"AIZ" (space) message & send to 7575

نکاح‘ انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت

معروف شخصیات کے متنازع بیانات پر لوگ بہت زیادہ توجہ دیتے ان پر غوروفکر کرتے اور ان پر تبصرہ اور بحث جاری رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ملالہ یوسف زئی کے انٹرویو کے مندرجات کی وجہ سے پاکستان کے دینی اور سیاسی حلقوں میں نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ برطانیہ کے فیشن میگزین ووگ کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے نکاح کے حوالے سے جس انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا‘ جب ہم ان مندرجات پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہآزادانہ صنفی تعلقات کی تائیدکی گئی ہے۔ یہ بیان کسی بھی مہذب اور مسلم معاشرے کیلئے ہر اعتبار سے ناقابلِ قبول ہے ۔ انسانی معاشروں کی معلوم تاریخ میں ہمیشہ سے مردو زن کے درمیان قابلِ قبول تعلق نکاح ہی کا رہا ہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انہوں نے بھی اپنی زندگی میں نکاح کیے اور دیگر ہر قسم کے تعلقات کی حوصلہ شکنی کی۔ پیغمبرِ اسلام حضور نبی کریمﷺ نے خود بھی نکاح کیے اور اپنی اُمت کو نکاح کی رغبت بھی دلائی۔ نبی کریمﷺ کی اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں عبداللہؓ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم نبی کریمﷺکے زمانہ میں نوجوان تھے اور ہمیں کوئی چیز (مال و دولت) میسر نہ تھی۔ نبی کریمﷺ نے ہم سے فرمایا کہ نوجوانوں کی جماعت! تم میں جسے بھی نکاح کرنے کے لیے مالی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ یہ نظر کو نیچی رکھنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے اور جو کوئی نکاح کی بوجہ غربت طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے کیونکہ روزہ اس کی خواہشاتِ نفسانی کو توڑ دے گا۔
2۔صحیح مسلم میں حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺکے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے نبیﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ سے آپﷺ کی تنہائی کے معمولات کے بارے میں سوال کیا، پھر ان میں سے کسی نے کہا: میں عورتوں سے شادی نہیں کروں گا، کسی نے کہا: میں گوشت نہیں کھاؤں گا،اور کسی نے کہا: میں بستر پر نہیں سوؤں گا۔ (مطلب رات بھر عبادت کروں گا) جب آپﷺ کو پتا چلا تو آپﷺنے اللہ کی حمد کی، اس کی ثنا بیان کی اور فرمایا: لوگوں کا کیا حال ہے؟ انہوں نے اس اس طرح سے کہا ہے لیکن میں تو نماز پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے رغبت ہٹا لی وہ مجھ سے نہیں۔
3۔سنن ابن ماجہ میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: نکاح میری سنت اور میرا طریقہ ہے، تو جو میری سنت پہ عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے، تم لوگ شادی کرو، اس لیے کہ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر (قیامت کے دن) فخر کروں گا، اور جو صاحبِ استطاعت ہوں شادی کریں، اور جس کو شادی کی استطاعت نہ ہو‘ وہ روزے رکھے، اس لیے کہ روزہ اس کی شہوت کو کچلنے کا ذریعہ ہے ۔
4۔ جامع ترمذی اور مسند احمد میں حضرت ابوایوبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:''چار چیزیں تمام رسولوں کی سنت ہیں: حیا، (ایک روایت میں ختنے کا ذکر ہے، )عطر لگانا، مسواک کرنا اور نکاح کرنا‘‘۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات ہوتی ہے کہ نکاح کرنا نبی کریمﷺ اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے اور اس کا مقصد انسان کو بے حیائی اور برائی سے محفوظ رکھنا ہے۔ جب ہم قرآنِ مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی بدکرداری سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خصوصیت سے سورہ نور میں اس حوالے سے کئی اہم احکامات کا نزول فرمایا ہے جن میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1 ۔مردوں اور عورتوں کو نگاہوں کو جھکانے کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں مرد وں اور عورتوں کو اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرماتے ہیں: ''مومن مردوں سے کہہ دیجیے (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی‘‘۔ اسی طرح سورہ نور کی آیت نمبر31 میں ارشاد ہوا: ''اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی‘‘۔
2۔ عورتوں کو پردہ داری کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرد اور عورتوں کو جہاں پر نگاہوں کو جھکانے کا حکم دیا وہاں پر عورتوں کو علیحد ہ سے پردے داری کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت 31میں ارشاد فرماتے ہیں: '' اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے‘ اور چاہیے کہ وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر ، اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار) کو مگر اپنے خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگر) بیٹوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں کے لیے) یا اپنے بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے) یا اپنی (جیسی) عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زرخرید غلاموں کے لیے) یا تابع رہنے والوں (خدمت گار) مردوں میں سے (جو) شہوت والے نہیں (ان کے لیے) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیں واقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر اور نہ وہ مارا کریں اپنے پاؤں (زمین پر) تاکہ جانا جائے جو وہ چھپاتی ہیں اپنی زینت سے‘‘۔
3۔ مردوں اور عورتوں کو نکاح کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیر شادی مردوں اور عورتوں کو نکاح کا بھی حکم دیا ہے اور معیشت کی تنگی کی صورت میں ارشاد ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر32میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو ) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے) اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا اُنہیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ (بڑا) وسعت والاخوب جاننے والا ہے‘‘۔
4۔ پاکدامن عورتوں سے نکاح کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کی روک تھام کے لیے بدکردار مرد اور عورتوں سے نکاح کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر3 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''زانی مرد نہیں نکاح کرتا مگر زانیہ عورت سے یا کسی مشرکہ عورت سے ، اور زانیہ عورت‘ نہیں نکاح کرتا اس سے مگر کوئی زانی یا مشرک مرد اور حرام کر دیا گیا ہے یہ (کام) ایمان والوں پر‘‘۔
5۔ کسی کے گھر میں بغیر اجازت داخل نہ ہونے کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور کی آیات 27 تا 29 میں کسی کے گھر بغیر اجازت کے داخل ہونے سے منع فرمایا ہے اور اگر گھر والے پلٹنے کا کہیں تو ملاقاتی کو پلٹ جانا چاہیے۔ ہاں! اگر انسان ایسی بے آباد جگہ پر داخل ہو جہاں پر اس کا سامان موجود ہو ایسی صورت میں بغیر اجازت کے داخل ہونے پر کوئی گناہ نہیں۔
6۔ گھریلو ملازمین اور بچوں کا ممنوعہ اوقات میں بغیر اجازت کمروں میں داخل ہونے کی ممانعت : اللہ تبارک وتعالیٰ نے معاشرے میں فحاشی کی روک تھام کے لیے گھریلو خدام اور بچوں کو بھی فجر کی نماز سے قبل ،عشاء کی نماز کے بعد اور ظہر کی نماز کے بعد گھروں کے کمروں میں بغیر اجازت کے داخل ہونے سے منع کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت 58میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! چاہیے کہ اجازت طلب کریں تم سے وہ لوگ جن کے مالک بنے تمہارے دائیں ہاتھ اور وہ لوگ (بھی) جو نہ پہنچے ہوں بلوغت کو تم میں سے تین مرتبہ (یعنی تین اوقات میں) فجر کی نماز سے پہلے اوردوپہر کو اور عشاء کی نماز کے بعد (کہ یہ) تینوں پردے (خلوت) کے اوقات ہیں تمہارے لیے‘ نہیں تم پر اور نہ ان پر کوئی گناہ ان کے بعد (یعنی ان اوقات کے علاوہ) بکثرت پھرنے (یعنی آنے جانے) والے ہیں تم پر تمہارے بعض‘ بعض پر‘‘۔
7۔حدوداللہ کا نفاذ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نور میں بدکرداری کا ارتکاب کرنے والے غیر شادی شدہ افراد کے لیے کڑی سزاؤں کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ''زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد‘ پس کوڑے مارو ان دونوں میں سے ہر ایک کو سوکوڑے اور نہ پکڑے تمہیں ان دونوں سے متعلق نرمی اللہ کے دین میں اگر ہو تم ایمان لاتے اللہ اور یوم آخرت پر اور چاہیے کہ حاضر ہو سزا کے وقت مومنوں میں سے ایک گروہ‘‘۔ احادیث مبارکہ میں شادی شدہ زانی مرد اور عورت کے لیے سنگسار کی سزا کا حکم دیا گیا ہے۔
اگر مذکورہ بالا احکامات پر عمل کر لیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے برائی کی روک تھام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ کتاب وسنت پر غوروفکر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اسلام نے برائی کی روک تھام کے لیے نکاح کی اہمیت کو کس حد تک اجاگر کیا ہے؛ چنانچہ ملالہ یوسف زئی کے حالیہ بیان کے حوالے سے کسی مسلمان کے دل میں کسی قسم کا شک وشبہ پیدا نہیں ہونا چاہیے اور شادی کے علاوہ کسی بھی قسم کے تعلقات کو کسی بھی طور پر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کوپاکیزہ معاشرے میں تبدیل فرمائے، آمین !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں