ہر انسان انفرادی اور ہر معاشرہ اجتماعی حیثیت سے امن ‘ سکون اور مسرت کا طلب گار ہے۔ امن‘ سکون اور مسرت کے حصول کے لیے ہر انسان اپنے جملہ وسائل‘ توانائیوں اور صلاحیتوں کو صرف کرنے پر آمادہ وتیار رہتا ہے لیکن اس کے باوجود معاشرے میں بہت سے لوگ پریشانیوں ‘ خلفشاراور بحرانوں کا شکار رہتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے بہت سے مقامات پر کئی اقوام اور گروہ اجتماعی اعتبار سے مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ ان پریشانیوں اور مشکلات کا تجزیہ اقتصادیات‘ نفسیات اور سیاسیات کے ماہرین اپنے اپنے انداز میں کرتے رہتے ہیں۔ انسانی زندگی میں آنے والی ان تمام مشکلات اور پریشانیوں کا روحانی تجزیہ کرنا بھی ان مشکلات کے حل کے لیے انتہائی ضروری اور مفید ہے۔ جب ہم کتاب وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو پریشانیوں اور تکالیف کے چار بنیادی اسباب نظر آتے ہیں۔
1۔ نیکو کاروں کے لیے آزمائش: دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ نیکو کار افراد کو زندگی کے مختلف مراحل میں آزماتے رہتے ہیں۔ ان آزمائشوں کے دوران ثابت قدم رہنے والے اور خندہ پیشانی سے ان کا مقابلہ کرنے والے لوگوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ راضی ہو جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155 سے 157میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور البتہ ضرور ہم آزمائیں ہیں تمہیں کچھ خوف سے اور بھوک سے اور مالوں میں اور جانوں میں کمی کرکے اور پھلوں میں (کمی کرکے) اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو۔ وہ لوگ جب پہنچتی ہے انہیں کوئی مصیبت تو کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور بے شک ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ وہی لوگ ہیں(کہ) ان پر عنایات ہیں ان کے رب کی طرف سے اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں‘‘۔ ان آیات ِمبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسانوں کی زندگی میں آنے والی مشکلات کا ایک سبب آزمائشیں ہوتی ہیں اور اس پر ثابت قدم رہنے والے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحـمتوں کے حقدا ر بن جاتے ہیں۔
2۔ گناہ: انسان کی زندگی میں آنے والی مشکلات کا ایک بڑا سبب گناہ بھی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر میں 30‘ 31میں ا رشاد فرماتے ہیں: '' اور جو (بھی) تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اسی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ درگزر کر دیتا ہے بہت سی باتوں سے۔ اور نہیں ہو تم ہرگز عاجز کرنے والے (اسے) زمین میں اور نہیں تمہارا اللہ کے سوا کوئی کارساز اور نہ کوئی مددگار‘‘۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب انسان گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی زندگی میں مصائب آتے ہیں اور انسان زمین میں رہتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتا۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس کے مصائب کو دور کرنے پر صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی قدرت رکھتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں انسانوں کے گناہوں کے نتیجے میں بحر وبر کے فساد کا بھی ذکر کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 41میں ارشاد فرماتے ہیں: ''فساد ظاہر ہو گیا خشکی اور سمندر میں اس وجہ سے جو کمایا لوگوں کے ہاتھوں نے تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے اُنہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں (یعنی باز آ جائیں)‘‘۔اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی زندگی میں آنے والی ابتلاؤں کا ایک سبب اس کی بداعمالیاں ہیں ۔ ان مشکلات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف پلٹ آئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کے مختلف مقامات پر بہت سے ایسے گناہوں کا ذکر کیا جو انسان کی دنیا میں ذلت ‘رسوائی اور پشیمانی کا سبب ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
الف۔ بداعتقادی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ہود میں قوم نوح ‘ قوم عاد اور قوم ثمود پر آنے والے عذاب کا ذکر کیا۔ ان تمام اقوام پر آنے والے عذاب کی بنیادی وجہ ان کی بداعتقادی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سور ہ اعراف میں بچھڑے کو معبود بنانے والے لوگوں کی ذلت ورسوائی کا ذکرکرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 152میں ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک جن لوگوں نے (معبود) بنایا بچھڑے کو عنقریب پہنچے گا اُنہیں غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت دنیوی زندگی میں اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں بہتان باندھنے والوں کو‘‘۔
ب۔ نبی کریمﷺ کے احکامات کی مخالفت: قرآ ن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے احکامات کی مخالفت کرنے کے نتیجے میں انسان کو دنیا میں فتنے اور آخرت میں دردناک عذاب کا شدیدخطرہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 63میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں اس (رسول) کے حکم کی کہ پہنچے اُنہیں کوئی آزمائش(دنیا میں) یا پہنچے انہیں دردناک عذاب (آخرت میں) ‘‘۔
ج۔اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا ہے لیکن اس کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کے راستے پر چلتی رہتی ہے جس کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کو اس قوم سے واپس لے لیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک بستی کا ذکر کیا جس کی نعمتوں کے چھن جانے کی وجہ اس کی ناشکری تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر112 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بیان کی اللہ نے مثال ایک بستی کی (جو) تھی امن والی اور اطمینان والی۔ آتا تھا اس کے پاس اس کا رزق کھلا ہر جگہ سے تو اس نے ناشکری کی اللہ کی نعمتوں کی‘ تو چکھایا (پہنایا) اس کو اللہ نے بھوک اور خوف کا لباس اس وجہ سے جو وہ کرتے تھے‘‘۔
د۔ احکامات ِالٰہی میں سے بعض کو ماننا اور بعض کا انکار کرنا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں یہود کی ذلت ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ وہ کتاب کے بعض حصے کو مانتے اور بعض کاانکار کرتے۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب کو تیار کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 85میں ارشاد فرماتے ہیں: ''پس تم ایمان رکھتے ہو کتاب کے بعض (حصے) پر اور تم انکار کرتے ہو بعض کا‘ پس نہیں ہے سزا (اس کی) جو ایسا کرے تم میں سے مگر رسوائی دنیوی زندگی میں‘ اور قیامت کے دن وہ لوٹائے جائیں گے سخت عذاب کی طرف اور نہیں اللہ بے خبر اس سے جو تم عمل کرتے ہو‘‘۔
ز۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر سے اعراض: اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں معیشت اور گزران کی تنگی کی ایک بڑی وجہ ذکر سے اعراض کو بھی بتلایا ہے۔ جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر اور آیات کو نظر اندازکرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی معیشت کو تنگ فرما دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طہٰ کی آیت نمبر 124 سے 126میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جس نے اعراض کیا میرے ذکر سے تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہو گی اور ہم اٹھائیں گے اسے قیامت کے دن اندھا (کرکے) وہ کہے گا اے میرے رب کیوں تو نے اُٹھایا مجھے اندھا (کرکے) حالانکہ یقینا میں تھا دیکھنے والا۔ (اللہ) فرمائے گا اس طرح آئی تھیں تیرے پاس ہماری آیتیں تو توُ نے بھلا دیا اُنہیں اور اسی طرح آج تو بھی بھلا دیا جائے گا‘‘ ۔
ان تمام نافرمانی اور گناہوں والے کاموں کے نتیجے میں آنے والی مصیبتوں کو ٹالنے کے لیے انسان کو بکثرت اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آ کر توبہ استغفار کو کرنا چاہیے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سے بکثرت دعا مانگنی چاہیے اور اپنے مال کو اس کی بارگاہ میں خرچ کرنا چاہیے۔یہ تمام کام کرنے سے بھی انسان کی تکالیف اور پریشانیاں دور ہوتی ہیں۔
3۔ غیر مرئی اثرات: انسان کی زندگی میں آنے والی مشکلات کا ایک سبب غیر مرئی اثرات بھی ہوتے ہیں۔جن میں جادو ‘ نظرِ بد اور شیطانی اثرات شامل ہیں۔ ان اثرات کی وجہ سے آنے والی تکالیف کے ازالے کے لیے انسان کو اذکارِ مسنونہ کا اہتمام کرنا چاہیے۔ آیۃ الکرسی‘ سورہ فلق وسورہ ناس اور احادیث میں مذکور اذکار کرنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ ان اسباب کی وجہ سے آنے والی تکالیف کو دور فرما دیتے ہیں۔
4۔مجرموں کے لیے عذاب کا کوڑا: انسانی زندگی میں آنے والی مشکلات ‘ تکالیف اور پریشانیوں کا ایک سبب اللہ تبارک وتعالیٰ کا غصہ اور ناراضگی بھی ہوتی ہے؛ چنانچہ جس طرح مشکلات نیکوکاروں کے لیے آزمائش اور گناہ گاروں کے لیے تنبیہ بن کر آتی ہیں‘ اسی طرح مجرموں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کا کوڑا بن کر آتی ہیںاور یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والے عذاب کو ٹالنے کی انسان میں کوئی سکت‘ صلاحیت اور طاقت موجود نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سی اقوام کو ان کے مسلسل جرائم کی وجہ سے تباہ وبرباد کر دیا۔ ایسی تکالیف ‘ہولناک واقعات اور حادثات میں آنے والے لوگوں کے لیے عبرت کا ایک پہلو موجود ہوتا ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ سے عافیت کو طلب کریں اور اسی کے احکامات پر عمل پیرا ہو کر اپنی مشکلات سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تمام انسانیت کی مشکلات اور تکالیف کو دور فرما کر انہیں امن‘ اطمینان اور سکون والی زندگی عطا فرمائے۔ آمین