"AIZ" (space) message & send to 7575

دو عظیم شخصیات!

25 جنوری کو میں ضلع قصور کے علاقے الٰہ آباد میں موجود تھا کہ مجھے اس بات کی اطلاع ملی کہ ڈاکٹر راشد رندھاوا اس دنیا میں نہیں رہے۔ ڈاکٹر راشد رندھاوا کے انتقال کی خبر سنتے ہی میرے دماغ کی سکرین پر ان کی شخصیت کے حوالے سے بہت سے واقعات چلنا شروع ہو گئے۔ ڈاکٹر راشد رندھاوا پیشے کے اعتبار سے ایک مستند ڈاکٹر تھے‘ ان کے کلینک پر ہمہ وقت ذیابیطس اور دل کے مریضوں کا ہجوم رہا کرتا تھا۔یہ مریض ملک بھر سے علاج کے لیے ان کے پا س آیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر رندھاوا ہر مریض کا نہایت توجہ کے ساتھ معائنہ کیا کرتے تھے اور مرض کی تشخیص کرنے کے بعد مریض کو جہاں ادویات تجویز کرتے‘ وہیں اس کو اچھے طریقے سے دلاسا بھی دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر راشد رندھاوا کا دھیما اور اپنائیت والا لب و لہجہ مریض میں صحت یابی کی اُمید پیدا کر دیا کرتا تھا۔ کلینک پر آنے والے مریض ان کی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق سے بھی متاثر ہوکر رخصت ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنے کلینک میں ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنا رکھی تھی جہاں پر وہ نماز باجماعت کا اہتمام کرتے تھے۔ وہ نہایت اطمینان اور خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کیا کرتے تھے۔
کئی برس تک وہ مرکزِ قرآ ن وسنہ لارنس روڈ باقاعدگی سے جمعہ اور تراویح کی نماز کے لیے آتے رہے۔ مسجد کے علاوہ بھی مجھ سے گاہے گاہے رابطے میں رہا کرتے تھے۔ ان کی دلآویز اور بااخلاق شخصیت کے نقوش میرے دل و دماغ پر ثبت ہیں۔ بوریوالہ میں ہونے والے ایک جلسے میں شرکت کے لیے ہم دونوں لاہور سے ایک ہی گاڑی میں روانہ ہوئے‘ اس سفر کے دوران میں نے ان میں تقویٰ، للہیت اور اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے نہایت خوبصورت اور قابلِ قدر جذبات دیکھے۔ ان کی دین کے ساتھ والہانہ محبت یقینا قابلِ تحسین تھی۔ انہوں نے جہاں پر اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نہایت احسن انداز سے نبھایا ‘وہیں پر کراچی میں جامعہ ابی بکر اور ستیانہ بنگلہ میں ایک عظیم الشان درس گاہ کے انتظامات کا بھی نہایت ذوق اور شوق سے اہتمام کرتے رہے۔
پیر کی رات مرکزِ قرآن وسنہ لارنس روڈ پر ان کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔اس موقع پر کثیر تعداد میں علماء اور اہلِ دین تشریف لائے۔ نمازِ جنازہ ستیانہ بنگلہ سے تعلق رکھنے والے عظیم عالم دین مولانا عتیق اللہ سلفی نے پڑھائی۔ نمازِ جنازہ میں ہر آنکھ اشکبار تھی اورہر شخص یوں محسوس کر رہا تھا کہ گویا وہ عظیم اور مشفق سرپرست سے محروم ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر راشد رندھاوا کے جنازے میں لوگوں کی رقت اور ان کی ذات کے لیے عوام کی ـــمحبت کو دیکھ اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہ تھا کہ انہوں نے پوری زندگی کس طرح اہلِ دین کے ساتھ مضبوط اور مؤثر تعلقات استوار کیے رکھے اور کس حد تک وہ لوگوں کے کام آتے رہے۔ ڈاکٹر راشد رندھاوا پاکستان بیت المال کے چیئرمین بھی رہے اور اس حوالے سے بھی انہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن انجام دیا۔ عام مریضوں کے معائنے کے ساتھ ساتھ وہ مستحق اور نادار مریضوں پر خصوصی شفقت اور توجہ دیا کرتے تھے۔ بڑی تعداد میں نادار اور مستحق لوگ ان کے خدمتِ خلق سے معمور جذبات سے مستفید ہوتے رہے۔ یقینا یہ تمام کی تمام خوبیاں ان کی شخصیت کا حصہ تھیں اورمدتِ مدید تک فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔
ڈاکٹر راشد رندھاوا کے ساتھ ساتھ دوسرے عظیم انسان جو ہفتہ رواں کے دوران اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے وہ جماعت اسلامی کے سینئر رہنما حافظ سلمان بٹ ہیں۔ حافظ سلمان بٹ کے حوالے سے بھی میرے ذہن میں بہت سی خوبصورت یادیں محفوظ ہیں۔ حافظ سلمان بٹ کے والد خواجہ طفیل والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کے قریبی دوستوں میں شامل تھے اور ہفتے میں دو تین مرتبہ والد صاحب سے ملنے کے لیے تشریف لایا کرتے تھے۔ والد گرامی بھی ان کو جلسوں میں کئی مرتبہ اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ والد گرامی سے ان کی غیر معمولی وابستگی تھی۔جب وہ آپس میں ملتے تو یوں محسوس ہوتا گویا کہ چچا اور بھتیجا آپس میں ملاقات کر رہے ہیں۔ 1985ء میں حافظ سلمان بٹ انتخابی مہم کے دوران ہمارے گھر میں والد گرامی کو ملنے کے لیے تشریف لائے ‘ یہ میری ان کے ساتھ پہلی ملاقات تھی۔اس کے بعد وہ گاہے گاہے تشریف لاتے رہے اور والد گرامی کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ بھی پیار اور شفقت والا رویہ اپناتے رہے۔ حافظ سلمان بٹ خوبرو، پُرجوش اور بہادر انسان تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں حسنِ صورت کے ساتھ حسنِ سیرت سے بھی نوازا تھا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے اور بعدازاں بھی قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوتے رہے۔ حافظ سلمان بٹ کئی انتخابات میں فتح یاب ہوئے اور کئی دفعہ فتح سے ہمکنار نہ ہو سکے لیکن انہوں نے پُرجوش اور پُرعزم انداز میں اپنے سیاسی سفر کو جاری وساری رکھا۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد حافظ سلمان بٹ لاہور کے ایک ضمنی انتخابی معرکے میں اُمید وار تھے۔ اس حوالے سے وہ مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ تشریف لائے۔ مرکز میں محترم چچاعابد الٰہی اور میں نے ان کا استقبال کیا۔ حافظ سلمان بٹ شوگر کی وجہ سے ان ایام میں کمزور ہو چکے تھے اور ان کی بینائی بھی متاثر ہو چکی تھی۔ ان کی صحت میں کمزوری کی وجہ سے محترم چچا عابدالٰہی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حافظ سلمان بٹ تادیر مرکز قرآن وسنہ بیٹھے رہے اور مختلف دلچسپی کے اُمور پر ان کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوتا رہا۔ ماضی کی بہت سے خوب صورت یادوں کو بھی تازہ کیا گیا۔
حافظ سلمان بٹ کے ساتھ مجھے مختلف ٹیلی وژن پروگراموں میں بھی شرکت کرنے کا موقع ملا ۔ ان پروگراموں کے دوران بھی میں نے حافظ سلمان بٹ کو دین اور وطن سے محبت کرنے والا پایا۔ وہ ہمہ وقت دین کی حمایت میں سربکف رہا کرتے تھے اور اس حوالے سے کسی قسم کی لچک اور سمجھوتے پر آمادہ وتیار نہ ہوتے تھے۔ انہوں نے بھرپور سیاسی، سماجی اور جماعتی زندگی گزاری اور ان تمام شعبوں میں انہوں نے ہمیشہ دین ہی کو مقدم رکھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں خطابت کی بے مثال صلاحیتوں کے ساتھ نوازا تھا۔ وہ جب تقریر کرتے تو نوجوانوں میں جوش وخروش پیدا ہو جاتا اور نوجوان ان کے جذبات کو اپنے دل اور روح کی گہرائیوں میں اترتا ہوا محسوس کرتے اور ایسے لگتا کہ حافظ صاحب ان کے دلی جذبات کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے دورِ نوجوانی میں دینی حوالے سے چلنی والی تمام تحریکوں میں بحیثیت کارکن والہانہ کردار ادا کیا۔ تحریک ختم نبوتﷺ اور تحریک نظام مصطفیﷺ کے متحرک کارکن کی حیثیت سے وہ برسرپیکار رہے اور اپنے نظریات کو بلند آواز سے بیان کرتے رہے۔ حافظ سلمان بٹ صاحب کی شخصیت میں منافقت اور مصلحت پسندی نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔ لوگ انہیں نظریاتی اعتبار سے ہمیشہ یکسو اور یکطرفہ پایا کرتے تھے۔
گزشتہ کچھ برسوں سے شوگر اور بینائی میں کمزوری کی وجہ سے ان کی جماعتی سرگرمیاں کسی حد تک متاثر ہو چکی تھیں لیکن اس کے باوجود انہیں کسی اجتماع یا نشست میں نمائندگی کرنے کا موقع ملتا تو وہ پوری وجاہت اور جرأت کے ساتھ اپنے موقف کو بیان کیا کرتے تھے۔ حافظ سلمان بٹ دین کی نسبت سے مجھ سے بھی بہت زیادہ پیار اور محبت سے پیش آتے۔ ان کے انتقالِ پُرملال پر جہاں میں نے ایک عظیم مذہبی رہنما اور ایک متحرک سیاسی کارکن کی جدائی اور خلا کو محسوس کیا‘ وہیں پر ایک بڑے بھائی کی جدائی کو بھی اپنی روح کی گہرائیوں تک اترتے ہوئے محسوس کیا۔
ان عظیم شخصیات کے انتقال پر جہاں سماج میں خلا پیدا ہوا ہے وہیں پر ایک مرتبہ پھراس حقیقت کا احساس ابھر کر سامنے آیا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور ہمیں جلد یا بدیر اپنے پروردگار کے پاس پلٹ کر جانا ہو گا؛چنانچہ ہمیں اپنے پروردگار سے ملاقات کی بہترین انداز میں تیاری کرنی چاہیے تاکہ مرنے کے بعد جب ہم اس کی بارگاہ میں پیش ہوں تو اس کی رحمت اور فضل کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ڈاکٹر راشد رندھاوا اور حافظ سلمان بٹ کی حسنات کو قبول فرمائے، ان کی سیئات سے درگزر فرمائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبرِجمیل عطا فرمائے۔ آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں