کرفیو کیوں ناگزیر ہے؟

بھارتی ریاست ہریانہ کے ڈاکٹر ویرم سنگھ نے مودی سرکار کے نام ایک کھلے خط میں لکھا ہے کہ ''ہمارا وزیر اعظم بھی عجیب شخص ہے‘ حکمت و دانائی اور معاملہ فہمی تواس کے پاس سے نہیں گزری ‘لوگ مر رہے ہیں اورسرکار اپنی ضد کی بانسری بجائے جارہی ہے ۔ معیشت اور لاک ڈاؤن اہل سیاست کا مسئلہ ہے ‘ اگر وہ ترجیہات طے نہیں کرسکتے تو ہمیں موت سے لڑنے کیلئے تنہاکیوں چھوڑدیاہے‘‘۔ یہ داستان تصویر کا ایک رخ ہے‘ جبکہ دوسرارخ اٹلی کے ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشن (ANMDO) نے پیش کیا ہے کہ ''کووڈ 19کے خلاف جنگ میں ہمارے 30 ہزارہیلتھ ورکرز متاثر ہوئے ہیں‘جبکہ 36 نرسز اور 165 ڈاکٹرز اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس نا قابلِ تلافی نقصان کے باوجود ہم اپنے وزیراعظم کے فیصلوں کو سراہتے ہیں‘کیونکہ انہوں نے سارے کرائسز میں ڈاکٹرز کی ہدایات کومقدم رکھا۔ ان کے بروقت اور غیرمتزلزل اقدامات نے اٹلی کو موت کے منہ سے نکال لیا ہے ‘‘۔ یہ دو ملکوں اور دو وزیراعظموں کی الگ الگ کہانیاں ہیں۔ اب‘ فیصلہ ہمارے حکمرانوں نے کرنا ہے کہ وہ کس وزیراعظم کے نقش قدم پر چلتے ہیں ۔
پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کورونا کا طوفان شدت اختیار کر رہا ہے ۔ حکومت سوچ کے دریچے کھولے ‘ شایدامید کی کوئی کرن دکھائی دے ‘جو قاتل وبا کا راستہ روک سکے۔ حکومت جان لے ! شام ہونے والی ہے‘ اب بھی وقت کا دامن نہ تھاما تو سورج غروب ہونے میں دیر کتنی لگتی ہے؟ ہم نے میر تقی میرؔ سے سناتھا کہ جان ہے تو جہان ہے پیارے ‘ مگر ہماری حکومت کا ماننا ہے کہ جہان ہے تو جان ہے پیارے ۔ حکومتی انکار کے بعدیوں لگتا ہے کہ سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ہے انہیں جان چاہیے یا جہان؟ مگر پھر خیال آتا ہے کہ عوام فیصلہ کرنے کے قابل ہوتے تو کورونا وائرس کے بعد حکومت کی چار سو پھیلائی کنفیوژن کا شکار نہ ہوتے ۔جب حکومت اپنی ذمہ داریو ں کا بوجھ کوڑے دان میں پھینک چکی تھی تو عوام اپنا خیال خود رکھ لیتے۔ کاش !ایسا ہوتا توآج وفاقی حکومت جولائی کے آخر تک بارہ لاکھ کیسز ہونے کا اعلان نہ کرتی ۔ کاش! عوام عید پر نیا جوڑا نہ پہنتی تو آج بہت سے پاکستانیوں کو کفن پہننا نہ پڑتا ۔ اب‘ کورونا وائرس گلی گلی رقصاں ہے اور عوام کو عقل دینے کا وقت گزر چکا ۔حکومت آگے بڑھے اور جو حلف عوام کی جان بچانے کے لیے اٹھایا تھا ‘اس کو پورا کرے ‘ ورنہ بہت دیر ہو جائے گی ۔
حکومت دل پر ہاتھ رکھے اور بتائے ‘آج پاکستان میں ایک لاکھ ایکٹو کیسز بھی نہیں اور ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہو رہی ہے ‘ وہ آئندہ ماہ دس لاکھ مریضوں کا بوجھ کیسے اٹھائیں گے ؟ اتنے لوگوں کے علاج کیلئے ڈاکٹرز اور نرسزکہا ں سے آئیں گے ؟ اور پھر جب کورونا اپنے عروج ہوگا تو کون سے شہر میں کاروبار ہوسکے گا ؟گزشتہ دس دنوں سے پاکستان میں اموات کا تناسب دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے ‘ کیا اس کے بعد بھی ہماری حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ پوری فضا میں زہر مل چکا ہے اور اب‘ اس کا علاج صرف قید تنہائی ہے ؟ حکومت کو اگر ادراک نہیں ہورہاتو امپیریل کالج آف لندن کی تحقیق پڑھیے‘ ساری گرہیں خود بخودکھل جائیں گی۔ برطانوی ریسرچرز کا ماننا ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس شدت پکڑنے والا ہے‘ اگر سخت لاک ڈاؤن نہ کیا گیا تو جنوری تک 22 لاکھ پاکستانی زندگی کی بازی ہار جائیں گے اور اگر لاک ڈاؤن موثر ہوا تو یہ تعداد دس ہزار تک محدود رہے گی ۔امپیریل کالج کی بات ‘اگر نہیں ماننی تو نہ سہی‘ حکومت WHO اور ہانگ کانگ کے سٹڈی گروپ کا نوحہ ہی سن لے تو پھر بھی سمارٹ لاک ڈاؤن کا جواز ختم ہو جاتا ہے ۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ پاکستان باقی دنیا کے تجربات سے کیوں نہیں سیکھ رہا اور خود تجربہ کرنے موت کی بے رحم بھٹی میں کیوں کود پڑا ہے ۔نیوزی لینڈکی وزیراعظم کے مطابق لاک ڈاؤن جتنا جلدی لگتا ہے ‘اتنا نقصان کم ہوتا ہے اور لاک ڈاؤن جتنا سخت ہوتا ہے‘ اتنا مختصر ہوتا ہے ۔نیوزی لینڈ نے ڈیڑھ ماہ سخت لاک ڈاؤن کیا اور وبا پر قابو پالیا ۔ چین‘ اٹلی اور فرانس نے بھی دو ماہ کے سخت لاک ڈاؤن کے بعد کورونا وائرس کو مات دی ہے ۔ جرمنی ‘ سپین ‘ یونان‘ جنوبی کوریا‘ویتنام ‘ بیلجیم اور ڈنمارک نے بھی سخت لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی اور کامیاب رہے ۔ اب‘ ان ممالک میں زندگی کا پہیہ پھر سے چل پڑا ہے ‘جس سے دم توڑتی معیشت کی سانسیں بحال ہو رہی ہیں ۔امپیریل کالج کی ہی ایک اور ریسرچ کے مطابق ‘ لاک ڈاؤن مشکل ضرور ہوتا ہے‘ مگر یہ دقت وقتی ہوتی ہے۔ سخت لاک ڈاؤن کے باعث یورپ سمیت دنیا بھر میں کووڈ19 کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد ملی۔ 
برصغیر کے لوگوں کا مزاج شروع سے ہی حکومت مخالف رہا ہے اور خیالات میں توازن نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہی نقصان اٹھاتے رہے ہیں ۔ 1918ء کے سپینش فلو کے دوران بھی اس خطے میں اموات اس لیے باقی دنیا سے زیادہ ہوئی تھیں‘ اب بھی انڈیا پاکستان کے لوگوں کا یہی رویہ ہے ‘ وہ وبا کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور دن رات موت کو دعوت دے رہے ہیں ۔ دنیا بھر میں کون سی حکومت ہے ‘جو ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کی بات کو نظر انداز کرتی ہو؟ وباؤں کے موسم میں ایکسپرٹس ہی حرف آخر ہوتے ہیں ‘ مگر اس بات کوسمجھنے کیلئے سیاسی مفادات سے بالاتر ہونا پڑتا ہے۔پاکستان میں اس وقت کیسز کا تناسب بیس سے پچیس فیصد ہے‘ جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔
حکومت کو اگر نیک نامی پسند ہے تو خداراپاکستان کے حالات پر رحم کریں ‘ پورا ملک بند نہیں کرنا تو نہ کریں‘ مگر لاہور ‘ کراچی اور اسلام آباد میں کرفیو ناگزیر ہے۔ دو ہفتوں کیلئے تینوں شہروں میں کرفیو لگا کر ہی کورونا سے اموات کو روکا جا سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں