"AIZ" (space) message & send to 7575

ایک یادگار نشست

جامعہ پنجاب پاکستان کا ایک ممتاز تعلیمی ادارہ ہے جس سے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ استفادہ کر چکے ہیں۔ سائنس، سماجی اور انسانی علوم کے حوالے سے طلبہ کی بڑی تعداد جامعہ میں داخلہ لینے کے خواہشمند رہتی ہے۔ یہاں کے اساتذہ علم اور تجربے کے لحاظ سے نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ میری بھی عرصہ ٔ دراز سے جامعہ پنجاب سے گہری وابستگی ہے۔ میں نے جامعہ سے مختلف علوم میں کئی ڈگریوں کو مکمل کیا۔ یہاں کے اساتذہ مجھ سے خصوصی شفقت سے پیش آتے ہیں۔ جامعہ پنجاب میں گاہے گاہے ہونے والی مختلف سماجی، دینی اور سیاسی تقریبات میں بھی مجھے شرکت کی دعوت دی جاتی رہی ہے۔ جامعہ کے طلبہ ہمیشہ ان پروگراموں میں بڑی تعداد میں شرکت کرتے اور ان مواقع پر علم کے تبادلے کی بہترین انداز میں صورت نکلتی رہتی ہے۔
چند روز قبل جامعہ پنجاب کے ڈاکٹر ذیشان صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور بتلایا کہ حالیہ ایام میں ہونے والے اسرائیلی مظالم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا اس سیمینار میں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے اساتذہ کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی نمایاں شخصیات بھی شریک ہوں گی۔ ان کی خواہش تھی کہ اس پروگرام میں میَں بھی اپنی معروضات اہلِ علم کے سامنے پیش کروں اور اس حوالے سے احسن انداز میں تبادلۂ خیال ہو سکے۔ اتوار کے روز مغرب کی نماز کی ادائیگی کے بعد جب میں ڈاکٹر ذیشان کی رہائش گاہ پر پہنچا تو میں نے وہاں پر معروف اہلِ علم کو بڑی تعداد میں موجود پایا۔ یہ اہلِ علم ہر اعتبار سے اپنے شعبوں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ ڈاکٹر مجاہد منصوری معروف ماہر ابلاغیات ہیں اوراُن سے سینکڑوں کی تعداد میں طلبہ ابلاغیات کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر وقار ملک صاحب بھی پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علوم ابلاغیات کے ایک نمایاں استاد ہیں وہ بھی وہاں پر موجود تھے۔ مختلف اساتذہ اور ماہرین تعلیم کی موجودگی میں یقینا اپنی رائے کو پیش کرنا ہر اعتبار سے اعزاز کی بات تھی۔
اس موقع پر میں نے یہود کے کردار کو اُن اہل علم کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی اور اُن کے سامنے اس بات کو رکھا کہ یہود کا کردار حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد سے ہی انتہائی قابلِ مذمت رہا ہے اور یہود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ہر موقع پر ناشکری کی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن پر بادلوں کو سایہ فگن کیا، آسمان سے من وسلویٰ کا نزول کیا لیکن اس کے باوجود وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے رہے۔ ہفتے کے دن اُن کو شکار سے منع کیا گیا لیکن اس کے باوجودہ وہ ہفتے کے دن مچھلیوں کو روک لیتے اور اتوار کے دن اُن کو پکڑ لیتے تھے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات سے مختلف انداز میں روگردانی کے لیے مختلف تاویلات اور ہتھکنڈوں کو تیار کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُنہیں گائے کو ذبح کرنے کا حکم دیا لیکن وہ اس حکم سے انحراف کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہے اور انہوں نے بہ امر مجبوری اس حکم کی تعمیل کی۔ نبی کریمﷺ کی بعثت کے بعد اُنہوں نے حضرت رسول اللہﷺ کے خلاف سازشوں کے جال کو بھرپور انداز میں بُننے کی کوشش کی اور آپﷺ پر جادو کا حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ اس ناپاک کوشش کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فلق اور سورہ ناس کے نزول کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ سرکردہ یہودی رہنما نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے ناپاک مہم کو بھی چلاتے رہے اور اُنہوں نے ذاتِ اقدس کے حوالے سے گستاخانہ رویوں کو اختیار کیا جس کی وجہ سے اُنہیں شدید قسم کی عقوبت اور سزاؤں کاسامنا بھی کرنا پڑا۔ کعب ابن اشرف رسول اللہﷺ اور اہل ایمان کے خلاف مسلسل دشنام طرازی میں مصروف رہا جس کی وجہ سے محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھوں وہ جہنم واصل ہوا۔ اسی طرح ابو رافع یہودی نے بھی توہین آمیزسرگرمیوں کو جاری رکھا جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ نے عبدا للہ ابن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چند انصاری سواروں کے ہمراہ اس کی بیخ کنی کے لیے روانہ کیا ‘ اس کے قلعے میں اس کو ہلاک کرنے کے بعد عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اندازے کی غلطی کے سبب زمین کی بلندی کا درست تعین نہ کر سکے اور قلعے سے چھلانگ لگانے کے باعث آپؓ کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ جب آپ بارگاہ رسالت مآبﷺ میں حاضر ہوئے تو نبی کریمﷺ نے آپ کی پنڈلی مبارک پر اپنے دستِ اقدس کو پھیرا تو وہ اس طرح ہو گئی کہ کوئی زخم لگا ہی نہیں تھا۔خیبر کے مقام پر یہودیوں نے اپنی عسکری قوت کو مجتمع کیا تو اُن کی بیخ کنی کے لیے نبی کریمﷺ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روانہ کیا۔ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مہم میں سرفرازی سے ہمکنار ہوئے اور آپؓ نے خیبر کے سرکردہ یہودی سردار اور سپہ سالار مرحب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نبی کریم نے یہودیوں کی چیرہ دستیوں کو دیکھتے ہوئے ان کو جزیرۃ العرب سے باہر نکالنے کا حکم دیا جس کوحضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عملی جامہ پہنایا۔
یہودیوں کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلامِ حمید میں اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ اسلام کی دشمنی میں یہ سب سے بڑھ چڑھ کر سبقت لے جانے والے ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 82میں ارشاد فرماتے ہیں: ''البتہ ضرور پائیں گے آپ (دوسرے) لوگوں سے زیادہ سخت دشمنی میں ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائے ہیں یہودیوں کو اور اُن لوگوں کو جنہوں نے شرک کیا۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں یہ بات بھی واضح فرمائی ہے کہ یہودو نصاریٰ کبھی تم سے راضی نہیں ہو سکتے جب تک تم اُن کی ملت کی پیروی نہ کرو۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور ہرگز راضی نہ ہو ں گے آپ سے یہودی اور نہ ہی نصاریٰ یہاں تک کہ آپ پیروی (نہ) کریں اُن کے دین کی‘‘۔
یہود کی قرونِ اولیٰ میں کج روی کو دیکھ کر اس بات کو جانچنا کچھ مشکل نہیں کہ وہ اہلِ اسلام اور اسلام کے بارے میں کس قدر بغض وعناد رکھتے ہیں۔ اُسی بغض عناد کا اظہار فلسطینیوں کے ساتھ عصر حاضر میں کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ ہے کہ بیت المقدس کے حوالے سے کئی مرتبہ لوگوں کے ذہنوں میں تشویش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ شاید یہ مسلمان کا مقدس مقام نہیں بلکہ فقط یہودیوں کا مقدس مقام ہے۔ جب ہم کلام اللہ کو دیکھتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو سفر معراج میں بیت المقدس کی سیر بھی کروائی اور آپﷺ کو وہاں پر انبیائے کرام علیہم السلام کی امامت کا شرفِ عظیم بھی حاصل ہوا اور آپﷺ کو نبی القبلتین کا مقام بھی حاصل ہوا۔ جب ہم احادیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت اللہ اور مسجد نبویﷺ کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کی طرف بھی کجاوے کَس کے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے صحیح بخاری میں حدیث ہے : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے سفر نہ کیا جائے، ''مسجد الحرام، مسجد الاقصیٰ اور میری یہ مسجد (مسجد نبوی)‘‘۔ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بیت المقدس بھی مسلمانوں کے لیے عبار ت اور زیارت کے حوالے سے ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔
اس موقع پر دیگر ماہرین تعلیم نے بھی اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر وقار ملک نے اس موقع پر یہ بات کہی کہ اُمت کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے اُمت کا ایک مشترکہ میڈیا ہونا انتہائی ضروری ہے اور انہوں نے تاسف کا اظہار کیا کہ بین الاقوامی جرائد اور بین الاقوامی میڈیا اہلِ مغرب کے کنٹرول میں ہے اور اُمت کے مسائل کی نمائندگی کرنے کے لیے اُمت کا کوئی نمائندہ سرکاری یا نجی ٹی وی توبڑی دور کی بات ہے کوئی نمائندہ جریدہ بھی موجود نہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر مجاہد منصوری نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے مسائل کے حوالے سے اُمت کا ایک مشترکہ بیانیہ سامنے آنا چاہیے اور یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اُمت کے مسائل پر پوری دنیائے اسلام ایک ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مسئلہ فلسطین کو اجاگرکرنے کے لیے الیکٹرانک میڈیا یا اخبارات کے مقابلے پر سوشل میڈیا نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اگر سوشل میڈیا اس حد تک متحرک نہ ہوتا تو شاید مسئلہ فلسطین کو مؤثر انداز میں اجاگر نہ کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ یہود اس موقع پر جس انداز سے اپنے ظلم کا دفاع کر رہے ہیں اس کے مقابلے پر مسلم اُمت کو معذرت خواہ ہانہ وریہ اختیار کرنے کی بجائے جارحانہ طریقے سے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنا چاہیے۔ اس موقع پر ماہرین تعلیم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر مسئلہ فلسطین پر لچک کا مظاہرہ کیا گیا تو ہم مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے سے بھی قاصر ہو جائیں گے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ذیشان نے شرکائے مجلس کے لیے پُرتکلف کھانے کا بھی اہتمام کیا تھا۔ اس کھانے کے دوران بھی اُمت کے مشترکہ مسائل کے حوالے سے گفت و شنید ہوتی رہی اورکئی گھنٹوں پر محیط یہ نشست بہت سی خوشگوار یادوں کو اپنے جلو میں لیے ہوئے اختتام پذیر ہو گئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں