مملکتِ خداداد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہمیں یہ وطن بہت زیادہ قربانیوں کے بعد حاصل ہوا۔ اس کے حصول کے لیے ہزاروں لوگوں نے اپنے گھروں کو خیرباد کہا، بڑی تعداد میں بوڑھوں کی ڈاڑھیاں لہو میں تربتر ہوئیں، ماؤں‘ بہنوں‘ بیٹیوں کی عصمت پامال ہوئی اور معصوم بچوں کو ذبح کیا گیا۔ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اُبھرا، جس سے نہ صرف یہ کہ برصغیر کے مسلمانوں کو توانائی اور طمانیت حاصل ہوئی بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کے قیام پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ کسی بھی مملکت کی ترقی اور بقا کے لیے اس کا معاشی اور سیاسی استحکام کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بدنصیبی سے پاکستان متعدد مرتبہ سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہو چکا ہے اور بہت سی جمہوری حکومتیں مدت مکمل کیے بغیر رخصت کی جا چکی ہیں۔
پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی تاریخ بہت طویل ہے۔ 1970ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ کو انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی جبکہ مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن کر اُبھری۔ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اقتدار عوامی لیگ کو منتقل نہ ہو سکا۔ عوامی لیگ نے بھارت کی سرپرستی میں قوم پرست بنگالیوں کو پاکستان کے خلاف اُکسایا اور تقسیم وطن کے لیے ایک منظم تحریک چلائی۔ دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ‘ اس تحریک نے بھی سقوطِ ڈھاکہ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سانحہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اس بات کی اُمید تھی کہ ہمارے ملک کے ذمہ داران مستقبل میں سیاسی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ 1977ء میں ہونے والے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے پر پاکستان قومی اتحاد نے انتخابات میں حصہ لیا۔ اس اتحاد نے انتخابی نتائج پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف ایک تحریک چلائی۔ یہ تحریک رفتہ رفتہ سوشل ازم کے خلاف منظم ہوتی چلی گئی اور تحریک نظامِ مصطفیﷺکے عنوان سے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ اس تحریک کے نتیجے میں پاکستان ایک طویل عرصہ تک مارشل لاء کی لپیٹ میں آ گیا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
1988ء کے انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی لیکن اپنی مدتِ اقتدار کو پورا نہ کر سکی۔ دو سال بعد 1990ء میں ہونے والے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بنی لیکن وہ بھی اپنی مدت مکمل نہ کر سکی۔ 1993ء میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر برسر اقتدار آئی لیکن اس دفعہ بھی حکومت اپنی مدت مکمل نہ کر سکی۔ 1997ء میں ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ کو ایک بڑا مینڈیٹ حاصل ہوا لیکن اس مینڈیٹ کے باوجود ملک میں سیاسی استحکام پیدا نہ ہو سکا اور حکومت اور اداروں کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے اور پہلے وہ جیل اور بعد ازاں نوبت ان کی جلا وطنی تک آ گئی۔ جنرل پرویز مشرف کے برسر اقتدار آنے کے تین سال بعد 2002ء میں عام انتخابات ہوئے، انتخابات کے بعد حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کے درمیان رسہ کشی جاری رہی لیکن 2002ء سے 2008ء اور 2008ء سے 2013ء ء تک ملک میں سیاسی کشمکش نسبتاً کم رہی۔
2013ء کے انتخابات میں پاکستان مسلم نون برسر اقتدار آئی تو پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بعض حلقوں میں انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے اور اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ عمران خان کی تحریک کے نتیجے میں 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف ایک نمایاں جماعت کی حیثیت سے اُبھر کر سامنے آئی۔ 2018ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی کو عمران خان اور ان کے ہمنوا عمران خان کی مقبولیت سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام نے اس کو دھاندلی کی پیداوار قرار دیا اور واضح طور پر اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ مولانا فضل الرحمن تو ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلیوں میں بھی بیٹھنے کے قائل نہ تھے لیکن بعد ازاں اپوزیشن جماعتوں کے مشورے پر‘ اسمبلی کے فلور سے مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے اپوزیشن کے فیصلے سے مولانا فضل الرحمن نے سمجھوتا کر لیا۔ قریب سوا سال عمران خان کی حکومت کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے ملک میں بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کر کے اپنے کارکنان کو ایک آزادی مارچ کی طرف مائل کیا۔ آزادی مارچ میں عوام کی کثیر تعداد شریک ہوئی لیکن مولانا فضل الرحمن بظاہر اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد بھی جمعیت علمائے اسلام کے زیر اہتمام ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد ہوتا رہا۔
20 ستمبر کو ایک مرتبہ پھر اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی دعوت پر آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا گیا جس میں ملک کی نمایاں سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری اور پاکستان مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف نے کانفرنس میں ٹیلی لنک کے ذریعے شرکت کی جبکہ دیگر رہنماؤں میں بلاول بھٹو زرداری، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، پروفیسر ساجد میر، اویس نورانی، آفتاب شیر پاؤ، محمود خان اچکزئی، ڈاکٹر عبد المالک وغیرہ شامل تھے۔ ان تمام رہنماؤں نے حکومت کے خلاف اپنے بھرپور تحفظات کا اظہار کیا اور اس حکومت کو غیر آئینی قرار دیا اور اس بات کا مطالبہ کیا کہ مقتدرہ کو سیاسی معاملات سے لا تعلق رہنا چاہیے، حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے سٹریٹ پاور کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے آپشن کو بھی اختیار کرنے کی باتیں کی گئیں۔ اے پی سی میں ہونے والے فیصلوں کے نتیجے میں ملک میں سیاسی اعتبار سے ایک گہما گہمی والا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے رہنما اور کارکنان جہاں ان اعلانات سے متحرک نظر آئے وہیں پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اس کانفرنس کو اپنے سرمائے اور وجود کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اکٹھ سے تعبیر کیا۔ جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی آل پارٹیز کانفرنس کو بعض لوگوں کے ذاتی مفادات کے تحفظ سے تعبیر کیا۔ ان تعبیرات کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں اور تحریک کے نتیجے میں ملک میں سیاسی کشمکش کی کیفیت اپنے پورے عروج پر نظر آ رہی ہے۔ یہ تحریک کیا رُخ اختیار کرتی ہے اس کا فیصلہ تو آنے والے دنوں میں ہو جائے گا لیکن عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ جو ملک میں سیاسی استحکام چاہتا ہے‘ ساری صورتحال پر غور و خوض کرنے کے بعد یہ سوچ رہا ہے کہ نجانے وہ دن کب آئیں گے جب ہمارا ملک سیاسی اعتبار سے مستحکم ہو گا۔
پاکستان کے استحکام کے لیے ہر شخص اپنے انداز میں سوچتا ہے‘ اس حوالے سے میرا بھی ایک مشاہدہ ہے جسے میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ پاکستان کی مضبوطی کے لیے تین باتوں پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے:
1۔ اسلام: پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس میں اسلامی اصولوں پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ ایک کثیر القومی ریاست میں مذہب‘ قوموں، گروہوں اور افراد کے جڑاؤ میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ مذہب کے تقدس کے خلاف ہونے والی سازشیں‘ جن کا تعلق ختم نبوت، ناموس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین یا دیگر معاملات سے ہو‘ پاکستان میں عدم استحکام کا سبب بن سکتی ہیں؛ چنانچہ اسلام کی عظمت پر کسی بھی قسم کا سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔
2۔ حقیقی جمہوریت: ملک میں حقیقی جمہوریت کاقیام انتہائی ضروری ہے اور اس حقیقی جمہوریت کے لیے قیام کے لیے اس بات پر توجہ دینا وقت کی پکار ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومتوں کو برسر اقتدار آنے کا موقع ملنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی دھاندلی اور کسی ادارے کی مداخلت کے اندیشے کو روکنا چاہیے۔
3۔ آئین سے وابستگی: آئین پاکستان ملک کے تمام اداروں اور افراد کے حقوق ، اختیارات اور دائرہ کار کا تعین کرتا ہے؛ چنانچہ آئین پاکستان سے وابستگی بھی انتہائی ضروری ہے۔ آئین سے انحراف کے نتیجے میں ملک اقتدار کی رسہ کشی اور سیاسی کشمکش کا شکار رہے گا۔ لہٰذا اس حوالے سے ہمارے ملک کے مختلف طبقات اور سیاسی جماعتوں کو آئین سے وابستگی کا بھرپور انداز میں مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ان تین نکات کے ساتھ ساتھ‘ قومی خزانے میں تصرف کا مسئلہ بھی زیر بحث آتا رہا ہے۔ قومی خزانہ پوری قوم کی ملکیت ہے اور اس میں تصرف کرنا کسی بھی حاکم یا اس کے دوست‘ احباب اور رشتہ داروں کے لیے درست اور جائز نہیں اور اگر کوئی بااثر شخص قومی خزانے میں ناجائز تصرف کرتا ہوا نظر آئے تو یقینا اس کا احتساب ہونا چاہیے لیکن یہ احتساب میرٹ پر ہونا چاہیے اور اس حوالے سے کسی رہنما کی سیاسی وابستگی کی وجہ سے نہ تو اس کو ریلیف ملنا چاہیے اور نہ ہی اس کو بغض و عناد کا نشانہ بنانا چاہیے۔
اگر ان اصولوں کو طے کر لیا جائے تو یقینا ہمارا ملک سیاسی اعتبار سے مستحکم ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے ملک کو سیاسی استحکام عطا فرمائے۔ آمین!