"AIZ" (space) message & send to 7575

رشتوں کا چناؤ

پاکستان میں سردیوں کے مہینوں میں خصوصیت سے شادی بیاہ کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مجھے بھی حالیہ دنوں میں بہت سی شادی کی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ رانا محمد شفیق خاں پسروری اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن‘ نامور صحافی ‘ خطیب اور ایک نجی اسلامی ٹیلی وژن کے اہم ذمہ دار ہیں۔ ان کے ساتھ میری ماضی کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ مارچ 1987ء میں جب والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے جلسے میں بم دھماکہ ہوا‘ تو جہاں پر کئی افراد موقع پر جاں بحق ہو گئے تھے ‘وہیں پر بہت سے لوگ شدید زخمی ہوئے‘ جن میں رانا شفیق خاں پسروری اور شیخ نعیم بادشاہ بھی شامل تھے۔ شدید زخموں کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان دونوں کو صحت یابی سے نوازا۔ رانا محمد شفیق خاں پسروری بعدازاں مرکزی جمعیت اہلحدیث سے وابستہ رہے اور چینیانوالی مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔ چینیانوالی مسجد کی ایک پرانی تاریخ ہے‘ اس مسجد میں بہت سے نمایاں علمائے دین نے خطابت اور امامت کے فرائض انجام دیے اور تشنگان علم کو اپنے علم سے فیض یاب کیا۔ 
رانا محمد شفیق خاں پسروری‘ حسب ِسابق آج کل وہاں پر علم ودانش کے موتیوں کو بکھیر رہے ہیں اور لوگ بڑی توجہ کے ساتھ ان کی گفتگو کو سنتے ہیں۔ رانا صاحب ملک کے طول وعرض میں جلسوں‘ اجتماعات اور علمی نشستوں سے خطاب کرتے اور باحوالہ گفتگو کی وجہ سے لوگ آپ کے خطابات کو سراہتے ہیں۔ اپنی علمی خدمات کی وجہ سے آپ کو اسلامی نظریاتی کونسل کا رُکن بھی منتخب کیا گیا ہے۔ اسی سال ستمبر میں انگلستان میں اسلام ‘عظمت قرآن‘ عظمت حدیث‘ ختم نبوت ﷺکے عنوان پر بہت سے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ جن میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ اس موقع پر جلسو ں سے خطاب کرنے کے لیے جہاں پر انڈیا کے نمایاں عالم دین ایڈووکیٹ فیض احمد موجود تھے‘ وہیں پر پاکستان سے ڈاکٹر حماد لکھوی اور رانا شفیق خاں پسروری بھی ان اجتماعات کے روح ِرواں رہے۔ برمنگھم کانفرنس میں میری تقریر کے بعد رانا محمد شفیق خاں پسروری بڑے پرتپاک انداز میں ملے اور ان کے ملنے کے انداز سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ میری تقریر کے مندرجات پر مطمئن اور مسرور تھے۔ میں نے اس موقع پر ان کے چہرے پر وہی مسکراہٹ دیکھی‘ جو ایک بڑے بھائی کے چہرے پر ایک چھوٹے بھائی کو دیکھ کر ہو سکتی ہے۔ رانا صاحب1987ء میں نوجوان تھے‘ لیکن گزرتے ہوئے ماہ وسال کے ساتھ جہاں پر ہر شخص پر وقت کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ‘رانا صاحب پر بھی وہ اثرات مرتب ہوئے۔ رانا صاحب کی طرف سے چند دن قبل ان کی دُختر کی شادی کا کارڈ موصول ہوا۔7 دسمبر کو پسرور کے مقامی ہوٹل میں ہونے والی اس تقریب میں پروفیسر ساجدمیر‘ حافظ عبدالکریم‘ لیاقت بلوچ‘ فرید پراچہ اور دیگر نمایاں مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔ تقریب میں شرکت کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وقت کی رفتار تھمتی نہیں اور وقت گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ کل کے بچے آج جوان ہو چکے ہیں اور کل کے جوان بڑھاپے کی سرحدوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ گزرتے ہوئے لمحات دنیا میں خوشی اور غمی کو بھی لے کر آتے ہیں اور دنیا سے بہت سے قیمتی وجود رخصت بھی ہو جاتے ہیں۔ انسانی تاریخ‘ اسی طرح آگے بڑھ رہی ہے اور دنیا میں آمدورفت کا سلسلہ جاری وساری ہے‘ اسی طرح مجھے سبزہ زار سکیم‘ لاہور کے مقامی ہوٹل میں بھائی عمران ڈوگر کے دوکزنز کی شادی کی تقریب میں بھی 6 دسمبر کو شرکت کا موقع ملا اور اس سے قبل ڈھنگ شاہ ضلع قصور میں مقیم ایک دیرینہ ساتھی محمد سلیم مجاہد کی شادی کی تقریب میں بھی جانے کا موقع میسر آیا۔ ان تقاریب میں جہاں پر باہمی دلچسپی کے بہت سے امور زیر بحث آئے‘ وہیں پر شادی کی تقریب کی مناسبت سے بھی بہت سی باتیں دیکھنے‘ سننے اور کرنے کا موقع میسر آیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر بالغ انسان انسان کی زندگی میں وہ لمحات ضرور آتے ہیں جب وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو جاتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ اکیلے بھی ہیں اور بے نیاز بھی ہیں‘ لیکن زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے مخلوق کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے؛ چنانچہ سورہ نباء کی آیت نمبر میں 8میں ارشاد ہوا: ''اور ہم نے پیدا کیا تمہیں جوڑا جوڑا۔ ‘‘ اسی طرح سورہ یٰسین کی آیت نمبر 36میں اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں: ''پاک ہے وہ (ذات) جس نے جوڑے پیدا کیے‘ وہ سب کے سب ان میں سے (بھی) جو اگاتی ہے زمین اور خود ان سے اور ان چیزوں سے جنہیں وہ نہیں جانتے۔‘‘ 
مذکورہ بالا آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا۔ ہمارے معاشرے میں ؛اگرچہ والدین کی اکثریت بیٹے اور بیٹی کے رشتے کے لیے بے تاب رہتی ہے‘ لیکن یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ عام طور پر رشتے کے چناؤ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ عام طور پر شادی کے خواہش مند لوگ لڑکے کے معاشی استحکام اور لڑکی کے حسن اور تعلیم پر توجہ دیتے ہیں‘جبکہ دین اور اخلاق والی باتوں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب تک لڑکے یا لڑکی کی صحیح طور پر دینی اور اخلاقی تربیت نہ ہوئی ہو‘ اس سے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ ایک شفقت کرنے والا شوہر یا محبت کرنے والی بیوی ثابت ہو گی‘ فقط خیال خام ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب بھی کبھی دین اور اخلاق کو نظر انداز کرکے رشتوں کو کیا گیا تو اس وقت ندامت کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔ اس ضمن میں بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:۔
1۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ ''عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ‘اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر‘ اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی ( یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی ) ۔‘‘
2۔ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فر مایا: ''بلاشبہ کسی عورت سے شادی ( میں رغبت) اس کے دین ‘ مال اور خوبصورتی کی وجہ سے کی جاتی ہے ‘ تم دین والی کو چنو۔‘‘
3۔جامع ترمذی میں حضرت ابو حاتم المزنی ؓسے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا '' تمہارے پاس جب کوئی ایسا شخص (نکاح کا پیغام لے کر ) آئے‘ جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو‘ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد برپا ہو گا لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر اس میں کچھ ہو؟ آپ نے تین بار یہی فرمایا : جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص آئے‘ جس کی دین داری اور اخلاق سے تم مطمئن ہو تو اس سے نکاح کر دو۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو شادی کے موقع پر داماد اور بہو کا انتخاب کرتے ہوئے دین اور اخلاق کو اہمیت دینی چاہیے۔ دین کا تعلق حقوق اللہ اور اخلاق کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے‘ اگر دولہا اور دلہن اللہ سے ڈرنے اور انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے ہوں تو اس بات کے قوی امکانات ہوں گے کہ یہ لوگ ایک اچھی عائلی زندگی گزار سکتے ہیں‘جبکہ دین اور اخلاق سے بے بہرہ لوگ گھریلو زندگی کے سکون کو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تفصیلی واقعہ مذکور ہے‘ جو اس حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔واقعے کا خلاصہ کچھ یوں ہے:۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل ؑ کی شادی کے بعد ان کی عدم موجودگی میں ان کے گھر تشریف لے گئے‘ تو آپ نے اسماعیل ؑ کی بیوی کو گلہ شکوہ کرنے والی پایا تو آپ‘ اسماعیل ؑ کے لیے پیغام چھوڑ گئے کہ اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لو۔ کچھ عرصے کے بعد آپ‘ دوبارہ اسماعیل ؑکی عدم موجودگی میں ان کے گھر تشریف لے گئے‘ تو آپ نے وہاں پر اسماعیل ؑ کی ایک نئی بیوی کو موجود پایا‘ جو گفتگو اور رویے سے صابرہ اور شاکرہ معلوم ہوئیں‘ تو آپ نے یہ پیغام چھوڑا کہ اسماعیل ؑ اپنی اہلیہ کے ساتھ رفاقت کو برقر ار رکھیں۔ 
صحیح بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے اور بچیوں کے لیے اچھے رشتوں کا اہتمام کرنا یا ان کو اچھے رشتوں کی تحریک دینا والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے۔ یقینا اچھی شریک زندگی گھر کو جنت بنا دیتی ہے ‘جبکہ بے صبری اور نا شکری کرنے والے عورت گھر کے امن وسکون کو غارت کر دیتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں کتاب وسنت میں رشتوں کے چناؤ کے حوالے سے جو رہنمائی دی گئی ‘ اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔(آمین)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں