"AIZ" (space) message & send to 7575

امام کعبہ کا دورہ پاکستان

پاک سعودیہ تعلقات سات عشروں پرمحیط ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتا ہے۔ سعودیہ نے پاکستان کو درپیش مسائل کے دوران ہمیشہ پاکستان کی معاونت اور مدد کی۔ ایبٹ آباد اور بالا کوٹ میںآنے والے زلزلے کے دوران سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ مثالی تعاون رہا۔ اسی طرح ایٹمی دھماکوں کے بعد جب پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں‘ تب بھی سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی بیرون ملک آباد ہیں۔ جن میں سے ایک بڑی تعداد مشرقی وسطیٰ اور سعودی عرب میں روزگار کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ یہ لوگ جہاں پر اپنے اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے ہیں ‘وہیں پر رزمبادلہ کی ترسیل کے ذریعے ملک کی اقتصادی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر تے ہیں۔ پاکستان کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں تعلیم کے حصول کے لیے جاتی ہے۔ سعودی عرب میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ ‘ جامعہ اُم القریٰ مکہ مکرمہ‘ جامعۃ الامام ریاض میں بھی پاکستان کے طلبہ اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کے لیے جاتے ہیں۔ان میں سے بعض طلبہ وہیں پر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں‘ جب کہ طلبہ کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں آکر دعوت وتبلیغ اور درس و تدریس کے فرائض انجام دیتی ہے۔ 
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کسی بھی دور میں انقطاع اور کمزوری کا شکار نہیں ہوئے۔ پاکستان میں حکومت کرنے و الی ہر جماعت کے سعودی عرب کے ساتھ ہمیشہ خوشگوار تعلقات رہے ہیں۔ شاہ فیصل مرحوم نے پاک سعودیہ تعلقات کو مثالی بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ شاہ فیصل کی رحلت کے بعد ان کے بھائیوں نے بھی اس تعلق کو احسن انداز میں برقرار رکھا۔ سعودی عرب سے بعض معزز مہمان وقفے وقفے سے پاکستان تشریف لاتے رہتے ہیں ۔ آئمہ حرمین کی آمد پر پاکستانی عوام غیر معمولی عقیدت کا اظہار کرتی ہے۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف کے آئمہ کی پاکستان آمد پر حکومت ِپاکستان کے ساتھ ساتھ تمام مذہبی طبقات بہت زیادہ جوش اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس سے قبل پاکستان میں تشریف لانے والے آئمہ میں امام حرم شیخ عبدالرحمن السیدیس‘ شیخ صالح آل طالب اور شیخ خالد الغامدی شامل ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران آنے والے ان آئمہ نے اپنے بھرپور دوروں کے دوران پاک سعودی تعلقات کو بڑھانے میں جہاں نمایاں کردار ادا کیا‘ وہیں پر لوگوں کی روحانی اور علمی تشنگی کو دُور کرنے کے لیے بھی بڑے خوبصورت انداز میں اپنا کردار پیش کیا۔
11 اپریل کو ڈاکٹر عبداللہ عواد الجہنی پاکستان تشریف لائے۔ آپ نے 12 اپریل کو فیصل مسجد میں جمعہ کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا اور بعدازاں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ''عصرِ حاضر کے مسائل اور نوجوانوں کی ذمہ داریاں ‘‘کے عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی۔ 13 اپریل کو سعودی سفارتخانے کی طرف سے اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں ملک کی نمایاں مذہبی جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے‘ جن میں پروفیسرساجدمیر‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ مولانا اویس نورانی‘ ڈاکٹر قبلہ آیاز اور دیگر رہنما شامل تھے۔ اسی رات سعودی سفیر کی رہائش گاہ پر ایک پروقار عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں ملک کی نمایاں مذہبی قیادت نے شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر داخلہ شہریار آفریدی اور پاکستان کے وزیر مذہبی امورنور الحق قادری بھی شریک تھے۔ اسلام آباد کے مقامی ہوٹل اور سفیر کے گھر میں ہونے والی تقریب میں امام کعبہ نے اپنے خطاب سے قبل نہایت خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کی اور اس کے بعد حاضرین کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بعض یادگار نصیحتیں کیں۔ امام کعبہ نے اس کے علاوہ بھی اہم تقریبات سے خطاب کیا۔ امام کعبہ 16اپریل کو لاہور تشریف لائے۔ جہاں پر سرکاری سطح پر ان کا بھرپور انداز میں استقبال کیا گیا اورگورنر ہاؤس میں ان کے اعزاز میں تقریب کو منعقد کیا گیا۔ بعدازاں امام کعبہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے مرکز 106 راوی روڈ لاہور تشریف لائے۔ وہاں پر انہوں نے نمازِ عصر کی امامت کروائی اور دینی ٹی وی کے تحت شروع ہونے والے قرآن ٹی وی کا افتتاح بھی کیا۔ اس موقع پر انہوں نے مرکزی جمعیت اہلحدیث کے ملک بھر سے آنے والے ذمہ داران اور علماء سے بھی خطاب کیا۔ 16اپریل کو آپ نے مغرب کی نماز کی امامت بادشاہی مسجد میں جب کہ عشاء کی نماز کی امامت جامعہ اشرفیہ میں کروائی اور بعدازاں لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ان کے اعزاز میں مرکزی جمعیت اہلحدیث کے زیر اہتمام ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں سینیٹر سراج الحق‘ مولانا عبدالغفور حیدری‘ مولانا فضل الرحمن خلیل‘ لیاقت بلوچ‘پیر اعجاز ہاشمی اور دیگر نمایاں مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔ اس موقع پر پروفیسر ساجد میر نے امام کعبہ کی آمد پر ان کا پُرجوش انداز میں خیر مقدم کیا اور پاک سعودی تعلقات کے پس منظر کے حوالے سے بھی بڑے مثبت انداز میں گفتگو کی۔ امام کعبہ کی پاکستان آمد کے بعد مجھے بھی ان کے بہت سے پروگراموں میں شرکت کرنے اور ان کو براہِ راست سننے کا موقع ملا۔ امام کعبہ کی گفتگو انتہائی متوازن اورلب ولہجہ اور اسلوب انتہائی پرکشش تھا۔ آپ نے اپنے ان خطابات کے دوران ملت اسلامیہ کو درپیش بہت سے اہم مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی۔ آپ نے اس موقع پر جن اہم نکات کو واضح کیا ‘وہ درج ذیل ہیں:
1۔ وسطیت کی اہمیت: امام کعبہ نے اپنے خطاب میں وسطیت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر 143 کو سامعین کے سامنے رکھاکہ '' اور اسی طرح ہم نے تمہیں بنایا معتدل اُمت۔‘‘ آپ نے اس اہم نکتے کو اجاگر کیا کہ اسلام تشدد اور افتراق کی بجائے وسطیت کی تلقین کرتا ہے اور علماء اور اہل دین کو لوگوں کے ساتھ پیار اور محبت والا برتاؤ کرتے ہوئے انہیں دین کی اچھے انداز میں نصیحت کرنی چاہیے اور اہل دین کو عوام الناس کی خیر خواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔
2۔اتحاد امت کی اہمیت پر زور: اپنے خطاب میں ڈاکٹر عبداللہ بن عواد الجہنی نے اتحاد امت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور سورہ آل عمران کی آیت نمبر 103 اس آیت سامعین اور شرکاء کے سامنے رکھا۔ ''اورتم سب مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو تفرقے میں نہ پڑو۔ ‘‘ امام کعبہ نے اس موقع پر اتحاد کے اہم ترین اصول کی نشاندہی بھی کی کہ ہم سب کو مل جل کر کتاب وسنت سے وابستگی کو اختیار کر لینا چاہیے؛اگر ہم کتا ب وسنت کے ساتھ تمسک اختیار کریں تو یقینا ہمارے تمام اختلافات باآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ 
3۔ توحید اور اتباع رسولﷺ کی اہمیت: امام کعبہ نے اپنی گفتگو میں توحید اور اتباع رسولﷺ کی کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کے حوالے سے توحید کی افادیت اور اتباع کے حوالے سے سنت کی اہمیت پر زور دیا اور توحید وسنت سے والہانہ وابستگی کو اُمت کی ترقی اور نجات کا بنیادی سبب قرار دیا۔ 
4۔ پختہ علماء سے رجوع کی اہمیت: امام کعبہ نے اس موقع پر پیش آمدہ اجتہادی مسائل کے حوالے سے پختہ علماء سے رجوع کی اہمیت پر بھی زور دیا اور علماء کے تبادلہ خیال ‘ علم اور ترقی کے فروغ کے لیے اہم قرار دیا اور پیش آمدہ مسائل کے حوالے سے سعودی عرب میں قائم کردہ کبار علماء کی مجلس کا حوالہ دیا کہ اس حوالے سے جہاں پر ہم باہم اپنے مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال کر سکتے ہیں‘ وہیں پر سعودی عرب کے کبار علماء کے ساتھ بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ 
5۔ مفید اور اہم کتابوں کا مطالعہ:امام ِکعبہ نے اس موقع پر اہم اور مفید کتب کے مطالعے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور انہوں نے کہا کہ ہمیں تفسیر اور کتب احادیث کی اہم کتابوں کا مطالعہ جاری رکھنا چاہیے۔ اس سے علم کی نشرواشاعت اور فروغ میں بہت زیادہ مدد ملتی ہے۔اساسی کتب کے مطالعے سے جہاں انسان کے علم میں اضافہ ہوتا ہے‘ وہیں پر اس کی رائے کی پختگی اور اصلاح کے امکانات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ 
ڈاکٹر عبداللہ بن عواد الجہنی کی سادگی‘ للہیت اور دین پسندی کو دیکھ کر ان تقریبات میں تمام احباب بہت متاثر ہوئے۔ اس کے علاوہ بعض تقریبات کے شرکاء سے سعودی سفیر ڈاکٹر نواف المالکی نے بھی خطاب کیا ۔ انہوں نے جہاں پر امام کعبہ کی آمد کا خیر مقدم کیا‘ وہیں پر ان کے اعزاز میں تقاریب کا انعقاد کرنے والے احباب کا بھی شکریہ ادا کیا۔اس موقع پر انہوں نے پاکستان کے امن وامان اور اقتصادی ترقی کے لیے نیک خواہشات اور جذبات کا اظہار کیاجو ہر اعتبار سے اہل پاکستان کے جذبات کی تسکین کا سبب تھا۔ ڈاکٹر عبداللہ عواد الجہنی کے دورے کے یقینا دوراثر اثرات مرتب ہوں گے اور آئمہ حرمین کے سابقہ دوروں کی طرح یہ دورہ بھی پاکستان کی مذہبی تاریخ میں ایک غیر معمولی اہمیت اور حیثیت اختیار کر جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں