معیشت کامقدمہ … (1)

ایک زمانہ تھا ‘جب دنیا کو سیاسی چالوں کے ذریعے چلایا جاتاتھا۔ یہ شطر نج جیسا پیچیدہ کھیل‘ ذہین حکمرانوں کا مشغلہ تھا ۔ جو جتناشاطر حکمران ہوتا‘ وہ اتنے دوست بناتا یا پھر دشمن پالتا تھا ۔ فوجی طاقت ہی اصل طاقت ہوتی تھی اور جو لڑنے کا حوصلہ رکھتاتھا‘ وہ جیت جاتا ‘مگر اب زمانہ بدل چکا ہے۔
کارِ سیاست‘ شطرنج کی بساط پر ہارے ہوئے گھوڑے کی مانند ہے ‘یعنی یہ فن اب فن نہیں رہا اوراپنی موت آپ مر رہاہے ۔ جنگی جنون اور مہلک ہتھیار بھی غیر اہم ہوتے جارہے ہیں ۔ اب‘ پولیٹیکل اکانومی کا زمانہ ہے۔ معاشی مفادات ہی اصل تعلقات ہیں‘ جس ملک کی معیشت تگڑی ہوتی ہے‘ وہ ہی مقدرکا سکندرٹھہرتا ہے اور جہاں بھوک ننگ کا راج ہو ‘ حکمران پلتے اور عوام بلکتے ہوں‘ تو دنیا انہیں عزت کی بھیک بھی نہیں دیتی ہے ۔ 
پاکستان کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکارنہیں‘مگر اب ہر طرف معیشت کا راج ہے اور ہماری معیشت کا حال‘ بدحال ہے۔ کوئی جائے اور وزیراعظم عمران خان کو بتائے کہ یہ وقت ‘مصائب کا نوحہ پڑھنے کا نہیں ‘ بلکہ یہ وقت منشور پر عمل کرنے کا ہے‘ یعنی کچھ کر دکھانے کا ہے ۔
جتنا نوحہ کناں ہونا تھا‘ الیکشن سے قبل ہو لیا۔ اب‘ انہیں عوام کے معاشی قتل ِعام کو روکنا ہے۔ مہنگائی کو سر عام پھانسی دینی ہے۔غریب کا سہارا بننا ہے اور متوسط طبقے کو زندہ رہنے کا حق دینا ہے ۔ کوئی جائے اور وزیر اعظم کو بتائے کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ احتساب اب ‘عام آدمی کی ترجیح میں کہاں کھڑا ہے ؟اور دووقت کی روٹی کا حصول کہاں ؟ کو ئی جائے اور وزیراعظم عمران خان کو بتائے کہ معیشت کا مقدمہ غداری ‘ کرپشن اور دہشت گردی کے مقدمات سے زیادہ گمبھیر‘ سنجیدہ اور قابل ِغور ہے ۔ 
وزیر اعظم عمران خان اس قوم کی آرزو ہیں اور اب ان پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح عوام کا ادھارچکاتے ہیں ؟جب سے پاکستان تحریک ِانصاف کی حکومت آئی ہے‘ مہنگائی اور احتساب کی چیخ وپکار پہلے سے زیادہ سننے میں آرہی ہے۔حکمران شاید بھول گئے ہیں کہ عام آدمی کو معاشی اعدادو شمار اور نعرہ بازیوں سے کوئی سروکار نہیں ‘ وہ تو بس جاننا چاہتے ہیں یہ مہنگائی کیوں ہوئی اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟یہ سچ ہے کہ مسلم لیگ (ن )کی حکومت ختم ہوئی توقومی معیشت کے میدان میں سب اچھا نہ تھا ‘لیکن سب برا بھی نہ تھا ۔ جی ڈی پی کا حجم بڑھ رہا تھا ‘ گروتھ ریٹ مسلسل اوپر جارہا تھا ‘ ٹیکس وصولیاں ماضی کی نسبت بہتر تھیں ‘ ڈالر مستحکم تھا ‘ زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے تھے اورمہنگائی کا گراف گر رہا تھا‘ جس کے باعث معیشت کے سماجی اثرات نمایاں تھے ؛البتہ مسلم لیگ ( ن)کی حکومت کو تین محاذوں پر چیلنجز کا سامنا رہا تھا ؛میاں نواز شریف نے اپنے دور ِ اقتدار میں پانچ سال میں 35 ارب ڈالر کے قرضے لیے‘ جس سے پہلے سے کمزور معیشت پر اور بوجھ بڑھ گیا ۔ برآمدات پر کوئی خاص توجہ نہ دی گئی‘ جس کی وجہ سے سالانہ دو ارب ڈالر کا گھاٹا ملکی معیشت کے حصے میں آیا‘ جبکہ درآمدات کی کھلی چھٹی دینے سے تجارتی خسارہ19 ارب ڈالر تک جاپہنچا‘جو ہماری اکانومی کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا ۔ 
پاکستان تحریک ِانصا ف کی حکومت آئی تو غریب پروری کا نعرہ سب سے بلند اورعام آدمی کی زندگی بدلنے کا جذبہ سب سے اوپر تھا‘مگر تاحال ایسا نہیں ہو سکا اور بقول ناقدین ناتجربہ کاری آڑے آگئی ۔ کاش! ہمارے وزیر اعظم ‘ روس کے سابق صدر بورس یلسن کا فلسفہ ذہن نشین کر لیتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے ۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو بچے کھچے روس کی معیشت تباہ ہو چکی تھی ۔روسی صدر بورس نے اجلاس بلایا اوراپنے وزیروں سے کہا: ''جنگ اور معیشت کے اصول ایک جیسے ہوتے ہیں ‘ ہر محاذ پر ایک ساتھ لڑا نہیں جاتا ‘ ترجیحات طے کرنا پڑتی ہیں ۔ گوربا چوف کی غلط پالیسیوں اور ترجیحات کے باعث جنگ ہم ہار چکے ۔اب‘ معیشت کوبہتر کرنا ہے ‘‘ ۔ 
وہ دن اور آج کا دن‘ روس نے پیچھے مڑ کرنہیں دیکھا ۔اب‘ اس کی معیشت کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے ۔ کاش! پاکستان تحریک ِانصاف کی حکومت بننے کے بعد ہمارے وزیر اعظم بھی اپنی ترجیحات طے کر لیتے؛ اچھے کو برا اور برے کو بدتر جان کرشخصیات‘ اداروں اور صنعتوں پرایک ساتھ دھاوا نہ بولا جاتا اورصرف اور صرف معیشت کی بہتری کو ہدف بنالیا جاتا ۔
سوال ابھی تک وہیں کھڑا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے کون سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں‘ جن کے باعث ہماری معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی اور مہنگائی عام آدمی کی دہلیز پر آن کھڑی ہے ۔ 
(1) حکومت کی سب سے بڑی غلطی اس کی معیشت سے نابلد ٹیم تھی ‘ اسد عمر سمیت کوئی بھی وزارت خزانہ چلانے کا اہل تھا‘ نہ تجربہ رکھتا تھا ۔ سو‘ ہوا میں تیر چلائے گئے جو نشانے پر نہ لگے اور یوں مانگے تانگے کے ذہنوں کا سہارا لینا پڑا۔ 
(2) محتر م وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے ‘ درآمدات کو کم کیا جائے ۔ حکومت نے بغیر کسی بیک اپ پالیسی کے بہت سے شعبوں میں درآمدات پر پابندی لگا دی یا کسٹم ڈیوٹی اتنی بڑھا دی کہ کوئیٖ ضروری چیز بھی باہر سے نہ آسکے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امپورٹ کے سارے کاروبار مندے میں جانے کے بعد بند ہوگئے ‘ جس سے ہزاروں لوگ بے روزگارہوئے اور پاکستانی مصنوعات مہنگی۔ 
(3) ہمیشہ دیر کر دیتاہوں میں کے مصداق ‘ حکومت نے آئی ایم ایف جانے میں بھی یہی پالیسی اپنائی‘ جب معاہدہ بہتر شرائط پر ہو سکتا تھا۔ اس وقت حکومت لیت ولعل سے کام لیتی رہی اور جب سٹیٹ بینک کے ذخائر خطر ناک حدتک کم ہوگئے تو حکومت نے آئی ایم ایف کا سارا جبر مان لیا ‘ جس کی قیمت عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں بھگتنا پڑی ۔ 
(4) بجلی ‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا ‘جس سے صنعتوں کی پیداواری لاگت دُگنی ہوگئی اور ملک بھر میں مہنگائی کا سیلاب آگیا ۔ 
(5) جس ملک میں گندم ‘ آٹا اور چینی جیسی اشیا کی ذخیرہ اندوزی ہوتی ہو ‘ ناگہانی آفات پر دوائیاں اور ماسک مارکیٹ سے غائب ہو جاتے ہوں وہاں ڈالر کو مکمل طورپر مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑناایک فا ش غلطی ثابت ہوئی‘ ڈالر مارکیٹ سے لوگوں کی تجوریوں میں جانے کے بعد 160 سے تجاوز کر گیا ۔ روپے کی 35 فیصد بے قدری سے افراط زر بڑھ گیا اور مہنگائی گھر گھر کا روگ بن گئی ۔
(6) حکومت نے افراط زر کو کنٹرول کرنے اور ہاٹ منی کے لیے بینکوں کا شرح سود چھ فیصد سے بتدریج بڑھا کر 13.25 فیصد کردیا‘جس کا ملکی معیشت پر الٹا اثر ہوا‘ چلتے کاروبار بند ہونے لگے اور عوام بے روزگار۔
(7) حکومت اپنے پہلے مالیاتی سال میں مطلوبہ ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام رہی ‘ جس سے مالیاتی خسارہ بڑھ گیا ۔حکومت نے خرچے پورے کرنے کے لیے عوام پر ان ڈائریکٹ ٹیکسز کی بھرمار کر دی اور پھر مہنگائی آپے سے باہر ہو گئی ۔
(8) حکومت باپ کا کردار ادا کرنے میں بھی ناکام رہی ‘ اپوزیشن اور کاروباری طبقے کو حقیر جاناگیاتو بداعتمادی کی فضا مزید بڑھ گئی اور پورے ماحول کو آلودہ کرگئی‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کے ہاتھوں سے معیشت اور گورننس دونوں پھسل گئیں۔ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں