نیت کی اہمیت کو سمجھنا ہو تو صحیح بخاری کی پہلی حدیث پر غور کرنا چاہیے۔اس حدیث کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں کچھ یوں نقل فرمایا ہے : حضرت عمر بن خطاب ؓنے منبر پر بیان فرمایا کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترکِ وطن) دولتِ دنیا حاصل کرنے کے لیے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو۔ پس اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے ہو گی جن کے حاصل کرنے کی نیت سے اس نے ہجرت کی ہے۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اعمال کی ظاہری شکل وصورت سے زیادہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے یہاں پر نیت معتبر ہے ۔ اگر کوئی شخص رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اپنے دین کو بچانے کے لیے ہجرت کرتا ہے توا س کی ہجرت اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے ہے اور جوشخص دنیا کمانے یا شادی کے لیے وطن سے نکلتا ہے تو اس کا سفر درحقیقت دولت یا شادی کے لیے ہی ہو گا۔ صحیح بخاری ہی کی ایک اور حدیث نیت کی اہمیت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں واضح کرتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا‘ گھوڑا ایک شخص کے لیے باعثِ ثواب ہے‘ دوسرے کے لیے بچاؤ ہے اور تیسرے کے لیے وبال ہے۔ جس کے لیے گھوڑا اجر و ثواب ہے‘ وہ وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ کے لیے اس کو پالے‘ وہ اسے کسی ہریالے میدان میں باندھے (راوی نے کہا) یا کسی باغ میں۔ تو جس قدر بھی وہ اس ہریالے میدان میں یا باغ میں چرے گا اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ اگر اتفاق سے اس کی رسی ٹوٹ گئی اور گھوڑا ایک یا دو مرتبہ آگے کے پاؤں اٹھا کر کودا تو اس کے آثار ِقدم بھی مالک کی نیکیوں میں لکھے جائیں گے اور اگر وہ گھوڑا کسی ندی سے گزرے اور اس کا پانی پئے خواہ مالک نے اسے پلانے کا ارادہ نہ کیا ہو تو بھی یہ اس کی نیکیوں میں لکھا جائے گا۔ تو اس نیت سے پالا جانے ولا گھوڑا انہیں وجوہ سے باعث ثواب ہے‘ دوسرا شخص وہ ہے جو لوگوں سے بے نیاز رہنے اور ان کے سامنے دستِ سوال بڑھانے سے بچنے کے لیے گھوڑا پالے‘ پھر اس کی گردن اور اس کی پیٹھ کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے حق کو بھی فراموش نہ کرے تو یہ گھوڑا اپنے مالک کے لیے پردہ ہے۔ تیسرا شخص وہ ہے جو گھوڑے کو فخر‘ دکھاوے اور مسلمانوں کی دشمنی میں پالے۔ تو یہ گھوڑا اس کے لیے وبال ہے۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بظاہر ایک ہی طرح کا نظر آنے والاگھوڑااپنے مالک کی نیت کی وجہ سے اس کے لیے ثواب یا عذاب کا باعث بن سکتا ہے؛چنانچہ جہاں پر ہمیں اپنے اعمال کو سنت نبوی شریفﷺ کے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے وہیں پرہمیں اپنی نیتوں کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ اگر انسان کی نیت درست نہ ہو تو انسان کی بڑی بڑی نیکیاں اس کے لیے وبال بن سکتی ہیں۔ سخاوت کرنا اور اپنے مال کو خرچ کرنا بہت بڑی نیکی کا کام ہے ‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا اور دین کا علم حاصل کرنا یا قرآن مجید کی تلاوت کرنا بھی بہت بڑی نیکی ہے لیکن اگر یہ نیکیاں دکھاوے کے لیے کی جائیں گی تو ان نیکیوں کو کرنے والا شخص اجر وثواب کی بجائے عذاب کا مستحق ہو گا۔ اس ضمن میں ایک حدیث درج ذیل ہے:
جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے: ''قیامت کے دن جب ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا‘ پھر اس وقت فیصلے کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہو گا‘ دوسرا شہید ہو گا اور تیسرا مالدار ہو گا‘ اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہے گا: کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا: یقینا اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں اس قرآن کے ذریعے رات دن تیری عبادت کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا‘ پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: (قرآن سیکھنے سے) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں‘ سو تجھے کہا گیا‘ پھر صاحب ِمال کو پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے ہر چیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی‘ یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا؟ وہ عرض کرے گا: یقیناً میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھے جو چیزیں دی تھیں اس میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے‘ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں سخی کہا جائے‘ سو تمہیں سخی کہا گیا‘ اس کے بعد شہید کو پیش کیا جائے گا‘ اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تجھے کس لیے قتل کیا گیا؟ وہ عرض کرے گا: مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا؛ چنانچہ میں نے جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا‘ اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تو نے جھوٹ کہا‘ فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے‘ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے سو تجھے کہا گیا‘پھر رسول اللہﷺ نے میرے زانو پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ابوہریرہ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی‘‘۔
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ خیرات‘ تلاوت اور جہاد جیسے عظیم اعمال کی قبولیت کے لیے بھی نیت کی اصلاح ضروری ہے۔ بعض دیگر احادیث میں بھی اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ جہاد اگر اللہ کی رضاکے لیے نہیں ہو گا تو وہ انسان کے لیے باعث اجروثواب نہیں ہو سکتا۔
1۔سنن ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! مجھے جہاد اور غزوہ کے بارے میں بتائیے‘ آپ ﷺنے فرمایا: اے عبداللہ بن عمرو! اگر تم صبر کے ساتھ ثواب کی نیت سے جہاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں صابر اور محتسب (ثواب کی نیت رکھنے والا) بنا کر اٹھائے گا‘ اور اگر تم ریاکاری اور فخر کے اظہار کے لیے جہاد کرو گے تو اللہ تمہیں ریا کار اور فخر کرنے والا بنا کر اٹھائے گا‘ اے عبداللہ بن عمرو! تم جس حال میں بھی لڑو یا شہید ہو اللہ تمہیں اسی حال پر اٹھائے گا۔
2۔سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو بہادری کی شہرت کے لیے لڑتا ہے‘ اور جو خاندانی عزت کی خاطر لڑتا ہے‘ اور جس کا مقصد ریا و نمود ہوتا ہے‘ تو آپ ﷺنے فرمایا: اللہ کے کلمے کی بلندی کے مقصد سے جو لڑتا ہے وہی مجاہد فی سبیل اللہ ہے ۔
3۔موطا امام مالک‘ جامع ترمذی اور سنن نسائی میں حضرت معاذ ؓ بیان کرتے ہیں‘ رسول اللہ ﷺنے فرمایا''جہاد دو قسم کا ہے‘ رہا وہ شخص جس نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے جہاد کیا‘ امام و امیر کی اطاعت کی‘ انتہائی قیمتی مال خرچ کیا‘ اپنے ساتھی کو آسانی و سہولت فراہم کی اور فساد سے اجتناب کیا تو ایسے شخص کا سونا اور جاگنا سب باعث ِاجر ہے‘ دوسرا وہ شخص جس نے فخر و ریا نیز شہرت کی خاطر جہاد کیا‘ امام و امیر کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد پیدا کیا تو وہ ثواب کے ساتھ واپس نہیں آتا‘‘۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا جہا د جیسا عظیم عمل بھی اسی صورت قبول ہو گا جب وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کے لیے ہو گا۔اگر اس کی نیت درست نہ ہو تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اس عمل کو قبول نہیں فرمائیں گے۔شہرت اور دکھاوے کے لیے نیکیاں کرنے والے لوگوں کو اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی نیت سے پوری طرح واقف ہے۔
سلسلۂ احادیث صحیحہ میں محمود بن لبیدسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے تم پر سب سے زیادہ شرک اصغر کا خوف ہے۔ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول شرک اصغر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ریا کاری۔ اللہ عزوجل قیامت کے دن لوگوں کوبدلہ دے گاتوریا کاروں سے فرمائے گا: دنیا میں جن لوگوں کودکھایا کرتے تھے ان کے پاس چلے جاؤ‘ دیکھوکیا تمہیں ان کے پاس کچھ بدلہ ملے گا؟
سجدے کی اہمیت ہر باشعور شخص پر واضح ہے لیکن یہ عظیم عمل بھی ریاکاری کی وجہ سے تباہ وبرباد ہو جاتا ہے؛ چنانچہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :''ہمارا رب (روزِ قیامت) اپنی پنڈلی ظاہر کرے گا تو ہر مومن مرد اور مومنہ عورت اس کے لیے سجدہ ریز ہو جائیں گے‘ صرف وہی باقی رہ جائے گا جو دنیا میں ریا اور شہرت کی خاطر سجدہ کیا کرتا تھا‘ وہ سجدہ کرنا چاہے گا لیکن اس کی کمر تختہ بن جائے گی (اور وہ سجدہ کے لیے جھک نہیں سکے گی)‘‘ ۔
ان تمام احادیث مبارکہ پر غور کرنے کے بعد یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے اعمال کی قبولیت کے لیے اس کی نیت کا درست ہونا کس قدر ضروری ہے۔ اگر انسان کی نیت درست نہ ہو تو اس کے اعمال اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نیت اور اعمال کی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین