انقلاب زندہ باد!

آپ صبح کا دل نکال کر رات کے سینے میں دفن کر سکتے ہیں، دوپہر کی سانسیں چرا کر شام کو مزید سحر انگیز بنا سکتے ہیں۔ پہاڑوں کو صحراؤں میں تبدیل کر سکتے ہیں اورصحراؤں کو سمندر میں بدل سکتے ہیں مگر جو نہیں کر سکتے وہ سیاستدان کے دل سے اقتدار کی تمنا کا خاتمہ ہے۔ شباب سے بچھڑا ہوا ہر شخص اپنے شباب کی دنیا میں لوٹ جانے کا آرزو مند ہوتا ہے۔ ان دنوں میاں نواز شریف کے من میں بھی ایسی ہی حسرتیں مچل رہی ہیں۔ ان پر لندن کی تمام تر رعنائیاں اور لطافیتں جلوہ گر ہیں مگر وہ ماضی میں سانسیں لے رہے ہیں۔ کیوں؟ حکمرانی کی لت واقعی سب سے بڑی لت ہے اور حکومت کرنے کا نشہ سب سے بڑا نشہ۔
آرزو وصل کی رکھتی ہے پریشاں کیا کیا
کیا بتاؤں کہ میرے دل میں ہے ارماں کیا کیا
میاں نواز شریف شاید نہیں جانتے کہ وقتِ رفتہ کی یادیں پیڑوں کی چھاؤں کی مانند ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی انسان ان یادوں کی چھاؤں تلے بیٹھ کر دن سپنوں کی طرح گزارتا ہے اور راتیں شبِ وصال کی صورت، وہ ان لمحوں میں عجیب سا انبساط اور انوکھا سرور محسوس کرتا ہے، مگر بیشتر اوقات ماضی کی یادیں آدمی کو حبس بے جا میں مبتلا کر دیتی ہیں۔ جہاں انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے۔ بوتا کچھ ہے اور اُگتا کچھ ہے۔ ہر طرف بے بسی کا سایہ منڈلاتا رہتا ہے، انسان چاہ کر بھی پا نہیں سکتا اور کوشش کر کے بھی کھو نہیں پاتا۔ اگر غور کیا جائے تو نواز شریف بھی شبابِ رفتہ کی تلاش میں کہیں کے کہیں نکل گئے ہیں۔ انہیں کچھ یاد ہی نہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ''شجرِ ممنوعہ‘‘ کا پھل چکھنا کتنا بڑا جرم ہے۔ایک'شعلہ فشاں خنجر‘ ہر وقت آپ کے تعاقب میں رہتا ہے، جو اپنی چمکتی اور لرزتی ہوئی دھار سے سبھی 'بے کیف اور بے معنی‘ لوگو ں پر خوف طاری کیے رکھتا ہے۔
سیاست تو سب کر لیتے ہیں مگر تاریخ صرف ان کی دہلیز پر سجدہ کرتی ہے جو وقت پر فیصلے کرنے کا ہنر سیکھ لیتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میاں نواز شریف جیسے جہا ں دیدہ سیاست دان کو اس فن پر ملکہ حاصل نہیں‘ صرف اتنا کہنے کی اجازت چاہوں گا کہ وہ جوکہہ رہے ہیں‘ سب بے وقت کی راگنی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران جب چپ رہنے کا وقت تھا‘ وہ اتنا بولے کہ ساری پارٹی کو بھاری قیمت چکانا پڑی۔ الیکشن کے بعد جب میاں نواز شریف اور ان کے عہدِ شباب کے رفیقوں پر سیاست کرنا بند ہو رہا تھا تو وہ خاموشی کے مراقبے میں چلے گئے۔ یہ وہ دن تھے جب مسلم لیگ نون میں بولنا عیب تصور کیا جاتا تھا۔ مفاہمت ہی بہترین اصول تھا اور چپ سب سے بڑی سیاست۔ اب مجھ سمیت سیاست کا ہر طالب علم پریشان ہے کہ ایسی کون سی قیامت آ گئی ہے کہ میاں صاحب نے ایک ایک کر کے سارے عہد توڑ ڈالے۔ ہر اس بات کا جواب مانگ رہے ہیں جو سالوں پہلے بیت چکی۔ حکومت ہو یا اپوزیشن‘ سب کو معلوم ہے کہ اب اس بات کا کھوج لگانا قطعاً آسان نہیں کہ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ سے بے دخلی ان کے اپنے کیے کی سزا تھی یا کوئی سوچی سمجھی سازش؟ 2018ء کا الیکشن دھاندلی زدہ تھا یا عوام کے دل کی آواز؟ ان ساری باتوں پر اتنی گرد جم چکی ہے کہ کسی اکیلے سیاستدان کے لیے اسے صاف کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ قابل اجمیری کا شعر ملاحظہ ہو ؎
رنگِ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
ہو سکتا ہے کہ ''خود ساختہ جلاوطنی‘‘ کی اس رُت کے دوران میاں نواز شریف کے اندر شعور کی نئی روشنی بیدار ہوئی ہو اور انہیں صحیح معنوں میں سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کا ادراک ہوا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اب سیاسی سے زیادہ انقلابی ہوں۔ اگر ایسا ہے تو یہ ان کا دوبارہ جنم ہو گا کیونکہ جب تک کوئی انسان اپنی زندگی میں دوبارہ جنم نہیں لیتا اس کی حیثیت کتابِ ہستی میں کورے کاغذ کی سی رہتی ہے۔ وہ انقلابی ہونا تو دور‘ اس کے شعور سے بھی نابلد رہتا ہے۔ دوبارہ جنم کے بغیر انسان نظریہ بدل سکتا ہے‘ فطرت نہیں۔ راستہ تبدیل کر سکتا ہے‘ منزل نہیں۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ آج تک کوئی سیاست دان آخری عمر میں انقلابی نہیں بن سکا۔ ہاں البتہ! بہت سے انقلابی آخری دنوں میں اچھے سیاستدان ضرور بنے ہیں۔ نیلسن منڈیلا ہوں یا جارج واشنگٹن، لینن ہوں یا مائوزے تنگ‘ یہ سب لوگ پہلے انقلابی تھے بعد میں سیاست کے اوجِ کما ل کو پہنچے۔ ان تما م میں مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے آخری سانسوں تک اپنے بنیادی نظریات پر پہرہ دیا۔ مینڈیلا کا کہنا تھا: انقلابی سولی چڑھ جاتا ہے مگر اپنے نظریے کو بے آبرو نہیں کرتا۔ وہ جیتا ہے تو انقلاب کے لیے‘ مرتا ہے تو انقلاب کے لیے۔ انقلاب ہی اس کی زندگی ہوتی ہے انقلاب ہی موت۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف اب تک کتنی بار انقلابی ہوئے اور کتنی دفعہ انہوں نے اپنے بدلے ہوئے نظریات کی حفاظت کی؟ اسّی اور نوے کی دہائیوں کو چھوڑ دیں‘ وہ ان کی سیاسی بلوغت کے دن تھے۔ صرف جنرل پرویز مشرف کے زمانے کے نواز شریف صاحب کی سیاست کا بغور جائزہ لیں تو سارے عقدے خود بخود کھل جائیں گے۔ جدہ کے سرور پیلس میں وہ جس جس سے بھی ملے‘ اپنے انقلابی ہونے کا دعویٰ ضرور کیا۔ واپس آئے تو ان کے لہجے میں تلخی قائم تھی، جس کا اظہار انہوں نے کھلے عام ٹی وی انٹرویوز میں بھی کیا۔ مشرف کے مارشل لاء کے سارے زخم انہوں نے کھول کھول کر دکھائے، مگر پھرکیا ہوا؟ کیاکوئی اس سے انکار کر سکتا ہے کہ 2013ء کے الیکشن سے قبل ان کے اندر کا انقلابی میاں شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کی 'مفاہمت‘ کی نذر ہو گیا تھا؟ رات کے اندھیرے میں ہونے والی ملاقاتوں نے انہیں دوبارہ سیاسی نہیں بنا دیا تھا؟ تیسری بار وزیراعظم بن کر انہوں نے ''غیر آئینی مداخلتوں‘‘ کا راستہ روکنے کی کوئی کوشش کی تھی؟ کیا ہر ''نازک معاملے‘‘ پر انہوں نے سیاسی فیصلے نہیں کیے تھے؟ 2017ء میں وزارتِ عظمیٰ سے چھٹی کے بعد بھی انہوں نے جو ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تھا‘ اس کی گونج ایک سال کے اندر اندر ہی ان کے سکوت میں دب کر رہ گئی۔
خدا خدا کرکے میاں نواز شریف صاحب اگر ایک بار پھر انقلابی بن گئے ہیں تو انہیں چاہیے کہ دنیا کے تمام بڑے انقلابوں کے بارے میں پڑھیں یا نہ پڑھیں‘ بارھویں صدی میں سکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے آزادی کی بنیاد رکھنے والے انقلابی رہنما ولیم والس کی زندگی کا مطالعہ ضرور کریں۔ ولیم والس کا ماننا تھا کہ مرتے سب ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کون کیسے اور کیوں مرا؟ یہ شخص 35 برس زندہ رہا مگر تاریخ اسے چاہ کر بھی مار نہ سکی۔ یہ آج بھی دنیا بھر کے انقلابیوں کا مرشد ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کا نہیں‘ قوم کا محافظ تھا۔ وہ تختہ دار پر کھڑا تھا، موت سر پر منڈلا رہی تھی مگر اس لمحے بھی اس نے اپنے لیے رحم نہیں‘ قوم کے لیے آزادی طلب کی تھی۔
صحرا میں بھوک سے بلکتے ہوئے انسان کو سوکھی روٹی بھی بہت لذیذ معلوم ہوتی ہے کجا کہ من و سلویٰ اتر آئے۔ سیاست بیزار قوم کے لیے انقلاب کی باتیں ایسی موسیقی کی طرح ہوتی ہیں جو سننے والے کو خوابوں کی دنیا میں پہنچا دیتی ہے جہاں وہ اپنے دل کی دھڑکنیں سنتے اور تصورات کی پرچھائیاں دیکھتے ہیں۔ خدارا! اس قوم پر رحم کھائیں۔ سیاست کے لیے لوگوں کو سبز باغ مت دکھائیں۔ وہ نعرے نہ لگائیں جو پورے نہیں کر سکتے، وہ خواب مت دکھائیں جن کی تعبیر ممکن نہیں۔ یہ قوم تہتّر سالوں میں درجنوں بار سیاست کی سوکھی شاخوں پر اپنا لہو چھڑک چکی ہے‘ اب مزید کی گنجائش نہیں۔ ہاں! اگر انقلاب لانا ہے تو لندن چھوڑ کر پاکستان آئیں‘ قید و بند کا سامنا کریں‘ سارا ملک آپ کا ہم آواز ہوگا۔ ہر طرف 'انقلاب زندہ باد‘ کی صدائیں گونجیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں