یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد یورپ میں بسنے والے مسیحیوں نے کلیسا اور ریاست کی جدائی کے تصور کو کچھ اس انداز میں قبول کیا کہ فقط اُمور ریاست سے ہی بائبل کو جدا نہیں کیا گیا‘ بلکہ اصلاح فرد کے حوالے سے بھی بائبل کے پیغام کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ذاتی زندگی میں بھی اباحیت پسندی کادور دورہ ہو ا اور نظم اجتماعی کیلئے الہامی ہدایات کی بجائے پارلیمان کی بالا دستی کو قبول کر لیاگیا‘ جن یورپی ریاستوں میں بادشاہت قائم تھی ‘وہاں پر اسے ایک روایت اور علامت کادرجہ دے دیاگیا۔ صنعتی انقلاب نے جس طرح یورپ کے نظام حکومت اور تمدن کو متاثر کیا‘ اسی طرح نو آبادیاتی نظام کے بعد مسلمان بھی قومی ریاستوں میںتقسیم ہو گئے۔ ان ریاستوں کے معرض وجود میںآنے کے بعد جس معرکۃ الآراء بحث نے مسلم معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ‘وہ مذہب اور ریاست کاباہمی تعلق تھا۔ کئی مسلمان ریاستوں نے مذہب کو اپنے علاقے میں ایک بالا دست حیثیت دی ‘جبکہ اس کے برعکس بہت سی دیگر ریاستوں نے یورپ کی مانند نظم اجتماعی اور امور ملکی کو چلانے کیلئے پارلیمان اور عوام کی اکثریت کے فیصلے کو ہی حتمی حیثیت دے دی۔
تقسیم برصغیر کا واقعہ اس اعتبار سے ایک منفرد واقعہ ہے کہ اس تقسیم میںمذہب نے کلیدی کردار ادا کیا۔مسلمان اکابرین کی فہم وفراست اور ایک لمبی اور تاریخی جدوجہد کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔ قیام پاکستان کے بعد اس بات کی توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان مسلمانانِ ہندکی خوابوں کی تعبیر ثابت ہو گا۔ اللہ کے فضل وکرم اوراحسان سے پاکستان مسلمانوںکا وطن ثابت ہوا اور یہاں پر مسلمانوں نے ارکان اسلام اور شعائر اسلام کی پاسداری احسن طریقے سے کی ‘لیکن پاکستان کے بن جانے کے بعد بھی یہ بحث ملک کے مختلف طبقات بالخصوص طبقہ اشرافیہ ‘ یونیورسٹیوں ‘کالجوں ‘سول سوسائٹی اور میڈیا میں جاری وساری رہی کہ مذہب اور ریاست کاباہمی تعلق کیا ہے؟ نتیجتاً ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ مذہب اورریاست کے باہمی تعلق کے حوالے سے عصر حاصر کے بہت سے نوجوان تشویش ‘ ابہام اور شکوک شبہات کا شکار نظر آتے ہیں۔ جدید مواصلاتی نظام نے دنیا بھر کے لٹریچر اور معلومات کو دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک منتقل کرنا شروع کیا۔ جدید ریاستوں کی ترقی اور وہاں پر موجود طاقتور اور منظم انفراسٹر کچر مسلمان نوجوانوں کی ایک بڑی تعدادکو اس نکتے پر لے آیا ہے کہ وہ بھی یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید مذہب اور ریاست کا باہمی تعلق نہیں۔ وہ اپنی دانست میں مذہب کو عقائد ‘ عبادات اورا خلاقیات سے متعلق معاملات تک محدود کر دیتے ہیں اور کاروبار زندگی‘ معیشت اورسیاست کے معاملات کو اپنی مرضی کے ساتھ چلانا چاہتے ہیں۔ اُمت مسلمہ کے نوجوانوں کو مختلف مفکرین کی آراء سننے اور پڑھنے کا موقع ملتا ہے‘ جس کی وجہ ان کی فکر کسی ایک نکتے پر مرتکز نہیں ہوپاتی اوروہ اس حوالے سے رہنمائی کے طلب گار رہتے ہیں۔ مجھے بھی کئی مرتبہ نوجوانوںکے اس قسم کے سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛ چنانچہ میں نے فیصلہ کیا کہ اس حوالے سے اپنی گزارشات کو قارئین کے سامنے رکھا جائے۔
جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں‘ تو ہمیں سیاسی حوالے سے بھی کامل اورواضح رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ ہم قرآن مجید کے مطالعے کے بعد باآسانی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن مجید نے جہاں پر عقائد ‘ عبادات اور معاملات کے حوالے سے زبردست انداز میں اُمت مسلمہ کی رہنمائی کی ہے‘ وہیں پر ریاستی اُمور اور معاملات کے حوالے سے بھی قرآن مجید میں سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔
حکمرانوں کے چناؤ اوران کے اوصاف کے حوالے سے قرآن مجید کی سورہ بقرہ میں حضرت طالوت کے واقعہ کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان کیاگیا ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 246 اور 247 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں ''کیا نہیں آپ نے دیکھا بنی اسرائیل کے گروہ کو موسیٰ علیہ السلام کے بعد‘ جب انہو ں نے کہا اپنے نبی سے کہ مقرر کر ہمارے لیے ایک بادشاہ (جس کی رہنمائی میں) ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں۔ اس نے کہا کیا ہو سکتا ہے کہ اگر فرض کر دی جائے تم پر جنگ یہ کہ تم جنگ نہ کرو۔ وہ کہنے لگے اور کیا ہو گا ہمیں کہ نہ ہم جنگ کریں گے اللہ کے راستے میں‘ حالانکہ یقینا ہم نکالے گئے ہو ں گے اپنے گھروں سے اور اپنے بال بچوں سے‘ پھر جب فرض کر دی گئی ان پر جنگ (تو اپنے عہد سے) پھر گئے سوائے چند ایک کے ان میںسے اور اللہ خوب جاننے والا ہے ظالموں کو اور کہا؛ ان سے ان کے نبی نے کہ بے شک اللہ نے تحقیق مقرر کر دیا ہے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ ۔ کہنے لگے؛ کیسے ہو سکتی ہے اس کی بادشاہی ہم پر؟ حالانکہ ہم زیادہ حق دار ہیں بادشاہی کے اس سے اور نہیں دی گئی اسے مال کی وسعت ۔ اس (نبی) نے کہا بے شک اللہ نے اسے منتخب کیا ہے تم پر اور اسے زیادہ دی ہے کشادگی علم اور جسم میں اور اللہ دیتا ہے اپنی بادشاہت جسے چاہتا ہے اور اللہ وسعت والا‘ بہت علم والا ہے۔‘‘
آیات مذکورہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں حکمران کے چناؤ کے لیے علم اور طاقت جیسے بہترین اوصاف کی طرف رہنمائی کی گئی ہے؛ چنانچہ ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ تاریخ اسلام کے اولین حکمران خلفاء راشدین تھے۔ خلفاء راشدین علم اور طاقت کی نعمت سے بہرہ ور تھے‘ جس کے نتیجے میں معاشرے میں امن اورسلامتی کا دور دورہ رہا۔ خلفائے عظام اپنے علم کے ذریعے لوگوں کے مسائل کی جانچ پڑتال کرتے رہے اور قوت نافذہ کے ذریعے درست فیصلوں کو معاشرے پر لاگو کرتے رہے اور عسکری طاقت کے ذریعے وہ مملکت اسلامیہ کی سرحدوں کا دفاع کرتے رہے‘ اسی طرح جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی اقتصادی کاوشوں اور جناب طالوت اور ذوالقرنین کی فتنوں کا قلع قمع کرنے کیلئے کی جانے والی جدوجہد کا ذکر بھی ملتا ہے‘ اسی طرح ہم حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی عظیم الشان حکومتوں کا بھی تجزیہ کر سکتے ہیںکہ کس انداز میں انہوں نے لوگوں کے مابین بہترین فیصلے کیے اور کس انداز میں وہ امور سلطنت کو چلاتے رہے۔ ماضی کے ان عظیم حکمرانوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حج کی آیت نمبر 41میں مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داریوں کا بھی بڑے ہی خوبصورت انداز میں ذکر کیا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادفرماتے ہیں ''وہ لوگ ‘جو اگر ہم اقتدار دیں ‘انہیں زمین میں (تو) وہ نماز قائم کریں اور ادا کریں ‘زکوٰۃ اور حکم دیں نیکی کا اور وہ روکیں برائی سے اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے تمام امور کا انجام۔‘‘
اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان حکمرانوں کی چار ذمہ داریاں ہیں: 1۔ نظام صلوٰۃ کو قائم کریں۔ 2۔ نظام زکوٰۃ کو منظم کریں۔ 3۔ معروف کا حکم دیں 4۔منکرات سے روکیں۔ جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ چار نکات معاشرے کی ترقی اور فلاح وبہبود کیلئے درکار تمام ضروری اقدامات کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہیں؛ چنانچہ مسلمان معاشرے کا حاکم ہر اس کام کو انجام دیتا ہے‘ جو رائے عامہ کیلئے مفید ہو اور جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کو بھی مدنظر رکھاگیا ہو‘ اسی طرح مسلمان حاکم ان تمام کاموںسے معاشرے کو دور کر تا ہے‘ جو معاشرے کیلئے نقصان دہ ہوں اور جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کا معمولی سے بھی شائبہ موجود ہو۔ جب کتاب وسنت کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اسلام میں زنا‘ قذف‘ منشیات اور چوری کی حد کو متعین کیا گیا ہے‘ اسی طرح اسلام میں جان کی حفاظت کیلئے قصاص کا بہت ہی خوبصورت تصور موجود ہے۔ ان قوانین کی عملداری تبھی ممکن ہے جب ریاست مذہب کی بالادستی اور افاقی تعلیمات کو قبول کرتی ہو۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آئین پاکستان میں کتاب وسنت کوبالادست قرار دیا گیا اور کسی بھی ایسی قانون سازی کی گنجائش نہیں رکھی گئی‘ جس کے نتیجے میں کتاب وسنت کی تعلیمات متاثر یا مجروح ہوں۔ ہمیں بلحاظ ِپاکستانی مسلمان اپنے آئین کے خدوخال پر مکمل اطمینان ہے‘ تاہم ملک میں اسلامی کی عملداری کو یقینی بنانے اورمملکت کو ایک اسلامی فلاحی ریاست میںتبدیل کرنے کے لیے کئی عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار کچھ عرصہ قبل بحریہ کے سربراہ ایڈمرل ظفر محمود عباسی نے بھی کیا تھا ‘ اگر آئین کے مطابق ‘ملک میں کتاب وسنت کی عملداری کو یقینی بنا دیا جائے‘ تو یقینا ہمارا معاشرہ حقیقی اسلامی فلاحی ریاست میںتبدیل ہوسکتا ہے۔ اس کام کے لیے جہاںپر علماء ‘ اساتذہ کو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہو گا‘ وہیں پر حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے یکسوئی کو اختیار کرنا ہوگا۔ اگر ایسا کر لیا جائے‘ تو اسلام اور ریاست کا وہ تصور‘ جس کو کتاب وسنت میں پیش کیا گیا ہے ‘کو حقیقی معنوں میں عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے!