"AIZ" (space) message & send to 7575

فرزندان ِپاکستان!

مادرِ وطن نے ایسے بہت سے قابل ِقدر اور ذہین افراد کو پیدا کیا‘ جو دنیا بھر میں پاکستان کے تعارف کا ذریعہ ہیں ۔ ان لوگوں کا تعلق زندگی کے مختلف شعبہ جات کے ساتھ ہے۔ مختلف میدانوں میں اپنی بہترین کارکردگی کی وجہ سے جہاں پر یہ عظیم شخصیات خود متعارف ہوئیں ‘وہیں پر ان لوگوں نے اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا۔ تحریک پاکستان کے قائدین میں سے قائد اعظم ‘ علامہ اقبال‘ مولانا محمد علی جو ہر اور مولانا ظفر علی خان نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی پاکستان میں عظیم افراد پیدا ہوتے رہے۔ ماضی قریب میں سائنسی اعتبار سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان‘ اسی طرح علم کی ترویج کے حوالے سے حکیم محمد سعیدکو قومی سطح پر احترام کی نظر سے دیکھا جاتا رہا۔ بہت سے دینی زعماء اور علماء بھی دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان کا باعث بنے۔ سید مودودی اور والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کو عرب دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر ممالک میں بھی کئی ایسے لوگ آباد ہیںجو کہ نا صرف ان ممالک میں اپنی سیاسی اور سماجی خدمات کی وجہ سے متعارف ہیں ‘بلکہ اپنی شخصیت ‘ خدمات اور کردار کی وجہ سے ملک کے تعارف کا بھی باعث ہیں۔ برطانیہ میں مقیم لارڈ نذیر اور افضل خان بھی انہی شخصیات میں سے شامل ہیں۔ 
برادر لارڈ نذیر سے میری پہلی ملاقات اپریل 2011ء میں لندن میںہوئی۔ جہاں پر انہوں نے بہت پرتپاک انداز میں میرا استقبال کیا اورمجھے ہاؤس آف لارڈ کے مطالعاتی دورے کی دعوت دی اور اس کے بعد ایک پرُتکلف ظہرانے کا بھی اہتمام کیا۔ اس ملاقات میں میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اسلام اور پاکستان سے والہانہ محبت کرتے ہیں اور دنیا بھر میں کسی بھی مقام پر مسلمانوں کو تکلیف یا گزند پہنچتا ہے تو وہ مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں بلا جھجک اپنی آواز کو اُٹھاتے ہیں۔ 
لارڈ نذیر احمد 24 اپریل 1957ء کو آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے۔ان کے والدین نقل مکانی کرکے برطانیہ چلے گئے تھے اور وہ اپنے بچپن سے ہی جنوبی یارک شائر کے علاقے رودھرم میں رہائش پذیر ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم سپرلے پبلک سکول سے حاصل کی اور بعدازاں تھامس رودرہم سکستھ فارم کالج سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے شیفیلڈ پولی ٹیکنیک کالج سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ڈگری حاصل کی اور لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔1990ء میں لارڈ نذیر احمد نے اپنے باضابطہ سیاسی کیریئر کا آغاز مقامی لیبر پارٹی کونسلر کی حیثیت سے کیا ۔ وہ 1993ء میں ساؤتھ یارکشائر لیبر پارٹی کے چیئر مین بنے اور 2000ء تک ان عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے برٹش مسلم کونسلرز فورم کی بنیاد رکھی اور 1992ء اور 2000ء کے درمیان مجسٹریٹ رہے۔ وہ رودھرم کے پہلے ایشین کونسلر اور اس شہر کے سب سے کم عمر مجسٹریٹ تھے۔ وہ پاکستانی حکومت کے حمایت یافتہ لیڈر سمجھے جاتے تھے‘اور انہوں نے مسئلہ کشمیر پر برطانوی ارکان پارلیمنٹ کی ذہن سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ لندن میں ہندوستانی سفارت خانہ کے باہر ہندوستان مخالف مظاہرے کرنے پر مشہور ہوئے۔لارڈ نذیر احمد کو 3 اگست 1998ء کو کاؤنٹی آف ساؤتھ یارکشائر میں رودھرہم سے ہاؤس آف لارڈ کا تاحیات رکن بنایا گیا اور آپ اس منصب پر پہنچنے والے تیسرے مسلمان ہیں۔ 
میں جب بھی کبھی برطانیہ آتا رہا ۔ میرے برادر لارڈ نذیر احمد سے رابطے ہوتے رہے اور ان رابطوں کے دوران انہوں نے ہمیشہ انتہائی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور عالم اسلام ‘پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنے درد اور جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ پچھلے سال اکتوبر میں جب میں برطانیہ کے دورے پر تھا تو آپ یورپی ممالک کے دورے پر تھے ؛ چنانچہ ہماری باہم ملاقات نہ ہو سکی‘ تاہم روانگی والے دن ہمارا آپس میں ٹیلی فونک رابطہ ہوا اور مستقبل میں ملاقات کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ حالیہ دورہ برطانیہ کے دوران جب ہمارا آپس رابطہ ہوا تو انہوں نے مجھ سے میرے پروگراموں کے شیڈول کے بارے میں استفسار کیا اور 22 ستمبر کو برمنگھم کے ایک عوامی جلسے میں میرا خطاب سننے کے لیے خود تشریف لے آئے۔ اس موقع پر آپ نے ختم نبوتﷺ کے عقیدے کی اہمیت کے حوالے سے خودبھی اپنے خیالات کو حاضرین کے سامنے رکھا۔ سیرت النبی ﷺ پر ہونے والی میری تقریر کو انتہائی توجہ کے ساتھ سنتے رہے اور بعد ازاں انتہائی گرمجوشی سے ملاقات کر کے وہاں سے روانہ ہوئے۔ اس ملاقات میں نے محسوس کہ برطانیہ میں مقیم مسلمان عالم اسلام ‘ مسلمان کمیونٹی اور مسئلہ کشمیر پر آپ کے موقف کی وجہ سے آپ کو سراہتے ہیں اور برطانیہ کے طول وعرض میں آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ تصور کیا جاتا ہے۔ مغربی ممالک میں مقیم بہت سے لوگ اپنے علاقائی اور مذہبی پس منظر کے حوالے سے احساس کمتری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں‘ لیکن لارڈ نذیر احمد اس اعتبار سے قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے جہاں پر برطانیہ میں اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت کو تسلیم کروایا ‘وہیں پر اپنے ملک اور مذہب سے اپنی وابستگی کو کمزور نہیں ہونے دیا۔ 
برطانیہ ہی میں ایک اور اُبھرتے ہوئے پاکستانی نژاد سیاسی رہنما محمد افضل خان ہیں۔ محمد افضل خان ‘5 اپریل 1958ء میں جہلم میں پیدا ہوئے۔ آپ برطانوی لیبر پارٹی سے وابستہ ہیں۔ آپ 8 جون 2017ء کو اپنے انتخاب کے بعد گورٹن حلقہ مانچسٹر سے ممبر پارلیمنٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 
وہ پہلے 2005ء سے 2006ء تک مانچسٹر کے لارڈ میئر رہے اور 2014ء سے 2017ء تک یورپی پارلیمنٹ میںشمالی مغربی انگلینڈ کی نمائندگی کرتے رہے۔عوامی رابطہ اور حلقے کے عوام کے مسائل کے ساتھ ساتھ وہ بھی مسلمانوں کے مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ 
جب مجھے 20 ستمبر کو مانچسٹر میں جانے کا موقع ملا تو وہاں پر جہاں بہت سے پاکستانی مسلمانوں سے ملاقات ہوئی ‘وہیں پر محمد افضل خان بھی مجھ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ بعد ازاں ان کے گھر میں ان کے ساتھ ایک نشست ہوئی ‘جس میں مختلف اہم امور زیر بحث آئے۔ سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو آپ نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان اس وقت تک کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھے گا جب تک اس کو یہ قبضہ مہنگا نہ پڑ جائے۔ اس لیے کہ مفت یا سستا قبضہ چھوڑنے پر کوئی شخص ‘ادارہ یا ملک تیار نہیں ہوتا۔ انہوں نے کشمیریوںکی سیاسی‘ اخلاقی اور مذہبی جدوجہد کی بھر پور حمایت کی۔ برطانوی سماج میں نوجوان مسلمان اخلاقی انحطاط اور بے راہ روی کا شکار ہیں۔ انہوں نے اس بحران سے نکلنے کے لیے بڑی خوبصورت تجاویز دیںاور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہنے لگے کہ اگر مسلمان والدین اپنے بچوں کو دین کی تعلیم دیں تو دین خود ان کو پاکیزگی کے راستے پر گامزن کر دے گا۔ انہوں نے برطانیہ میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی کمیونٹی میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحان کی بڑی وجہ شادی کو بچانے کے لیے سمجھوتہ نہ کرنا اور اپنے حقوق کے بارے میں اضافی حساسیت ہے۔ شادی کو برقرار اور جاری رکھنے کے لیے جس لچک ‘ شفقت اور متواز ن رویے کی ضروت ہے ؛اگر وہ برطانوی مسلمانوں میں پیدا ہوئے جائے ‘تو خود بخود عائلی زندگی کو استحکام اور تقویت مل سکتی ہے۔ 
اس موقع پر محمد افضل خان صاحب نے امریکہ ‘ ہندوستان اور اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی قیادتوں کے گٹھ جوڑ پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور انہوں نے کہا کہ اس مثلث کی وجہ سے انسانیت اور عالم اسلام کو شدید دھچکا پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ مودی سے ملاقات کے دوران جب ٹرمپ کا حالیہ بیان سامنے آیا‘ جس میں انہوں نے غیر محسوس انداز میں دہشت گردی اور اسلام کو مربوط ثابت کرنے کی کوشش کی تو میں نے محسوس کیا کہ محمد افضل خان کا سیاسی تجزیہ درست تھا اور اس بات کا اندازہ بھی ہو گیا کہ وہ بین الاقوامی حالات پر انتہائی گہری نظر رکھنے والے ہیں۔ محمد افضل خان صاحب کی شخصیت کے حوالے سے مانچسٹر اور گردونواح کے لوگ انتہائی پر امید نظر آتے ہیں اور ان کا یہ ذہن ہے کہ وہ اس علاقے کے عوام کی نمائندگی کرنے کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور یورپ میں مسلم کمیونٹی کی توقعات کو پورا کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔ 
اس قسم کی شخصیات نے اپنے کردار اور طرز ِعمل سے جہاں پر اپنی شناخت کو پیدا کیا ہے‘ وہیں پر یہ لوگ پاکستان کی نمائندگی بھی احسن انداز میں کر رہے ہیں۔ سمندر پار جا کر آباد ہو جانے والے پاکستان کے ان فرزندوں سے ہونے والی ملاقاتیں اپنے جلومیں بہت سی خوبصورت یادوں کو لیے ہوئے ماضی کا حصہ بن گئیں‘ تاہم ان ملاقاتوں سے یہ نتیجہ نکلا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں آباد پاکستانی مسلمان اگر ان رہنماؤں کے طرزِ عمل پر غور کریں‘ تو یقینا وہ دنیا کے بہت سے علاقوں میں جہاں پر اپنی سماجی اور سیاسی حیثیت کو منوا سکتے ہیں ‘وہیں پر اسلام اور پاکستان کے ساتھ اپنی وابستگی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے دین اور ملک کی بھی نمائندگی کر سکتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں