریت سعودی عرب کا سفر حج اور عمرے کی نیت سے کرتی ہے۔ ان سفروں کے دوران بآسانی اس حقیقت کا مشاہدہ کیاجا سکتا ہے کہ سعودی حکومت نے حج وعمرہ کرنے والوں کے لئے بہترین سہولیات کو فراہم کر رکھا ہے ۔ مختلف ممالک کے لاکھوں افراد مکہ اورمدینہ میں جمع ہوتے ہیں لیکن کسی شخص کو بھی اپنی جان ، مال اور عزت کے حوالے سے کسی قسم کا خطرہ اور اندیشہ لاحق نہیں ہوتا۔میں نے ماضی کے سفروں کے دوران اس بات کو محسوس کیا۔ہر آنے والے دن حرمین شریفین کی توسیع اور انتظامات کو بہتر بنانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔حرمین شریفین کی خدمت کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم کے ساتھ اشاعت کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے اور ہر مسلمان کو اپنی قومی زبان میں باترجمہ قرآن بآسانی میسر آجاتا ہے ۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام اور عمرے کے لیے سفر کرنے والے افراد کو بھی اردو ترجمے والا قرآن بغیرکسی ہدیے کے فراہم کیا جاتا ہے۔اس کار خیر کی وجہ سے بھی پاکستانی سعودی عرب سے وابستگی کو محسوس کرتے ہیں۔
پاک وسعودی تعلقات کو اس وقت مزید استحکام حاصل ہوتا ہے جب سعودی عرب سے بعض اہم شخصیات پاکستان تشریف لاتی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں سعودی عرب سے بعض معزز مہمان تشریف لا رہے ہیں۔ جن ـمیں سعودی عرب کے مذہبی امور کے وزیر شیخ صالح بن عبدالعزیز بن محمد آل شیخ، امام کعبہ شیخ صالح بن محمدطالب اور وزارت خارجہ کے وکیل عبدالرحمن بن غنام شامل ہیں۔ 
سعودی عرب کے وزیر مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز بلند پایہ علمی شخصیت ہیں۔ دو برس قبل جب مجھے سرکاری دورے پر سعودی عرب جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں پر ان کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی ۔اس ملاقات میں انہوں نے بہت سے علمی اور فکری موضوعات پر بڑے احسن انداز میں گفتگو کی۔ ان کی گفتگو سے اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ سعودی عرب کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ عملی اعتبار سے پختہ شخصیت ہیںاور فقہ اسلامی کے دقیق اور پیچیدہ نکات کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ میرے ساتھ انہوں نے خصوصی شفقت کا مظاہرہ کیا اور والد گرامی کے لیے خوبصورت جذبات کا اظہار کیا۔وزیر مذہبی امور نے اس موقع پر پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔ 
ان کے ہمراہ سعودی عرب سے آنے والے دوسرے اہم مہمان صالح بن محمد آل طالب امام حرم مکی سے ہیں۔ صالح بن محمد آل طالب آئمہ حرمین میں سے ایک ممتاز شخصیت ہیں۔ جنہیں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم پر بھی بہت دسترس ہے اور امریکہ سے تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتے ہیں۔ 44 سالہ امام انتہائی پرکشش شخصیت کے مالک ہیں اور ان کا لب ولہجہ اور انداز گفتگو سن کر سامعین ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
ان مہمانوں کے اس دورے کا بنیادی مقصد 8،9 مارچ کو کالا شاہ کاکو کے مقام پر ہونے والی دو روزہ ''آل پاکستان اہلحدیث کانفرنس ‘‘میں شرکت کرنا ہے۔ جس میں امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان پروفیسر ساجد میر، ناظم اعلیٰ ڈاکٹرحافظ عبدالکریم اور ممتاز شیخ الحدیث مفتی عبیداللہ عفیف کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے جید علمائے کرام تشریف لا رہے ہیں۔ کانفرنس میں ختم نبوتﷺ، اتحاد اُمت اور پاکستان کو درپیش مسائل کے حوالے سے مفصل اور مبسوط گفتگو کی جائے گی۔ امام کعبہ اس دورے کے دوران جہاں پر مختلف تقاریب سے خطاب کریں گے وہیں پر مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر بھی جمعے کی رات عشاء کی نماز کی امامت کروائیں گے۔ اس دورے سے پاکستان کے مذہبی حلقوں کی خصوصی توقعات وابستہ ہیں اور امید کی جاسکتی ہے کہ یہ دورہ پاکستان اور سعودی عرب کی قربتوں کو مزید بڑھانے کا سبب بن جائے گا۔ یہ توقعات کس حد تک پوری ہوتی ہیں اس کا تجزیہ دورے کے مکمل ہونے پر کیا جا سکتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں