سفرِ عشق ۔۔۔۔۔۔۔ (آخری قسط)

ہم کربلا پہنچے تو شام کے سائے گہرے ہوچکے تھے ۔دن بھر کی تپش آخری سانسیں لے رہی تھی جس کے باعث ہوا میں ٹھنڈک کا احساس بڑھ رہا تھا۔ہوٹل میں داخل ہوتے ہی ہمارے میزبان نے آواز لگائی کہ ابھی آرام کریں گے‘ روضہ امام حسین ؓ پر حاضری کل ہو گی ۔ سب صبح دس بجے تیار رہیں ۔یہ اعلان سنتے ہی میرے شوقِ ملاقات کو شدید دھچکا لگا ۔ سوچا تھا آج روبرو ہوں گے مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ مایوسی بڑھنے لگی تو اپنے دوست عبدالکریم کو لے کر ہوٹل کی چھت کا رخ کیا ۔ نظر گھما کردیکھا تو سار ا شہر سونے کی تیاری کر رہا تھا مگرحضرت امام حسین ؓ کا روضہ مبارک کالی رات میں اکلوتے چاند کی مانند جگمگاتا نظر آیا۔ میں جھوم اٹھا ۔ پھر رومی یاد آئے ۔ 
مردہ بُدم زندہ شُدم گریہ بدم خندہ شدم 
دولتِ عشق آمدومن دولتِ پایندہ شدم
(میں مردہ تھازندہ ہو گیا‘ گریہ کناں تھا مسکرا اٹھا‘ دولت ِ عشق کیا ملی کہ میں خود ایک لازوال دولت ہو گیا)
اگلے روز جمعہ مبارک تھا ۔ ہم روضہ امام حسینؓ کے لیے نکلے تو راستے کے مناظر حیرت زدہ کر رہے تھے ۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے اور مقامِ عشق کو پانے کی جستجو میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے۔ ہمیں بھی لگ بھگ ایک کلومیٹر پہلے گاڑی سے اترنے کا کہا گیا ۔ ہم نے ایسا ہی کیا اور پھرطویل بازار میں سے پیدل گزر کر روضۂ اقدس کی دہلیز تک پہنچے ۔ اب روضہ مبار ک آنکھوں کے سامنے تھا اور قدم بے ساختہ اسی جانب اٹھ رہے تھے ۔حرم کے کل دس دروازے ہیں اور ہر گیٹ پر رش ناقابلِ بیان۔ بازار کے سامنے سے اندر جانا مشکل نظر آیا تو ہم آگے والے دروازے پر چلے گئے ‘جسے باب القبلہ کہا جاتا ہے ۔ حرم کے اندر داخل ہوتے ہی من کی دنیا بدل گئی ۔ سوچ پر لگے پہرے خود بخود ہٹ گئے ۔ بے تابی ‘ بے قراری اور بے چینی کہیں پیچھے رہ گئی ۔ سرشاری اور بے خودی نے ہمیں گھیر لیا ۔ باب القبلہ سے اندر آئیں تو بائیں طرف مسجد ہے جہاں جمعہ کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔بالکل سامنے حضرت امام حسینؓ کے روضہ کی ضریح ہے جو باہر سے بھی صاف دکھائی دیتی ہے ۔ جمعہ کی وجہ سے حرم میں رش بڑھتا جا رہا تھا ۔ ایک لمحے کے لیے یوں لگا جیسے ضریح کے قریب جانا ممکن نہیں مگر پھر نہ جانے کہاں سے ہمت آئی اور انسانوں کا سمندر پار ہوگیا ۔اب میں ضریح کے سامنے بے سدھ کھڑا دل کی لذت کو جلا بخش رہاتھا۔ اس احاطے میں حضرت امام حسین ؓ کے ساتھ ان کے دوبیٹے علی اصغر ؓ اور علی اکبر ؓ ابدی نیند سو رہے ہیں ۔ تھوڑا پیچھے جائیں تو گنج ِ شہدا ہے ‘جہاں سانحہ کربلا کے تقریباًستر شہدا کو دفن کیا گیا ہے ۔حرم میں مسجد کے سامنے وہ جگہ ہے جہاں بدبخت شمر نے حضرت امام حسین ؓ کو شہید کیا تھا۔ حرم کا یہ حصہ آج بھی خونی رنگ میں رنگا ہے ۔ 
ہم کشتۂ عشق ہیں ہمارا 
میدان کی خاک ہی کفن ہے 
روضہ امام حسین ؓ پرجمعہ کی نماز باجماعت ادا کی تو یوں لگا جیسے دل کے زخموں کی رفو گری ہوئی ہو ۔حرم میں چار گھنٹے گزر گئے مگر تشنگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔آخر جانا تو تھا ‘ بوجھل قدموں کے ساتھ باہر آئے تو میزبان نے کہا : آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر حضرت عباس علمدارؓ کا روضہ ہے اب وہاںجانا ہے ۔یہ سنتے ہی طبیعت ہشاش بشاس ہوگئی جس کے بعد ہمیں چھوٹی کاروں میں بٹھا کر یہ فاصلہ طے کروایا گیا ۔یہ دیکھ کر اطمینان ِقلب ہوا کہ روضہ عباس علمدارؓ بھی حضرت امام حسینؓ کے روضہ کی طرح وسیع و عریض رقبے پر واقع ہے ۔ وہی شان و شوکت‘ وہی عقیدت مندوں کی بھیڑ ۔ سو ہم بھی حاجت گزاروں کی لائن میں لگے اور ضریح کے پاس پہنچ گئے ۔ ہزاروں لوگ بھیگی آنکھوں کے ساتھ دعائیں مانگ رہے تھے ۔ میں نے بھی دلی کیفیت بیان کردی ۔واپسی پر حرم کے بیرونی دروازے پر لگے مشکیزے پر نظر پڑی تو افتخار عارف کا شعریاد آگیا ۔ 
وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے 
مشکیزے سے تیر کا رشتہ بہت پراناہے 
واپس آئے تو پیاس سے برا حال تھا ۔ دو گھونٹ حلق سے نیچے اترے تو جان میں جان آئی ۔ پھر ایک گریہ کرتا خیال ذہن کی کھڑکی سے نمودار ہوا‘ ہائے ! شہدائے کربلا کی پیاس۔
اگلے دن نجف اشرف اور کوفہ کا قصد تھا کیونکہ حضرت علی ؓ کے ہاں سے بلاواآیا تھا۔ نجف شہر میں داخل ہوئے تو یوں لگا جیسے ہر طرف روحانیت کا راج ہو۔ اب میرا اپنے آپ پرکنڑول ختم ہورہا تھا۔ دل و دماغ خود بخود اطمینان اور سکون کی منزلیں طے کرنے لگے ۔ ہمیں بتایا گیا کہ اس شہر پر خدا کی خاص رحمت ہے ۔ یہاں صرف حضر ت علی ؓ ہی زیر خاک موجود نہیں ہیں بلکہ چار انبیا کی قبریں بھی نجف ا شرف میں ہیں ۔ روضہ حضرت علی ؓ پر لے جانے سے پہلے ہمیں مہمان خانے لے جایا گیا جہاں سفید چاولوں ‘ سالن اور کھیر سے ہماری تواضح کی گئی ۔ عربی انداز سے بنایا گیا یہ کھانا بہت ہی لذیز تھا ۔ یہاں سے فارغ ہوئے تو روضہ مبارک پر حاضری کا شرف حاصل ہوا ۔ وہ تمام باتیں جو دل کے تہہ خانے میں کتنے ہی برسوں سے قید تھیں چند منٹوں میں عرض کردیں ۔ اب چار سو سکون ہی سکون تھا ۔ایسا قرار‘ ایسا چین ‘ ایسا ٹھہراؤ پہلے سنا نہ دیکھا۔ علامہ اقبال کے یہ اشعار مجھے روضہ علی ؓ پر دوزانوں بیٹھ کر سمجھ آئے ۔
مسلمِ اؤل شہ ِ مرداں علی ...... عشق راسرمایۂ ایماں علی 
(پہلے مسلمان اور مردوں کے سردار علیؓ ہیں ۔ عشق کے لیے ایمان کا سرمایہ علی ؓ ہیں )
ازولائے دود مانش زندہ ام...... در جہاں مثل ِ گہر تابندہ ام 
( میں ان کے خاندان کی محبت سے زندہ ہوں اور دنیا میں موتیوں کی مانند چمک رہا ہوں )
حضر ت علی ؓ کے ہاںسے اجازت ملی تو ہم نے کوفہ کا رخ کیا ۔ جو نجف ا شرف سے دس منٹ کی دوری پر ہے۔ نہیں معلوم ! کب نجف ختم ہوا اورکب کوفہ کی حدود میں داخل ہوئے ۔ روحانیت کا اثر کیا ہوتاہے یہ اسی دن معلوم ہوا۔ اب ہم سب دوست مسجد کوفہ کے صحن میں کھڑے تھے جہاں بیٹھ کر چوتھے خلیفہ حضرت علی ؓ پچاس سے زائد ملکوں پر حکومت کرتے تھے ۔ یہ بہت دلکش اور من بھانے والی مسجد ہے ۔ آپ اس کے سحر میں گرفتار ہوئے بنا رہ ہی نہیں سکتے ۔ ہم نے نمازِ عصر ادا کی اور مسجد کے عقبی دروازے سے نکل کر حضرت علی ؓ کے گھر تک پیدل سفر کیا جو دو منٹ سے زیادہ کی مسافت نہ تھی ۔ وقت کے حکمران کا گھر دیکھ کر ہم عا لمِ حیرت میں چلے گئے ۔ گھر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا ایک طرف مہمان خانہ اور دوسری طرف اہلِ خانہ کی رہائش ۔ اتنی سادگی ‘اتنی نفاست ‘ اتنی عاجزی ۔ خدا کی پناہ ۔ تھوڑا سا دالان ‘ بل کھاتی تنگ راہ داریاں اور چھوٹے چھوٹے چھ کمرے ۔ حضرت علی ؓ کے گھر سے باہر نکلیں تو دائیں طرف وہ راستہ تھا جو گھرسے مسجد کوفہ تک جاتا تھا ۔ یہ راستہ آج بھی چودہ صدیاں قبل جیسا ہی کچا ہے ۔ وہ پگڈنڈی جس پر شیر خدؓا کے قدم پڑتے تھے ویسی ہی ہے ۔مگر اب یہ شارع عام نہیں ہے ۔
یہ سفرِ عشق یہاں تمام نہیں ہوتا مگرکیا کریں دامنِ تحریر میں گنجائش نہیں۔ امام علی نقیؓ اور امام حسن عسکری ؓ ،حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ‘ امام ابوحنیفہ ؒ‘ جنید بغدادیؒ اور حسین بن منصور حلاج کے ہاں حاضری بھی اسی سفر کا حصہ تھی مگر اب اسے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں