"AIZ" (space) message & send to 7575

زندگی کی حقیقت

چند روز قبل مجھ سے بعض دوستوں نے رابطہ کیا اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میں تین اکتوبر کو ان کے خاندان میں ہونے والی شادی کی ایک تقریب میں شرکت کروں اور نکاح بھی پڑھاؤں۔ میں نے آئندہ چند دنوں میں بیرون ملک سفر پر جانا تھا؛ چنانچہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے نکاح کی اس تقریب میں شرکت پر آمادہ نہیں تھا‘ لیکن ان کا اصرار میرے انکار پر غالب آیا اور میں نے اس بات کی ہامی بھری کہ میں شادی کی اس تقریب میں شرکت کروں گا۔ اس تقریب میں شرکت سے قبل ہی مجھے دوتاریخ کو قصور کے دیہی علاقے میں رہنے والے دوست حافظ خالد محمود کے حوالے سے کال موصول ہوا کہ ان کے والد گرامی کا انتقال ہو گیا ہے اور مجھے ان کی نماز جنازہ کو عصر کی نماز کے بعد پڑھانا ہے۔ میں حافظ خالد محمود کے والد کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لاہور سے کچھ وقت پہلے ہی نکل گیا۔میں نے سوچا کے قصور کے گاؤں ڈھولن میں بعض دوست احباب سے ملاقات کر لوں ۔چند روز قبل گاؤں ڈھولن میں ایک بس کے حادثے کے نتیجے میں چار نوجوان لڑکے جاں بحق ہو گئے تھے۔ چلتی بس سڑک پر بے قابو ہو کر اُلٹ گئی۔ بس میں سوار نوجوانوں نے متوحش ہو کر بس سے چھلانگیں لگادیں۔ اسی اثناء میں بس نے ایک اور قلابازی کھائی اور چاروں نوجوان اس کی زدّ میں آکر جاں بحق ہو گئے۔ جب کہ بس میں بیٹھے ہوئے بعض لوگ زخمی اور بعض بالکل بال بال بچ گئے۔ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ وہ کس انداز میں کچھ لوگوں کو بچا رہے تھے اور اسی حادثے کے نتیجے میں بعض لوگ جاں بحق ہو رہے تھے۔ اس حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعزیت کے لیے جب میں لواحقین کے گھر پہنچا‘ تو وہاں میری ملاقات اس میں حادثے میں بچنے والے ایک شخص سے ہوئی‘ جس نے یہ بتلایا کہ وہ اس حادثے میں اس انداز سے بچا کہ اس کو معمولی خراش تک بھی نہیں آئی۔ ڈھولن ہی میں ایک قریبی دوست قاری عبدالجبار صاحب کے گھر جانے کا بھی موقع میسر ملا۔ ان کا کمسن بچہ جس کی عمر آٹھ نو برس کے لگ بھگ ہوگی‘ چند روزقبل اپنے محلے میںٹیوشن پڑھنے کے لیے جا رہا تھا ‘تو گلی میں کھیلتے ہوئے بچوں میں سے ایک بچے کے ہاتھ میں چھڑی اس کی آنکھ میں لگ گئی ‘جس کے نتیجے میں اس کی آنکھ زخمی ہوگئی۔ فی الفور ابتدائی طبی امداد کو فراہم کیا گیا‘ لیکن ڈاکٹروں نے لاہور پہنچنے کا مشورہ دیا۔ لاہور آکر بھی آنکھ بچانے کی سرتوڑ کوشش کی گئی لیکن آنکھ ضائع ہونے سے نہ بچ سکی۔ یہ سانحہ یقینا والدین کے لیے بہت بڑی آزمائش تھا۔ ان سے عیادت کرنے کے بعد ایک اور بزرگ کی عیادت کے لیے ایک گھر میں جانے کا موقع ملا۔ اس گھر میں موجود ضعیف العمر مریض کے بارے میں لوگو ںـ نے بتلایا کہ انہوں نے ساری زندگی بڑے امن ‘اعتدال اور ملنساری کے ساتھ گزاری ہے اور لوگوں کے ساتھ ان کا معاملہ نہایت عمدہ رہا اور وہ مسلسل اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کرنے والے تھے‘ لیکن پچھلے کچھ عرصے سے معدے کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے انتہائی تکلیف اور نقاہت کا شکار ہو چکے تھے۔ ان کے لیے بستر سے اُٹھنا بھی محال تھا ۔ جب میں ان کے گھر پہنچا تو انہوں نے میری آمد پر اپنے آپ کو سہارا دے کر بٹھانے کے لیے کہا۔ وہاں پر موجود ایک ساتھی نے ان کو سہارا دے کر بٹھایا۔ وہ اس حالت میں نہ تھے کہ ازخود تادیر بیٹھ سکتے۔ میں نے اس حالت میں ان کو دیکھ کر دکھ کی ایک لہر میں اپنے سینے میں ابھرتا ہو امحسوس کیا۔ میں انسانوں کی ناپائیداری اور مختلف حادثات کی نظر ہو جانے والے انسانوں کی کیفیات کے بارے میں غور کر رہا تھا کہ مجھے گھر ایک کال موصول ہوئی کہ گھر ایک قریب ایک موٹر سائیکل پر سوار دو میاں بیوی اور ان کے دو بچے ایک ٹرک کے حادثے کی لپیٹ میں آگئے اور چھوٹے بچوں کی ماں کم عمری ہی میں دنیا سے رخصت ہو گئی اور والد شدید زخمی چکاہے۔ 
یہ تمام کے تمام حادثات اور ان کی تفاصیل یقینا چونکا دینے والی اور دکھ میں مبتلا کر دینے والی تھیں۔ان تکلیف دہ احساسات کو اپنے دل میں لیے ہوئے میں حافظ خالد صاحب کے گاؤں کوٹ آرائیاں میں پہنچا ‘جہاں پر سوگواران کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ حافظ خالد صاحب کے والد صوم و صلوٰۃ کے پابند ایک بزرگ تھے۔ وہ تبسم چہرے والے کم گو انسان تھے۔ مجھے ماضی میں کئی مرتبہ سالانہ کانفرنسوں میں شرکت کے لیے اس گاؤں میں آنے کا موقع ملا ‘جہاں پر وہ مجھے بڑے خلوص اور تپاک سے ملا کرتے تھے۔ آج وہ دنیا سے رخصت ہوئے چکے تھے ۔ میں نے درد دل سے نمازِ جنازہ کو پڑھایا اور بوجھل دل سے واپسی کا سفر شروع کیا۔ واپسی کے سفر پر جب گھر پہنچا تو مجھے اطلاع ملی کہ ہمارے ایک دوست کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیٹا عطا کیا ہے اور ایک اور عزیز نے بھی خوشی کی ایک خبر کو سنایا۔ دکھ اور کرب کی کیفیت میں میں نے ان دو خبروں کے خوشگوار اثرات کو اپنی طبیعت پر محسوس کیا۔ منگل کے روز مجھے شادی کی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا ‘جہاں پر ہر چہر ہ خوشگوار مسکراہٹ کو اپنے اوپر لیے ہوئے تھا۔ دکھوں کی ان اطلاعات کے ساتھ ساتھ خوشی کی یہ خبریں یقینا زندگی کے مختلف رنگوں کا اظہار کر رہی تھیں کہ اسی زندگی میں کہیں دکھ ہے تو کہیں سکھ‘کہیں جدائی ہے تو کہیں ملاپ‘کہیں نکاح ہے تو کہیں جنازہ ۔ یہ زندگی کے مختلف رنگ ہیں اور ان رنگوں میں پیدا ہونے والے تغیرات یقینا انسان کو یہ بات سمجھاتے ہیں کہ انسان حقیقت میں اپنے حالات اور معاملات کا صحیح مالک نہیں ہے‘ بلکہ اس کی زندگی کے تمام کے تمام معاملات اور حالات مالک حقیقی اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ زندگی عطا کرنے والا وہی مارنے والاہے‘ وہی عروج دینے والا ‘ وہی زوال کی سمت لے کر جانے والا‘ وہی بادشاہت کو چھیننے والا‘ وہی اقتدار عطا فرمانے والا ہے؛ چنانچہ انسان کو ہر لمحہ ‘ ہر لحظہ اس کی طرف متوجہ بھی رہنا چاہیے اور اس کی تابعداری کے راستے کو اختیار بھی کرنا چاہیے۔ انسان کی زندگی کے بدلتے ہوئے حالات اور تغیرات یقینا انسان سے اس بات کا تقاضاکرتے ہیں کہ وہ اپنے خالق ومالک کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ الانبیاء کی آیت نمبر 35میں ارشاد فرمایا: ''ہر جان چکھنے والی ہے موت کو اور ہم مبتلا کرتے ہیں‘ تمہیں برائی اور بھلائی میں آزمانے کے لیے اور ہماری طرف ہی تم سب لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
آیت مذکورہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کو خوشی اور غم کے ذریعے آزماتے رہتے ہیں۔ خوشی کے وقت شکر کرنا اور غم کے وقت صبرکرنا اور گناہ کے سرزد ہو جانے کے بعد اصرار کی بجائے معافی کے راستے کو اختیار کرنے والے لوگ درحقیقت فلاح اور کامیابی کے راستے پر چل نکلتے ہیں۔ اس کے مدمقابل خوشی پر اللہ تبارک وتعالیٰ کو فراموش کر دینے والے اور دکھ میں مایوسی کا اظہارکرنے والے اور گناہوں کے دوران ملنے والی چھوٹ پر اصرار کی روش کو اختیار کرنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب اور ناراضگی کا نشانہ بنتے ہیں اور ایسے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید ‘ نصرت اور رحمت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ ہمیں زندگی کے اتار اور چڑھاؤ کے دوران اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم نے بالآخرپلٹ کر اپنے پروردگار کے پاس ہی جانا ہے۔ زندگی خوشیوں میں گزر رہی ہو یا غموں میں بالآخر اس زندگی کا سفر سمٹنے والا ہے ۔ ہم سے پہلے بھی انسانوں کی کثیر تعداد اس دنیا سے جا چکی ہے اور یقینا ہمیں بھی پلٹ کر اپنے خالق ومالک کے پاس جانا ہو گا۔ جہاں پر کامیابی کا معیار نہ تو حسب ونسب ہو گا‘ نہ مال ودولت ہو گی ‘ نہ شہرت ووقار ہو گا اور نہ ہی خاندان وکنبہ ہو گا۔ وہاں پر فقط انسانوں کے کام اچھے اعمال ‘ اللہ کافضل اور اس کی رحمت آئے گی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں زندگی کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے اپنے منطقی انجام کو مدنظر رکھتے ہوئے دین کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں