ملک یوسف ایک سلجھے ہوئے نوجوان ہیں۔ آپ بیکری کی مصنوعات بنانے والی ایک فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔ ایک عرصے سے گاہے بگاہے مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر جمعہ ادا کرتے اور دینی معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ چند روز قبل انہوں نے اپنی بھانجی کا نکاح پڑھانے کے لیے مجھے دعوت دی۔ میں اس تقریب میں پہنچا تو لوگوں کو خوش اور مسرور پایا۔ دلہا کے والد لاہور میں محکمہ پولیس میں اعلیٰ افسر تھے۔ آپ بڑے پرتپاک انداز میں مجھ سے ملے۔ یقینا نکاح کا موقع انسان کی زندگی میں خوشی کا ایک اہم موقع ہوتا ہے اور ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی خوشی کو پورا کرنے کے لیے جس حد تک اپنے وسائل کو استعمال کر سکتا ہے ان کو بروئے کار لائے اور اپنی خوشی اور مسرت کو دو چند کرنے کے لیے ہر قسم کے لوازمات کو پورا کرے۔ جب ہم نکاح اور شادی کے حوالے سے اسلامی تعلیمات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام نے اس خوشی کو منانے کے کچھ اصول اور ضابطے مقرر کیے ہیں کہ جن سے انحراف کرنا کسی بھی طورپر درست نہیں‘لیکن لوگوں کی بڑی تعداد ان اصول وضوابط سے غافل نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں قرآن وسنت کی تعلیمات سے لوگ پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔ نکاح پڑھانے والے علما کو اس موقع کو غنیمت جاننا چاہیے اور لوگوں کو شادی بیاہ کے حوالے سے کتاب وسنت کی تعلیمات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ جب مجھے نکاح پڑھانے کی دعوت دی گئی تو میں نے خطبۂ مسنونہ اور اس کے بعد نکاح کے موقع پر پڑھی جانے والی آیات کی تلاوت کی اوراجاب وقبول کا مرحلہ مکمل ہونے سے قبل اپنی چند گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا جنہیں میں کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں :
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان میں بہت سی خواہشات اور جبلی تقاضوں کو پیدا کیا ہے جن میں سے ایک اہم تقاضا صنفِ مخالف میں سے ایک اچھے ساتھی کی خواہش ہے۔اس خواہش کو غلط طریقے سے پورا کرنے والے لوگ بے راہ روی اور بدکرداری کے راستے پر چل نکلتے ہیں اور معاشرے میں صنفی بد امنی کو پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ اس صلاحیت کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے شادی کے بعداستعمال کرتے ہیں وہ جہاں پر اپنی خواہشات کو بطریق احسن پورا کرتے ہیں وہیں پر سماج میں ایک صحت مند اور اچھے گھرانے کی بنیاد بھی رکھتے ہیں۔ شادی کے بعد کی زندگی جہاں پر بہت سی خوشیوں سے عبارت ہے وہیں پر اس سے وابستہ بہت سی ذمہ داریاں بھی ہیں۔ ان ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انسان کو شادی شدہ زندگی میں بہت سے چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں اپنے گھر والوں سے سابقہ تعلقات کو اچھے طریقے سے نبھانے کے ساتھ ساتھ ساتھ ساتھ ایک نئے خاندان کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرنا بھی شامل ہے۔
خوشی کے اس موقع پر کئی مرتبہ آپے سے باہر ہو کر انسان سے ایسے اقوال اور افعال کا صدور ہو جاتا ہے جو متانت ‘ سنجیدگی اور اخلاق کے اعلیٰ معیار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اسی طرح شادی کے موقع پر مخلوط محافل کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جن میں کئی مرتبہ اسلام کے تصورِ عفت و عصمت اور حجاب و حیاپر بڑی کاری ضرب لگتی ہے۔ شادی کے موقع پر کئی مرتبہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور لڑکے کی آمدن اورلڑکی کی عمر کے حوالے سے مبالغہ آمیزی سے کام لیاجاتا ہے۔ ان ساری باتوں کے تدارک کے لیے خطبہ مسنونہ کے بعد پڑھے جانے والی آیات میں بڑے ہی بہترین انداز میں رہنمائی کی گئی ہے۔ وہ آیات مبارکہ جن کی اس موقع پر تلاوت کی جاتی ہے درج ذیل ہیں:
1۔''اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو !اللہ سے(ایسے ) ڈرو (جیسا کہ) اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو ‘‘(سورہ نساء : آیت نمبر102)
2۔اے لوگو !ڈرواپنے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا ایک جان (آدم) سے اور اس نے پیدا کیا اُس (جان) سے اُس کا جوڑا اور پھیلا دیے اُن دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں اور ڈرتے رہو اللہ سے جو (کہ) تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اس کا واسطہ دے کر اور رشتوں (کو توڑنے ) سے (بھی ڈرو) بیشک اللہ تم پر نگہبان ہے‘‘۔(سورہ نساء : آیت نمبر1)
3۔اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اُس کے رسول کی تو یقینا اُس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی‘‘۔(سورہ احزاب : آیت نمبر70‘71)
ان آیات میں بیان کردہ نصیحتوں سے اگر رہنمائی حاصل کی جائے تو انسان کا نکاح والا دن اور بعد والی زندگی بہت ہی احسن انداز میں گزر سکتی ہے۔ ان آیات میں جو اہم نصیحتیں کی گئی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
1۔ تقویٰ: اللہ تبارک وتعالیٰ کا ڈر یقینا انسان کی دنیا اور آخرت کو سنوارنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بھی اگر انسان کے دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ڈر اور خوف پیدا ہو جائے تو اس کے نتیجے میں دلہا‘ دلہن کے حقوق کی اچھے طریقے سے پاسداری کرے گا۔ اسی طرح دلہن بھی تقویٰ کی وجہ سے دلہا کے ساتھ محبت اور وفاداری کرنے پر آمادہ وتیار رہے گی؛ چنانچہ دلہا اور دلہن کو بہترین انداز میں زندگی گزارنے پر آمادہ کرنے کیلئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے خوف سے بڑی کوئی چیز نہیں۔ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اُن کے شامل حال ہو جائے تو یقینا ان کا گھرانہ خوشیوں سے معمور ہو سکتا ہے۔
2۔ موت کے وقت تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری: انسان دنیا میں خواہ کتنی دیر ہی زندہ کیوں نہ رہے اسے بالآخر مرنے کے بعد اپنے خالق ومالک سے ملاقات کے لیے اُس کی بارگاہ میں پلٹنا ہے۔ موت کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا احساس یقینا انسان کے اعمال کی اصلاح کا بہت بڑا ذریعہ ہے؛ چنانچہ انسان کو خوشی کے اس موقع پر بھی موت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے اور ان تمام افعال واعمال سے احتراز کرنا چاہیے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہوں۔ شادی بیاہ کے موقع پر بہت سے انحراف اور نافرمانی والے کام اپنے پورے عروج پر ہوتے ہیں۔ اگر انسان اپنی موت اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے پیشی کو مدنظر رکھ کر تابعداری کی زندگی گزارنے کا عزم کر لے تو ان تمام غلط کاموں سے بچ سکتا ہے۔
3۔ اپنی بنیاد کو پہچاننا: ان آیات مبارکہ میں انسانوں کو یہ بات بھی بتلائی گئی کہ وہ ایک باپ آدم اور ایک ماں حوا سے پیدا ہوئے ہیں۔ بعدازاںـ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان قبائل اورخاندانوں میں تقسیم ہو گئے۔اس تقسیم کا مقصد ایک دوسرے کے ساتھ تعارف حاصل کرنا تھا۔ اس پہچان کو بعض لوگوں نے وجہ فخر بنا لیا ‘ اپنے خاندان اور بہتر معاشی حالت کو فوقیت کا سبب قرار دے کر دوسروں خاندانوں کو کمتر اور معاشی اعتبار سے کمزور لوگوں کو حقیر جاننے کا عمل بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا۔ اگر انسان اپنی اصل کو پہچان لے تو یہ بات سمجھ جائے گا کہ ہم سب کے باپ حضرت آدم علیہ السلام اور ماں حوا ہیں اس لیے ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ اخوت کو مدنظررکھتے ہوئے برابری کی بنیاد پر سلوک کرنا چاہیے۔ اگر یہ باتیں ملحوظ خاطر رہیں تو دلہا اور دلہن کے خاندانوں میں مسابقت کی بجائے خیر خواہی اورا خوت کا رشتہ استوار ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں شادی کے بعدوالی زندگی خوشیوں اور امن وسکون سے لبریز ہو سکتی ہے۔
4۔قولِ سدید: سچائی ایک بہت ہی اچھاوصف ہے اور سچی بات کرنے سے اللہ کی رضا اورا نسانوں میں تکریم حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ شادی بیاہ کے موقع پر سچائی سے انحراف کے راستے پر چل نکلتے ہیں جس کا نتیجہ آنے والی زندگی میں بدگمانی اور بداعتمادی ہے۔ اگر شادی بیاہ کے موقع پر اپنی حیثیت کو بڑھانے کے لیے جھوٹ بولنے کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت مدنظر رکھتے ہوئے سچائی سے کام لیاجائے تو یقینا انسان کے معاملات سنور سکتے ہیں۔ اسی حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ ان آیات مبارکہ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تمہارے معاملات کو سنوار دے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔
5۔اللہ اور رسول کی تابعداری کامیابی کی ضمانت ہے: دیکھنے میں آیا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے بہت سے لوگ دنیا داری میں کچھ اس انداز میں جذب ہوجاتی ہے کہ دین اور شریعت کو فراموش کردیتے ہیں۔ رسوم و رواج ‘بے پردگی ‘اختلاط اور اسراف کو ایک کامیاب اور خوبصورت شادی کی بنیاد بنا کر دین وشریعت کی تعلیمات سے انحراف کیا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آیات میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا جو اللہ اوررسول کی اطاعت کرے گا اُسی کو حقیقی کامیابی حاصل ہو گی۔ اگر آیات مذکورہ میں بیان کردہ اصولوں کو مدنظر رکھا جائے تو نکاح والا دن اور بعد میں آنے والی زندگی سعادت اور خوشیوں کا سبب بن سکتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت میں بیان کردہ نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر شخص کو اچھی اور خوشگوار عائلی زندگی سے بہرہ ور فرمائے۔ آمین