خون میں لپٹی کہانیاں

سردیوں کی ٹھٹھرتی صبح میں ریحان کا بدن آگ برسا رہاتھا اور آنکھیں خونی آنسوؤں سے تر تھیں۔ اس کے ہاتھوں میں چھوٹے بھائی کی لاش تھی جسے پولیس مقابلے میں بے دردی سے مار دیا گیا تھا۔ یہ قصہ زیادہ پرانا نہیں۔ اسی سال جنوری کا مہینہ تھا، سارا علاقہ برف کی سفید چادر اوڑھے تھا مگر ریحان کے گھر کا آنگن لہو لہان تھا۔ ماں نے جواں سال بیٹے کی لاش دیکھی تو غش کھا کراسی پر گر پڑی اور پھر دوبارہ نہ اٹھی۔ اب ریحان کا غصہ بے بسی اور لاچارگی کی زنجیریں توڑ کر آپے سے باہر ہو چکا تھا۔ وہ چیختا چلاتا تھانے کی طرف دوڑا، ایک پولیس والے کو زخمی کیا اوردو ماہ کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا۔ شومئی قسمت! بھائی کا جنازہ نصیب ہوا نہ ماں کا۔ جس سیل میں اسے رکھا گیا وہاں چار لوگ پہلے سے قید تھے۔ ریحان دن رات انہیں اپنے دکھ کی نئی نئی گرہیں کھول کرد کھاتا اور ہمدردیاں وصول کرتا۔ ایک ہفتہ ایسے ہی گزرا پھر سب نے اپنی اپنی کتھا سنانا شروع کی۔ ریحان جیسا حساس اور جذباتی نوجوان ا یک کے بعد ایک غم آلود کہانی سن کر اپنا کرب بھول بیٹھا۔ یہاں شہزاد احمد کا شعر بہت بے چین کر رہا ہے ؎ 
فیصلہ کیسے ہو کس نے دکھ اٹھائے ہیں بہت 
زندگی آفت ہے اس میں مبتلا کوئی بھی ہو 
یہ سرینگر کی مرکزی جیل تھی اوراس عقوبت خانے کے سارے مقیم پانچ ماہ پہلے تک امن پسند شہری تھے۔ سب سے پہلے ریحان کے ساتھ قید عمررسیدہ ساتھی نے اپنی آنسوؤں اور آہوں میں لپٹی داستان سنائی۔ '' یہ سانحہ 5اگست 2019ء سے چند روز بعد پیش آیا۔ بڑی عید کا دوسر ا دن تھا ہم لوگ اپنے گھر کے باہر قربانی کرنے میں مصروف تھے کہ جیپ میں سوار پانچ بھارتی فوجیوں نے ہم پر دھاوا بول دیا۔ مجھے اور میرے والد کو بچوں کے سامنے خوب تشدد کا نشانہ بنا یا۔ میرے بارہ سالہ بیٹے نے باپ او ر دادا کو پٹتے دیکھ کر چھری اٹھا لی اورقریب کھڑے ایک فوجی کی جانب بڑھا۔ دوسرے نامراد فوجی نے تیزی سے میرے بیٹے کے سر پر بندوق ماری اور وہ معصوم اوندھے منہ زمین پرگر گیا۔ باقی فوجی بھی آگے بڑھے اور اسے بے رحمی سے ٹھوکریں مارنے لگے۔ جس کی وجہ سے اس کی تین پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ کرفیو کی خلاف ورزی کے جرم میں فوجی مجھے پکڑ کر لے آئے اور میں آج بھی جیل میں ہوں مگر میری کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ میراجیل آنا تو میرے خاندان کی بربادی کاا ٓغاز تھا۔ میرا بوڑھا باپ اپنے پوتے کے علاج کے لیے کوششیں کرتا رہا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ میرے بیٹے نے وہ دن بہت ذہنی اور جسمانی تکلیف میں گزارے اور پھر ایک دن وہ ہمت ہار گیا۔ میرے لختِ جگر کے نفسیاتی مسائل اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ اس نے خود کشی کر لی اور میں وہ بد بخت باپ ہوں جو اپنے بیٹے کو آخری بار دیکھ بھی نہ سکا ‘‘۔ اس کے بعد ریحان کا ساتھی دھاڑیں مار کر رونے لگا اور ریحان خود بھی۔ 
اگلے دن ریحان کے دوسرے ساتھی نے رودادِ غم سنائی، جو ریحان کے اندر کہرام مچانے کے لیے کافی تھی۔ ''کرفیو لگے دو ماہ گزر چکے تھے، ہمارے گھر کھانے پینے کی اشیا کی قلت تھی جس کی وجہ سے میری والدہ اپنی خوراک کو کنٹرول کرنے سے قاصر تھیں۔ شوگر کی مریضہ کے لیے یہ صورت حال کتنی تکلیف دہ ہوگی‘ یہ وہی جان سکتا ہے جو اسی موذی مرض میں مبتلا ہو۔ میری ماں کی شوگر روز بروز بڑھ رہی تھی۔ ایک دن ان کی حالت غیر ہوئی تو میں انہیں ہسپتال لے جانے کے لیے گھر سے نکلا اورآج تک واپس نہ جاسکا‘‘۔ یہاں پہنچ کر ریحان کے ساتھی نے تھوڑا وقفہ لیا اور پھر بولا:راستے میں میری والدہ کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی، مجھے جتنی جلدی ہسپتال پہنچنے کی تھی اتنی ہی دیر ہوگئی۔ ہمیں کالج چوک کے قریب آٹھ دس بھارتی فوجیوں نے گھیر لیا۔ میں نے سکوٹر دوڑایا تا کہ وقت برباد نہ ہو مگر فوجی ضد میں آگئے اور انہوں نے اپنا ٹر ک میرے اوپر چڑھا دیا۔ میں بچ گیا مگر والدہ کا سر زمین پر لگا اور وہ وہیں وفات پا گئیں۔ میری والدہ سٹرک کنارے لہو سے لت پت پڑی تھیں اور فوجی مجھے ٹرک میں ڈال کرلے جارہے تھے ‘‘۔ ریحان کو ساتھ ہی اپنی والدہ یاد آگئی اور اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کی والدہ کی موت اتنی اذیت ناک نہ تھی۔ 
دو دن بعد ریحان کے تیسرے ساتھی نے ہمت کی اور آپ بیتی بیان کی ''ملک بھر میں مودی سرکار کے کالے قانون کے خلاف احتجاج کی تیاریاں ہو رہیں تھیں‘میں اور میرا سارا خاندان اس مہم میں آگے آگے تھا۔ میری ماں اور بہنیں عورتوں کا جلوس نکالنے کے لیے خاموشی سے کام کر رہی تھیں۔ جیسے جیسے احتجاج کا دن قریب آرہا تھا ان کی مصروفیت بھی بڑھ رہی تھی۔ احتجاج سے ٹھیک ایک روزقبل بھارتی فوجی مقامی پولیس کے ساتھ ہمارے گھر آئے اور میری بہنوں کی بے حرمتی کرنے لگے۔ میں نے انہیں روکا توفوجیوں نے ہم پر بہت تشدد کیا اور مجھے میری بہنوں سمیت اٹھا کر لے گئے۔ گزرے دو ماہ سے میں اس کوٹھڑی میں قید ہوں اورمجھے نہیں معلوم میری بہنوں کے ساتھ کیا ہوا اور اب وہ کہاں ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میری تشویش آسیب کی طرح پر پھیلا رہی ہے۔ نہیں معلوم! میں اب کیا کروں مجھ سے یہ دکھوں کی گٹھڑی نہیں اٹھائی جارہی ‘‘۔ ریحان جیسے جیسے یہ کہانیاں سن رہا تھا اسے اپنا غم کم ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ 
پھر وہ دن بھی آیا جب چوتھے ساتھی نے اپنا درد ناک قصہ سنایا۔ '' میری شادی 20 اگست 2019 کو ہونا طے پائی تھی‘ میرے والد امام مسجد تھے اور بڑے اصول پسند انسان تھے۔ انہوں نے کرفیو کو ماننے سے انکار کردیا۔ فوجی مسجد کو تالے لگا کر جاتے اور وہ توڑ کر نماز پڑھنا شروع کر دیتے۔ کچھ دن یوں ہی چلتا رہا اور آخرمیری شادی کی تاریخ آگئی۔ والد صاحب نے کہا: نکاح مسجد میں ہو گا ‘میں نے بہت منع کیا مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ تالا توڑا اور مسجد کے اندر چلے گئے۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے تھے کہ فوجیوں سے بھری جیپ آگئی۔ انہوں نے والد صاحب کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا، وہ پھر بھی مسجد سے باہر نہ آئے تو فوجیوں نے انہیں گولی مار کر شہید کر دیا۔ شادی کے دن اپنے والد کی موت کو آنکھوں سے دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے میرا اور سانسوں کا تعلق ختم ہو چکا ہو۔ میں نے اس دن اپنے والد کو نہیں اپنے آپ کو مرتے دیکھا۔ میں اسی وقت بے ہوش ہو گیا اور جب آنکھ کھلی تو جیل میں تھا۔ شادی ہو سکی نہ والد کا جنازہ پڑھا۔ بظاہر میرا جسم یہاں موجو د ہے مگر میر ی روح میرے اندر ہی کہیں دفن ہوچکی ہے۔ میں سانسیں لے رہا ہوں مگر یقین کریں میں زندہ نہیں ہوں ‘‘۔ غم کی شدت اتنی تھی کہ ریحان کا ساتھی چاہتے ہوئے بھی رو نہیں پا رہا تھا مگر ریحان کی آنکھوں میں آئے سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل تھا۔ 
دو روز قبل کرفیو کی خلاف ورزی پر پکڑے جانے والے سرینگر کے ریحان نامی شخص کی خبر بھارتی ٹی وی پر دیکھی تو مجھے وہ ریحان یاد آگیا جو سات سال قبل مجھے دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ملا تھا۔ ریحان اس وقت وہاں پڑھتا تھا اور کشمیر کی آزادی کی جستجو اس کی آنکھوں سے جھلکتی تھی۔ میں پاکستان واپس آگیا مگرریحان سے سوشل میڈیا کے ذریعے کبھی کبھاررابطہ ہو جاتا تھا۔ یہ خون میں لپٹی کہانیاں بھی میں نے اس کے فیس بک وال پر پڑھی تھیں۔ دو دن ہوچلے، اس سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر وہاں شاید سوشل میڈیا کو ایک بار پھر غیر اعلانیہ بندش کا سامنا ہے۔ خدا کرے میرا کشمیری دوست خیریت سے ہو اور اب کی بار کوئی جگر چیرنے والی کہانی اس کی فیس بک وال پر موجود نہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں