پاکستان تحریک انصاف کی ایک رکن قومی اسمبلی کی گزشتہ دنوں ایک متنازعہ تقریر کی وجہ سے ملک بھر میں مختلف طرح کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بڑی زور دار بحوث جاری ہیں۔ اس تقریر میں جو باتیں انہوں نے کہی ہیں؛ ان کے مندرجات کا جائزہ لینا اور تجزیہ کرنا ضروری ہے:۔
ان کی تقریر کے بعض اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔ نبی کریم ﷺ نے یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کیا۔
2۔ ہم درود شریف میں یہودیوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔
3۔ نبی کریم ﷺ بنی اسرائیل میں سے تھے۔
4۔ مسلمانوں کا قبلہ بیت اللہ جب کہ یہود کا قبلہ بیت المقدس ہے اس لیے اس سے اختلاف کو حل کر لینا چاہیے۔ جب ان نکات پر غور کیا جاتا ہے‘ تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ تمام نکات سیاق وسباق سے ہٹے ہوئے اور خلاف حقیقت ہیں۔
نکتہ نمبر1۔ اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو استوار کرنے کے لیے یہ کہنا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا یا ان کو ریاست مدینہ میں گوارا کیا ‘ یہ بات سیاق وسباق سے بالکل ہٹی ہوئی ہے ۔ اس لیے کہ نبی کریم ﷺ نے اسلامی ریاست کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے یہود کو جو حقوق دئیے‘ وہ کسی بھی معاشرے میں بسنے والی اقلیتوں کو ان کے تمام بنیادی حقوق ملنے چاہئیں اور اس بارے میں علمائے اسلام کی رائے بالکل واضح ہے۔ کسی بھی معاشرے میں بسنے والی اقلیتوں کو ان کے تمام بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہئیں؛ چنانچہ دنیا ئے اسلام میں کسی بھی مقام پر اگر یہودی بھی اقلیت ہوں‘ تو ان کو بنیادی انسانی حقوق ملنے چاہئیں اور اس حوالے سے نبی کریم ﷺکی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔جہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حسن سلوک کے باوجود یہودی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف رہے۔ اور انہوں نے شہری کی حیثیت سے جو عہد شکنی کی بات ہے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے؛ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے یہود کو جزیرۃ العرب سے باہر نکالنے کا حکم دیا اور قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120 میں یہ بات بالکل واضح ہے: ''اورہرگز راضی نہ ہوں گے‘ آپ سے یہودی اور نہ ہی نصاریٰ‘ یہاں تک آپ پیروی نہ کریں ان کے دین کی۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 82 میں اس امر کا اعلان فرمایا: ''البتہ ضرور پائیں ‘دوسرے لوگوں سے زیادہ سخت دشمنی میں ان لوگوں سے ساتھ جو ایمان لائے ہیں یہودیوں کو۔‘‘ یہ آیات اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ بحیثیت مجموعی یہود میں خیر خواہی کو تلاش کرنا ایک غیر حقیقی سوچ ہے اور قرآن مجید کی واضح نصوص سے بھی متصادم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل کی یہودی حکومت ایک غاصب حکومت ہے ۔ جس نے فلسطینیوں کے تمام جائز حقوق کو سلب کیا ہوا ہے؛ اگر ہم کسی ایک مقام پر کسی قوم کے غاصبانہ قبضے کی حمایت کرتے ہیں ‘تو کسی دوسرے مقام پر ظلم کی مخالفت کا جواز باقی نہیں رہتا۔ اگر ہم اسرائیل کے جبر کو تسلیم کر لیں گے‘ تو کل مقبوضہ کشمیر پر بھارت غاصبانہ قبضے کی مخالفت کا جواز بھی باقی نہیں رہے گا۔
نکتہ نمبر2 ۔جہاں تک تعلق ہے ا س بات کا کہ ہم یہودیوں کے لیے نماز میں دعا مانگتے ہیںیہ بات بھی خلاف حقیقت ہے۔ دورد شریف میں حضرت ابراہیم ؑ اور آل ابراہیم دعا ئے رحمت اور برکت کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ آل ابراہیم میں انبیاء اور صلحاء شامل ہیں‘ لیکن جہاں تک تعلق ہے یہود کا تو ان کے لیے دعا نہیں کی گئی۔ یہ جس قوم کے لیے مبعوث ہوئے اس قوم کے لیے دعا نہیں کی گئی‘ بلکہ سورہ فاتحہ میں ''غیر المغضوب علیہم‘‘میں ان کے راستے سے اجتناب کی دعا مانگی گئی ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 61 میں ارشاد فرمایا ہے ''اور مسلط کر دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی‘ اور وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹے۔ وہ اس لیے کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیات کا اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے‘ اور اس وجہ سے کہ جو انہوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے تجاوز کرتے تھے۔‘‘
چنانچہ جب ان آیات پر غور کیا جاتا ہے تو یہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آتی ہے کہ یہود کے لیے دعا نہیں مانگی گئی‘ بلکہ ان کو مغضوب قوم کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت نمبر64میںاس بات کا بھی ذکر کیا ''اور یہودیوں نے کہا اللہ کا ہاتھ تنگ ہے تنگ تو ان کے ہاتھ ہیں اور ان پر لعنت کی گئی اس وجہ سے جو انہوں نے کہا ‘بلکہ اس (اللہ) کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں وہ خرچ کرتا ہے‘ جس طرح وہ چاہتا ہے۔ ‘‘
نکتہ نمبر3 ۔جہاں تک تعلق ہے اس بات کا کہ نبی کریم ﷺ بنی اسرائیل میں سے تھے ‘تو یہ بات صریحاً خلاف حقیقت اور جہالت پر مبنی ہے۔ نبی کریم ﷺ‘سیدہ ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اور یہود کی آپﷺ سے مخالفت کی وجہ یہ بھی تھی کہ آپ آل اسحاق کی بجائے آل اسماعیل سے تعلق رکھتے تھے۔ آپﷺ کو بنی اسرائیل سے کہنا ‘درحقیقت تاریخ اسلام سے مکمل نا واقفیت کی دلیل ہے۔
نکتہ نمبر4۔جہاں تک تعلق ہے کہ مسجد اقصیٰ یہود کی ملکیت ہے تو یہ بات بھی کتاب وسنت اور اسلامی تاریخ سے یکسر متصادم ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ کو اللہ نے معراج کی رات بیت اللہ الحرام سے بیت المقدس پہنچایا اور وہ وہاں پر اپنی نشانیوں کو دکھلایا اور وہاں پر انبیاء علیہم السلام کو آپ ﷺ کی امامت میں جمع کیا۔ بعد ازاںحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں بیت المقدس اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ مسلمان کے قبلہ بیت اللہ کی طرف ہونے سے یہ بات قطعی طور پر ثابت نہیں ہوتی کہ مسلمان مسجد اقصیٰ سے لا تعلقی کو اختیار کر لیں۔ احادیث میں جن تین مقامات طرف ثواب کی نیت سے سفرکرنے کا حکم دیا گیا ہے ‘ان میں سے بیت الحرام اور مسجد نبوی شریف کے بعد بیت المقدس بھی شامل ہے۔
بیت المقدس مسلمانوں کے لیے انتہائی محترم مقام ہے اور کسی بھی ملک میں اقلیت کی حیثیت سے بسنے والے یہودیوں کو دیے جانے والے شہری حقوق کا ہرگز مقصد یہ نہیں کہ فلسطین کے علاقے میں ان کے غیر منصفانہ قبضے کو قبول کرلیا جائے۔
مظلوم فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا اور ان کے حقوق کے لیے آوازاُٹھانا یہ اہل ایمان اور دنیا بھر کے تمام انصاف پسند طبقات پر لازم ہے اگر ان کو تسلیم کرنے کی بات کی جائے یا ان کے لیے نرم گوشہ رکھا جائے تو اس میں پاکستان سے کہیں زیادہ اسرائیل کا فائدہ نظر آتا ہے۔ باہمی تعلقات کے نتیجے میں یہود کے تجارتی اور ثقافتی اثرات جس انداز میں پاکستان پر مرتب ہو سکتے ہیں ان کی قباحتوں کا اس وقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ اس قسم کی تقریر پر تجزیہ کرنے کے دوران ہمیں قائدین تحریک پاکستان اور پاکستا ن کے جید علمائے کرام اور سیاسی رہنماؤں کے فرمودات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے‘ جو انہوں نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کے بارے میں ارشاد فرمائے تھے؛ چنانچہ کہا گیا ہے کہ یہ اُمت کے قلب میں خنجر گھسایا گیا ہے ۔یہ ایک ناجائز ریاست ہے ۔پاکستان اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کر ے گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو فتنوں سے محفوظ ومامون فرمائے اور وہ لوگ جو ہمارے ایمان اور نظریات پر حملہ کرنا چاہتے ہیں‘ ان کو ہدایت دے۔( آمین)