نواز شریف کبھی جیل نہیں جائیں گے؟

اس ملک کی سیاست کا المیہ ملاحظہ کریں! حکومت ہو یا اپوزیشن‘ سب کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا جھوٹ۔ سب ابراہیم کی چاہ کرتے ہیں مگر آتشِ نمرود میں کودنے کو کوئی تیار نہیں۔ سارے موسیٰ کو سراہتے ہیں مگر فرعون کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہونے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ تقریریں، بیانات اور نعرے وہ لگاتے ہیں جو صرف سیاست کے رسیا ہوں۔ جنہوں نے لڑنا ہوتا ہے وہ اپنے خاندان اور بچوں کے مستقبل کو عذر نہیں بناتے۔ وہ تو ''جوہر‘‘ (خودکشی)کی رسم کے لیے بھی ہر دم تیار رہتے ہیں، جیسے چتوڑ کے راجپوتوں نے جلال الدین اکبر اور علاؤالدین خلجی کے خلاف لڑتے ہوئے یہ ریت نبھائی تھی۔ تاریخ کا سبق ہے کہ دشمن کی گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دیا جاتا ہے‘ سہارا نہیں۔ میاں صاحب! اگر عوام کا درد ہے تو پاکستان آئیں، پھر جیل ملے یا رائیونڈ محل کی گدی۔ لڑائی لڑنی ہے تو میدان میں اتریں۔ لندن بیٹھ کرطعنہ زنی تو کی جا سکتی ہے‘ پنجہ آزمائی نہیں۔ سیاست ہو سکتی ہے جدوجہد نہیں۔ مسند ِ اقتدار کے لیے راستہ ڈھونڈا جا سکتا ہے‘ انقلاب کے لیے نہیں۔ عوام کی چیخیں سننی ہیں تو لاہور کی سڑکیں حاضر ہیں۔ فیض احمد فیضؔ نے بھی عوام کا روگ دل کو لگا کر فیض پایا تھا ؎ 
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے بہت لادوا نہ تھے
اپوزیشن کی کل جماعتی کانفرنس بھی ہو چکی، مشترکہ اعلامیہ اور ایکشن پلان بھی سامنے آ گیا۔ آپ نے محاورہ سنا ہو گا کہ اونچی دکان پھیکا پکوان۔ اپوزیشن نے مشترکہ قرارداد میں جتنے بڑے بڑے مطالبات رکھے ہیں ان کو منوانے کے لیے ایکشن پلان اُتنا ہی کمزور ہے۔ جو آنسو اپوزیشن نے بہائے ہیں‘ وہ پاکستان جیسے ملک میں چند ریلیوں اور جلسے جلوسوں سے صاف ہونے والے نہیں ہیں۔اگرچہ مطالبات کی بنیادی روح سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ سب کو آئین کی پاسداری کرنا چاہیے۔کوئی ایسا مطالبہ نہیں‘ جو جائز نہ ہو مگر سوال یہ ہے کہ اس کی نوبت کیسے آئی؟ آج جو الزامات تحریک انصاف کے سر ہیں‘ کل وہی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اٹھائے اٹھائے نہیں پھرتی تھیں؟ مان لیا تحریک انصاف نے کوئی ''بیچ کا راستہ‘‘ اختیار کیا ہو گا مگر کیا ماضی میں نواز شریف اور آصف زرداری اسی ڈگر پر نہ تھے؟
حیرانی کی بات یہ ہے کہ آصف زرداری نے تو اے پی سی میں بھی کوئی ایسی بات نہیں کی جو قابل اعتراض اور ناقابل فہم ہو۔ جو بولے‘ سوچ سمجھ کر بولے۔ یوں لگتا ہے کہ مولانا صاحب سے ایک بار پھر ہاتھ ہو گیا۔ قرارداد میں مطالبات مولانا فضل الرحمن کے مانے گئے مگر ایکشن پلان بڑی جماعتوں نے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق ترتیب دیا۔ تحریک عدم اعتماد اور اسمبلیوں سے استعفوں کے بغیر یہ تحریک بے وقت کی راگنی کے سوا کچھ بھی نہیں۔سادہ سا سوال ہے اور سادہ سا جواب۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت کو چھوڑنے کا رِسک کیوں لے گی؟ اور ن لیگ کبھی بھی نواز شریف کی واپسی کے بغیر نئے الیکشن میں نہیں جائے گی۔ دونوں جماعتوں کو دہائیوں کی سیاست کا تجربہ ہے وہ کبھی اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماریں گی۔ اب رہی بات کہ احتجاجی تحریک کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہے تو میرے خیال میں کورونا کے باوجود مولانا اپنے کارکنوں کو متحرک کر لیں گے مگر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سے یہ امید رکھنا ہی عبث ہے، ان تلوں سے تیل کب کا ختم ہو چکا۔
آل پارٹیز کانفرنس سے اپوزیشن کو کچھ حاصل حصول ہو نہ ہو مگر یہ ماننا پڑے گا کہ جانِ محفل میاں نواز شریف کی تقریر ہی تھی۔ یہ گفتگو کوئی مصلحت پسند نہیں کرسکتا۔ اس خطاب سے ایک بات واضح ہو گئی کہ ان کا لندن جانا کسی این آر اوکا نتیجہ نہ تھا بلکہ حالات نے پانی کی طرح اپنا راستہ خود بنایا تھا۔ میاں صاحب کانفرنس میں بولے اور خوب بولے۔ اتنا بولے کہ شہباز شریف کی ساری محنت کوگدلا کر دیا۔ صرف یہی نہیں، پوری پارٹی کو وہاں لے گئے جہاں یہ ایک سال پہلے کھڑی تھی۔ وہی بے یقینی، وہی بے قراری، وہی بے بسی۔ نواز شریف نے اُن سارے موضوعات پر بات کی جن کو چھیڑنا قدرے ہمت و حوصلے کا کام ہے، اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کے پاس گنوانے کے لیے ہے کیا؟ وہ تو پہلے ہی ساری قیمت ادا کر چکے۔ مجھے ذاتی طور پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کہ میاں صاحب نے اتنی بے باک تقریر کرنے کا خطرہ کیوں مول لیا؟ میری ذاتی معلومات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد گزرے چار ماہ سے یہ تقریر کرنا چاہ رہے تھے مگر کوئی مناسب موقع دستیاب تھا نہ خاندان کی سپورٹ۔ جس دن انہیں یقین ہو ا تھا کہ حکومت کسی طور مریم نواز کو لندن بھیجنے پر رضامند نہیں تو انہوں نے حالات سے بغاوت کرنے کا ارادہ اپنی فیملی کے سامنے رکھا جسے بہت کوششوں کے بعد ملتوی کروایا گیا۔ یہ بات طے ہے کہ شاید اب بھی میاں نواز شریف یہ تقریر نہ کرتے‘ اگر مریم نواز پاکستان میں نہ ہوتیں۔ میاں صاحب کشتیاں جلانے کو تیار ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کی پارٹی اور خاندان انہیں ایسا کرنے سے مسلسل روک رہے ہیں مگر کب تک؟
دوسری طرف حکومت نے بھی نواز شریف کو اس نہج پر پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ خطاب کچھ دن اور لیٹ ہو سکتا تھا مگر حکومت نے ایسا دانستہ طور پر نہ ہونے دیا۔ اس کی وجہ میں آپ کو بتاتا ہوں مگر اس سے پہلے سلمان خان کی فلم ''Wanted‘‘ کا ایک ڈائیلاگ یاد آ رہا ہے: ''غنی بھائی آپ انڈیا آئے نہیں بلکہ آپ کو ٹریپ کرکے لایا گیا ہے۔ پولیس نے آپ کے لیے حالات ایسے بنا دیے تھے کہ آپ کے پاس واپسی کے سوا کوئی راستہ نہ تھا‘‘۔ جس جس نے یہ فلم دیکھی ہے اسے میری بات زیادہ آسانی سے سمجھ آ جائے گی۔ واقفانِ حال نے خبر دی ہے کہ حکومت چند ماہ سے بہت پریشان تھی کہ شہباز شریف کی گرفتاری کیوں نہیں ہو رہی؟ میاں نواز شریف اور مریم نواز خاموش کیوں ہیں؟ مسلم لیگ ن کے سارے رہنما ایک ایک کرکے ضمانت پر کیوں رہا ہو رہے ہیں؟ کہیں کوئی ''گیم چینجر‘‘ سارے پلان تبدیل تو نہیں کروا رہا؟ کہیں اسلام آباد کا موسم بدلنے والا تو نہیں؟ یہ وہ خدشات تھے جو حکومت کی نیندیں اڑائے ہوئے تھے۔ حکومت اس کوشش میں تھی کہ میاں نواز شریف کچھ بولیں تاکہ اندازہ ہو سکے کہ آگ ابھی تک برابر لگی ہوئی ہے یا دلِ بے چین کو قرار آ چکا۔ دوسرا عوام کو پتا چل جائے کہ وہ کتنے بیمار ہیں اور کتنے نہیں؟ یہی وجہ تھی کہ گزشتہ دو ماہ سے کبھی مریم نواز اور کبھی نواز شریف کو ''پکارا‘‘ جاتا تھا، کبھی کہیں سے‘ کبھی کہیں سے۔ حکومت کامیاب ہوئی اور نواز شریف بول پڑے۔ اب حکومت شاد ہے بہت شاد۔ عباس تابش کی شاعری انسانی جذبوں کی ترجمان ہے۔ اشعار ملاحظہ کریں۔
اک دھوکے میں دنیا نے مری رائے طلب کی
کہتے تھے کہ پتھر ہوں مگر بول پڑا میں
یہ دیکھ مرا ہاتھ مرے خون سے تر ہے
خوش ہو کہ ترا مدمقابل نہ رہا میں
پتھر بولیں تو لہو نکلتا ہے‘ جذبات بولیں تو آنسو۔ میاں نواز شریف نے جو کہنا تھا کہہ دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی پارٹی کا لہو نکلتا ہے یا آنسو؟ایک بات نوشتۂ دیوار ہے کہ اس خطاب کا ردعمل آئے گا جس کو بھگتنا شہباز شریف کو ہے یا ان کی پارٹی کو۔میاں صاحب تو لندن میں ہیں اور ان کا فی الفور واپسی کا ارادہ بھی نہیں۔ شہباز شریف، رانا ثنا اللہ، شاہد خاقان، احسن اقبال اور خواجہ آصف تیاری کریں‘ اس تقریر کا لگان انہوں نے بھرنا ہے۔نواز شریف تو لیڈر ہیں‘ وہ اب کبھی جیل نہیں جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں