جنابِ وزیراعظم ! نظر کرم اِدھر بھی

ان دنوں کرہ ٔارض پر پھیلے ہوئے ہر ملک میں صبح کا سورج آنسوؤں ‘ آہوں اور سسکیوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے ‘ ہر شام ماتم اور آہ و زاری کی صداؤں میں ڈھلتی ہے اور ہر رات کی دھڑکن اداسیوں کا سندیسہ لاتی ہے ۔ دنیا مکمل طورپر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔ تمام اقوام کو دو محاذوں پر جنگوں کا سامناہے ‘ ایک کورونا وائرس اور دوسرا معیشت۔ پاکستان کو بھی یہ دونوں چیلنجز درپیش ہیں ‘ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے مگرکیا کریں ہمارے وزیراعظم عالمِ تذبذب میں ہیں ۔ 
تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے 
شب کی رگ رگ سے لہوپھوٹ رہا ہو جیسے 
چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی 
دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے 
حکومت کا سب سے بڑا بھرم بیرون ملک مقیم پاکستانی ہیں ۔ وزیراعظم کو یقین ہے کہ مشکل کی ہر گھڑی میں وہ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں‘ مگر اب صورتحال یکسر بدل رہی ہے ۔ اوورسیز پاکستانیوں کے پاؤں تلے سے زمین کھسکنے لگی ہے ‘ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم ان بدلتے حالات کا ادراک کب کرتے ہیں اور مقابلہ کیسے ؟ 
کورونا وائرس نے جہاں پوری دنیا میں سولہ لاکھ سے زائد انسانوں کو مرض میں مبتلا کیا ہے وہیں کروڑوں لوگوں میں خوف ‘ بے یقینی اور نفرت کے جذبات بھی ابھارے ہیں ۔یوں لگتا ہے گلوبل ویلیج کا سفر تمام ہوا چاہتا ہے 'کیونکہ دنیاکا ہر ملک اپنی سرحدوں میں سمٹ رہا ہے ۔ سب سے پہلے اپنا ملک اور اپنے لوگ کا نعرہ کورونا وائر س سے بھی تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ اس جان لیوا وائرس نے دنیابھر کی تنظیموں کو بے جان کر دیا ہے ‘ یورپی یونین ہویا او آئی سی ‘ سارک ہو یا جی 8 کوئی بھی تنظیم فعال ہے نہ کارگر ۔ اٹلی اور سپین کو گلہ ہے کہ کوئی بھی یورپی ملک ان کی امداد کو نہیں آیا ‘ اٹلی نے جرمنی سے وینٹی لیٹرز مانگے تو جرمنی میں ہنگامہ کھڑا ہو گیا‘ لوگ سراپا احتجاج تھے کہ ان وینٹی لیٹرز پر پہلا حق ہمارا ہے ‘اگر ضرورت پڑی تو ہم کہاں جائیں گے؟ سپین نے فرانس کو مدد کے لیے پکارا تو اُدھر سے بھی کوئی مثبت جواب نہ ملا ۔ اب ہر یورپی باشندہ یہ سوچ رہا ہے کہ انگلینڈ نے بریگزٹ کر کے بہت اچھا کیا‘ ایسی تنظیم کا کیا فائدہ جو مصیبت زدہ ملک کوکندھا بھی نہ دے سکے ۔ 
بات یہیں تک رہتی تو ہمیں کیا پریشانی تھی‘ مگربات اب اس سے کہیں آگے جا رہی ہے۔ مغربی ممالک کی قوم پرست اور دائیں بازو کی جماعتیں ہمیشہ سے امیگریشن پالیسیوں اور کام کی غرض سے آئے غیرملکیوں کی حوصلہ شکنی کرتی رہی ہیں‘ مگر ان کی چیخ وپکار کوکبھی قبولیت نصیب نہیں ہوئی‘ لیکن اب یوں لگتا ہے کہ وقت نے کروٹ لے لی ہے اور انہیں بھی ہم نوا میسر آ گئے ہیں۔ کورونا وائرس کے بعد ہرملک کی اکانومی زوال پذیرہے ‘ اسی وجہ سے جرمنی سے صدائیں بلند ہو رہی ہیں کہ ایک ملین سے زائد تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے اور کام کاج کرنے آئے غیر ملکی باشندوں کو گھر وں کا راستہ دکھایا جائے۔ فرانس‘ نیدرلینڈز‘ناروے اوریونان سمیت ہر یورپی ملک میں ایسا ہی ماحول بنتاجا رہا ہے جو کسی طو ربھی ترقی پذیر ممالک کے لیے سودمند نہیں ہے ۔ 
گزشتہ ہفتے آسٹریلیا کے وزیراعظم نے غیر ملکی سٹوڈنٹس سے کہا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کولوٹ جائیں ‘ آسٹریلیا کی معیشت ان کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتی ۔ ٹرمپ کے دیس میں بھی ہر گزرتے دن کورونا وائرس کے ساتھ نسلی اورلسانی خلیج بھی بڑھ رہی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ امریکی صدر خود ہیں ۔ وہ مسلسل قومیت کے غبارے میں ہوابھرتے رہتے ہیں ‘ جس کے باعث ا مریکہ میں پوسٹ نائن الیون کی طرح غیرامریکیوں کے لیے زندگی مشکل اورغیر محفوظ ہوتی جارہی ہے ۔ برطانیہ‘ سپین اور اٹلی اس وقت کورونا وائرس کے بدترین حملوں کا شکار ہیں ‘ وہاں نسلی تعصب کی آگ ابھی بھڑکی نہیں ‘ ہوسکتا ہے جیسے ہی حالات انگڑائی لیں اوروہاں بھی نفرتوں کی وبا پھوٹ پڑے ۔سعودی عرب پہلے ہی معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پرہے ‘محمد بن سلمان سال پہلے ہی اعلان کرچکے ہیں کہ سعودی باشندے اپنا طرزِ زندگی بدلیں ‘ وہ تعلیم حاصل کریں ‘ ہنر سیکھیں اور پرائیویٹ سیکٹر میں آکر کام کریں تاکہ غیر ملکیوں پر انحصار کم سے کم ہوتا چلاجائے ۔ ایک اندازے کے مطابق محمد بن سلمان کے دور میں دو ملین سے زائدافرادسعودی عرب کو خیر باد کہہ چکے ہیں‘ جو سعودیہ میں موجود غیرملکیوں کا 20 فیصد بنتے ہیں‘ جس میں پاکستانی بھی شامل ہیں ۔ مڈل ایسٹ سے تعلق رکھنے والے مبصرین کا ماننا ہے کہ کورونا وائرس کا طوفان تھمے گا تو غیرملکیوں کی بڑی تعداد سعودی معیشت کا حصہ نہیں ہوگی ۔ 
اس ساری تمہید سے یہ بتانا مقصودہے کہ صورتحال وزیراعظم سے کرکٹ کی طرح آل راؤنڈر پرفارمنس کا تقاضا کررہی ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف جہاد جاری رکھیں اور معیشت کا میدان بھی خالی مت چھوڑیں ۔بیرون ملک پاکستانی ہماری اکانومی کے ماتھے کا جھومر ہیں‘ انہیں بے روزگاری کا زخم نہیں آنا چاہیے ۔اوورسیز منسٹری کے مطابق تقریباً90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک کام کرتے ہیں ‘ جو سالانہ 21ارب ڈالر سے زائد اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ یہ ترسیلاتِ زر ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ برآمدات سے جو ڈالر آتے ہیں وہ درآمدات کھا جاتی ہیں اور حکومتیں باقی ماندہ خسارہ انہی ترسیلاتِ زر سے پورا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 
کورونا وائرس جیسی قاتل وبا نے زندگی کا پہیہ روک رکھا ہے اور آدھی دنیا گھروں میں قید ہو کر رہ گئی ہے ۔ جن ممالک میں لاک ڈاؤن ہے وہاںبے روزگاری عام ہورہی ہے‘ جس کا شکار ہمارے پاکستانی بھائی بھی ہیں ۔ یو اے ای نے صرف ایک مہینے میں دس ہزار پاکستانیوں کو نوکریوں سے نکال دیا ہے ‘جو ہمارے لیے بہت تشویشناک بات ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بیرون ملک 80 فیصد پاکستانی نوکری پیشہ ہیں جو اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں‘ وہ پاکستان ڈالر کیا بھیجیں گے ؟دوسری جب سےCarry Tradersنے اپنا سرمایہ پاکستان سے نکالنا شروع کیا ہے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی ناقدری رکنے کا نام نہیں لے رہی ‘ اب حکومت کو ترسیلاتِ زر میں بھی کمی کا سامنا ہے جو ہماری معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ حکومت شاید ایک یا دو ماہ تو گراوٹ برداشت کرلے ‘مگر اس سے زیادہ نہیں ۔ خدا نہ کرے اگر یہ سلسلہ طوالت اختیارکر گیا تو خدشہ ہے کہ ڈالر دو سو سے بھی بڑھ سکتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائرخطرناک حد تک گر سکتے ہیں جو کسی صورت ہمارے وارے میں نہیں ہو گا ۔اس سے ملک بھر میں مہنگائی کا سیلاب آجائے گا اور حکومت کو ساکھ بچانا مشکل ہو جائے گی ۔ 
اب وقت آگیا ہے کہ وزیراعظم اوورسیز پاکستانیوں کا بازو بنیں اور دنیا بھر میں لگی نفرت کی آگ کو بجھانے میں اپنا کردار اداکریں۔ یہ سفارتی محاذ انہیں خود سنبھالنا ہے ورنہ کام نہیں بنے گا ۔حکومت وقت ایک لمحے کے لیے سوچے اگر 25فیصد پاکستانی بھی تعصب کی بھینٹ چڑھ کر یا عالمی معیشت کی بدحالی کا شکار ہوکروطن واپس آگئے تو ہماری پہلے سے خراب معیشت پاتال میں جا پڑے گی ‘ کیا ہم اس کے متحمل ہو سکیں گے؟ وزیراعظم عمران خان ارادہ باندھیں‘بیرون ملک پاکستانی ان کی راہ تک رہے ہیں۔مجھے یقین ہے صوفی تبسم کا یہ شعر وزیراعظم کا حوصلہ ضروربڑھائے گا۔ 
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں