ہمارے معاشرے میں دکھلاوے کا رجحان بہت بڑھ چکا۔ زندگی کے تمام شعبوں میں لوگ بہت سے کام فقط دکھلاوے کی خاطر انجام دیتے ہیں۔ اچھی گاڑی ‘ اچھا لباس اور خوبصورت گھر یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتیں ہیں‘لیکن آج ان نعمتوں کے حصول کا مقصد فقط اپنی امارت کا اظہار بن چکا ہے ۔ ہمارے پیش نظر صحیح بخاری میں مذکورہ یہ حدیث ضرور رہنی چاہیے۔حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: گھوڑا ایک شخص کے لیے باعث ثواب ہے‘ دوسرے کے لیے بچاؤ ہے اور تیسرے کے لیے وبال ہے‘ جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب ہے‘ وہ وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ کے لیے اس کو پالے‘ وہ اسے کسی ہریالے میدان میں باندھے یا کسی باغ میں۔ تو جس قدر بھی وہ اس ہریالے میدان میں یا باغ میں چرے گا۔ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا؛ اگر اتفاق سے اس کی رسی ٹوٹ گئی اور گھوڑا ایک یا دو مرتبہ آگے کے پاؤں اٹھا کر کودا تو اس کے آثار قدم اور لید بھی مالک کی نیکیوں میں لکھے جائیں گے اور اگر وہ گھوڑا کسی ندی سے گزرے اور اس کا پانی پئے خواہ مالک نے اسے پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ تو اس نیت سے پالا جانے ولا گھوڑا انہیں وجوہ سے باعث ثواب ہے۔ دوسرا شخص وہ ہے‘ جو لوگوں سے بے نیاز رہنے اور ان کے سامنے دست سوال بڑھانے سے بچنے کے لیے گھوڑا پالے‘ پھر اس کی گردن اور اس کی پیٹھ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اپنے مالک کے لیے پردہ ہے۔ تیسرا شخص وہ ہے‘ جو گھوڑے کو فخر‘ دکھاوے اور مسلمانوں کی دشمنی میں پالے۔ تو یہ گھوڑا اس کے لیے وبال ہے۔
اسی طرح یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ نیکیاں بھی دکھلاوے کے لیے کرتے ہیں۔اسلام میں انفا ق فی سبیل للہ کو ترغیب کیلئے اعلانیہ کرنے کی گنجائش موجود ہے ‘لیکن بہتر بات یہ ہے کہ انسان اللہ کی رضاکے لیے خفیہ طریقے سے اپنے مال کو خرچ کرے۔ اس حقیقت کو سورہ بقرہ کی آیت نمبر 271 میں یوں بیان کیا گیا : ''اگر تم ظاہر کرو (اپنے) صدقات کو تو وہ (بھی) اچھا ہے اور اگر تم چھپالو انہیں اور دے دو وہ (صدقات) فقراء کو تو وہ زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اور (ان صدقات کی وجہ سے)وہ دور کردے گا تم سے تمہارے گناہ اور اللہ اس سے جو تم عمل کرتے ہو خوب باخبر ہے۔‘‘
لیکن ‘اگر اس خرچ کرنے کا مقصد دکھلاوا ہو تو یہی عمل انسان کے لیے وبال بن جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حوالے سے سور ہ بقرہ کی آیت نمبر 264میں یوں ارشاد فرمایا : ''اے لوگو !جو ایمان لائے ہو مت ضائع کرو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور دُکھ (پہنچا کر) (اس شخص کی) طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کو دکھلانے کی خاطر اور نہ وہ ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور (نہ) آخرت کے دن پر۔‘‘
صدقہ دے کر احسان جتلانے سے بہتر ہے کہ انسان کسی کو اچھی بات کہہ دے یا اسے درگزر کر دے۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر263 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اچھی بات (کہنا) اور درگزر کرنا بہتر ہے (اس) صدقے سے (کہ) اس کے پیچھے ایذا رسائی اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور بردباد ہے۔‘‘
بعض لوگ دینی تعلیم کو حاصل کرتے ہیں تو اُن کا مقصد اپنے علم کا لوہا منوانا یا اس کے ذریعے شہرت کو حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگ اپنے بچوں کو قرآن مجید یاد کرواتے وقت یہ نیت رکھتے ہیں کہ اس وجہ سے ان کو نیک نامی حاصل ہو گی یا ان کے بچے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ انسانوں کو اپنی نیت کی اصلاح کرنی چاہیے اور ذاتی شہرت کے حصول کے لیے دینی علم حاصل کرنے کی بجائے اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت اور آخروی کامیابی کے حصول کے لیے حاصل کرنا چاہیے۔ جو شخص ذاتی شہرت اور وجاہت کے لیے یہ کام کرتا ہے‘ اُس کو صحیح بخاری کی اس حدیث سے عبرت حاصل کرنی چاہیے:۔
حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے روز سب سے پہلا شخص‘ جس کے خلاف فیصلہ آئے گا ‘ وہ ہو گا جسے شہید کر دیا گیا ۔ اسے پیش کیا جائے گا‘ اللہ تعالیٰ اسے اپنی ( عطا کردہ ) نعمت کی پہچان کرائے گا تو وہ اسے پہچان لے گا ۔ وہ پوچھے گا تو نے اس نعمت کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا : میں نے تیری راہ میں لڑائی کی حتیٰ کہ مجھے شہید کر دیا گیا۔ ( اللہ تعالیٰ ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا ۔ تم اس لیے لڑے تھے کہ کہا جائے : یہ (شخص ) جری ہے اور یہی کہا گیا ‘ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اس آدمی کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا یہاں تک کہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس نے علم پڑھا ‘ پڑھایا اور قرآن کی قراء ت کی ‘ اسے پیش کیا جائے گا ۔ ( اللہ تعالیٰ ) اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا ‘ وہ پہچان کر لے گا ‘ وہ فرمائے گا : تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا : میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قرأ ت کی ‘ ( اللہ ) فرمائے گا : تو نے جھوٹ بولا ‘ تو نے اس لیے علم پڑھا کہ کہا جائے ( یہ ) عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے : یہ قاری ہے ‘ وہ کہا گیا ‘ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا ‘ اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی ٰکہ آگ میں ڈال دیا جائے گا اور وہ آدمی جس پر اللہ نے وسعت کی اور ہر قسم کا مال عطا کیا ‘ اسے لایا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کی پہچان کرائے گا ‘ وہ پہچان لے گا ۔ اللہ فرمائے گا : تم نے ان میں کیا کیا؟ کہے گا : میں نے کوئی راہ نہیں چھوڑی ‘جس میں تمہیں پسند ہے کہ مال خرچ کیا جائے‘ مگر ہر ایسی راہ میں خرچ کیا ۔ اللہ فرمائے گا : تم نے جھوٹ بولا ہے ‘ تم نے ( یہ سب ) اس لیے کیا تاکہ کہا جائے ‘ وہ سخی ہے ‘ ایسا ہی کہا گیا ‘ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا ‘ تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا ‘ پھر اسے بھی آگ میں ڈال دیا جائے گا ۔
عبداللہ ابن جدعان عرب کا ایک سخی ‘ مہمان نواز اور غریب پرور شخض تھا‘ لیکن؛ چونکہ اس کی نیت اس سارے عمل کے بدلے اُخروی کامیابی کی نہ تھی اس لیے جب حضرت عائشہؓ نے اس کے انجام کے بارے میں نبی کریمﷺ سے استفسار کیا تو نبی کریمﷺ نے اس کی ناکامی کا ذکر کیا ۔صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول! ابن جدعان جاہلیت کے دور میں صلہ رحمی کرتا تھا اور محتاجوں کو کھانا کھلاتا تھا تو کیا یہ عمل اس کے لیے فائدہ مند ہوں گے؟آپ نے فرمایا : ''اسے فائدہ نہیں پہنچائیں گے ‘ ( کیونکہ ) اس نے کسی ایک دن ( بھی ) یہ نہیں کہا تھا : میرے رب! حساب و کتاب کے دن میری خطائیں معاف فرمانا ۔ ‘ ‘
اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بظاہر انتہائی خوش نما اعمال کرنے والے لوگ جب یہ کام اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے لیے نہیں کریں گے تو یہ کام اُن کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتے۔ اس کے مدمقابل جو عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ اس عمل کو ضائع نہیں کریں گے۔
چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 195میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کہ بے شک میں نہیں ضائع کروں گا‘ کسی عمل کرنے والے کا عمل تم میں سے مرد ہو یا عورت۔ ‘‘اسی طرح سورہ مزمل کی آیت نمبر 20میں ارشاد ہوا: ''اور تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور تم قرض دو اللہ کو قرض ِحسنہ اور جو تم آگے بھیجو اپنے نفسوں کے لیے بھلائی(نیکی) سے تم پاؤ گے‘ اسے اللہ کے ہاں (کہ) وہ بہت بہتر اور بہت بڑی ہے ؛اجر میں ۔‘‘
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص آخرت کے لیے تگ ودو کرتا ہے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی کوششوںکو قبول فرما لیتے ہیں اور فقط دنیا کیلئے جستجو کرنے والے کی محنت کا نتیجہ اسے دنیا میں تو کسی حد تک مل جاتا ہے ‘لیکن آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں ہو گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کا ذکر سورہ شوریٰ کی آیت نمبر20میں یوں فرماتے ہیں: ''جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے (تو) ہم اضافہ کر دیں گے اس کے لیے اس کی کھیتی میں اور جو کوئی دنیا کی کھیتی چاہتا ہے (تو) ہم دے دیتے ہیں اسے اس میں سے (کچھ) اور آخرت میں اس کے لیے کوئی حصہ نہیں۔‘‘
مندرجہ بالا آیات مبارکہ اور احادیث طیبہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے اعمال کی انجام دہی سے قبل اپنی نیت کی اصلاح کر لینی چاہیے اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں کے دلوں کی دھڑکنوں کو جاننے والے اور انسان کے اعمال کی ظاہری کیفیت کے ساتھ ساتھ اُن کی باطنی کیفیت کو بھی جاننے والے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اُخروی کامیابی اور نجات کو حاصل کرنے کے لیے اپنی نیت کی اصلاح کرے ‘تاکہ دنیا اور آخرت میں سربلندی حاصل ہو سکے اور دنیا اور آخرت کی تباہی اور بربادی سے بچا جا سکے۔