Child's War

میں جب بھی مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم عمران خان اور دوسرے طاقت کے ستونوں کو للکارتے دیکھتا ہوں تو مجھے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹر سر Josiah Child یاد آ جاتے ہیں۔ 1681ء میں کمپنی کے بہت سے اہلکار سر چائلڈ کے پاس شکایت لے کر آئے کہ نواب آف بنگال کے اہلکار ٹیکس اور دیگر انتظامی معاملات میں بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ یہ سن کر چائلڈ طیش میں آ گیا اور اس نے نواب کو سبق سکھانے کا پلان بنایا۔ سب سے پہلے چائلڈ نے انگلینڈ میں موجود بادشاہ کو خط لکھا کہ اسے فوجی مدد مہیا کی جائے۔ جلد ہی اس کی عرضی کی شنوائی ہوئی اور لندن سے ایک بڑا بحری بیڑہ ہندوستان کی طرف روانہ کر دیا گیا جس میں انیس جنگی جہاز، دو سو توپیں اور چھ سو فوجی سوار تھے۔ بنگال کا نواب شائستہ خان مغل بادشاہ اورنگزیب کا بھانجا تھا‘ جو اس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کا امیر ترین اور طاقتور حکمران تھا۔ یہ سب جانتے بوجھتے بھی چائلڈ گھبرایا نہیں اور اس نے مغلوں پر دھاوا بول دیا۔ معروف تاریخ دان ولیم ڈلریمپل (William Dalrymple) اپنی کتاب The Anarchy: The Relentless Rise of the East India Company میں لکھتے ہیں کہ مغل فوج نے برطانوی سپاہیوں کو مکھیوں کی طرح مارا، ان کی فیکٹریاں تباہ کر دیں،کمپنی کے ملازمین کو زنجیروں سے باندھ کر شہروں میں گھمایا گیا اور پھرانگریزوں کو بنگال بدر کر دیا گیا۔ اس ذلت آمیز شکست کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کو سمجھ آگئی کہ ان سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے۔ کمپنی نے نہ صرف بادشاہ سے معافی مانگی بلکہ بھکاریو ں کی طرح زمین پر لیٹ کر فیکٹریو ں کی واپسی کے لیے التجائیں بھی کیں۔ آخرکار 1690ء میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے کمپنی کو معاف کر دیا۔ تاریخ اس جنگ کو آج بھی Child's War کے نام سے یاد کرتی ہے۔ 
ایسٹ انڈیا کمپنی کی یہاں تک کی کہانی مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری سمیت پی ڈی ایم کی ساری قیادت کے لیے سبق ہے کہ مخالف کی طاقت کا اندازہ ہونے کے باوجود اس سے ٹکرانا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ یاد رہے! جنگ چھیڑنا آسان ہوتا ہے مگر اس کی بھاری قیمت کوئی کوئی ادا کر سکتا ہے۔ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے تِلوں میں وہ تیل ہے ہی نہیں جو مزاحمت کی آبیاری کرتا ہے، جو ضمیر کے تالے کو لگے زنگ صاف کرتا ہے۔ اپوزیشن کی ان پارٹیوں میں وہ اخلاقی قوت بھی نہیں جو جابر سلطان کے آگے کلمۂ حق کہنے کا معیار ہوتی ہے۔ آج جنہیں برا بھلا کہا جا رہا ہے یہ کبھی مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے ''مرشد‘‘ ہوا کرتے تھے۔ پانچ دہائیوں کا سبق ہے کہ یہ دونوں جماعتیںجب بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں داخل ہوئیں، انہی 'حماموں‘ سے نہا کر گئیں۔ یہ سب اندر باہر سے ایک جیسے ہیں، یہ ایک دوسرے کے بھیدی ہیں اور اب لنکا ڈھا رہے ہیں۔ یقین مانیں! ان پارٹیو ں میں جرأت اس بچے جتنی ہے جو پڑوسیوں کے گھر کی بیل بجا کر بھاگ جاتا ہے اور کبھی کسی کے آنے کا انتظار نہیں کرتا۔ پی ڈی ایم کے جلسے جلوس بھی تب تک ہیں جب تک گھر کے 'اصل مالک‘ دروازے سے باہر نہیں آ جاتے اور وہ تب آتے ہیں جب انہیں احساس ہو جاتا ہے کہ بیل لمبی ہو رہی اور سماعتوں کوناگوار گزر رہی ہے۔ میرے منہ میں خاک مگر ایسا ماضی میں ہو چکا ہے۔ ایک بار نہیں چار بار۔ یہ ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ اگر خدا نخواستہ اب بھی ایسا ہوا تو کون ذمہ دار ہو گا؟ پھر پی ڈی ایم کی قیادت کیا کرے گی؟ اپنا سر پیٹے گی یا مقدر کو دوشی ٹھہرائے گی؟ 
سب مانتے ہیں کہ جلسے جلوس اور احتجاج جمہوریت کے حسن کا جوبن ہوتے ہیں مگر ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ میرے نزدیک یہ وقت احتجاج کا ہرگز نہیں ہے۔ کورونا کا سانپ عوام کی سامنے پھن پھیلائے کھڑا ہے اور اپوزیشن کہتی ہے: کوئی بات ہی نہیں۔ نجانے کیوں اپوزیشن سمجھنے سے قاصر ہے کہ جنگی حالات میں عیش و عشرت کا تقاضا نہیں کیا جاتا۔ بھوک سے لوگ مر رہے ہوں تو سوکھی روٹی بھی من و سلویٰ سے کم نہیں ہوتی مگر پی ڈی ایم کو کون بتائے؟ چلیں! ایک لمحے کے لیے پوری اپوزیشن کو ضدی اور خودسر مان لیتے ہیں مگردل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں، کیا حکومت کا چلن درست ہے؟ ملتان جلسے کو حکومت نے مِس ہینڈل کرکے اپوزیشن کی تحریک میں نئی روح پھونک دی ہے۔ حکومت اور عوام کے بیچ ایک بھرم ہوتا ہے جو قانون کے ترازو میںجب تک برابر تُلتا ہے‘ حکومت کی رٹ قائم رہتی ہے۔ جب یہ ترازو حکومت کی خواہشوں کے بوجھ سے ایک طرف جھک جاتا ہے تو انارکی جنم لیتی اور مزاحمت پروان چڑھتی ہے۔ پھر کون سی حکومت اور کون سا بھرم‘ سب کچھ مٹی میں مل جاتا ہے۔ ایسا ملتان میں ہو چکا اور اب لاہور کی باری ہے۔ کیا حکومت اس بار اپنا بھرم قائم رکھنے کی کوشش کرے گی؟
قدیم کہاوت ہے کہ اگر چھلانگ لمبی لگانی ہو تو الٹے قدموں چل کر پہلے پیچھے کی طرف جانا پڑتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو اگر عوام کے حالات سے کوئی دلچسپی ہے تو انہیں بھی چند قدم پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ حالات خود بخود بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ محترم وزیراعظم کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اگراپوزیشن کی وجہ سے ملک میں کورونا وائرس پھیلا تو اس کی ساری ذمہ داری حکومتِ وقت پر ہی آئے گی۔ ملک کے ہسپتال اور قبرستان بھرے تو تاریخ انہیں کن الفاظ سے یاد رکھے گی؟ احتجاجی تحریک شہر شہر پھیلی تو پہلے سے بدحال معیشت کا کیا بنے گا؟ آپ حکومت کے سربراہ ہیں‘ کل کو ساری جوابدہی آپ سے ہو گی، پھر آپ کے پاس کیا عذر ہو گا؟ جناب وزیراعظم! اپوزیشن کو جلسے جلوسوں سے روکنا آپ کا کام ہے مگر طاقت سے نہیں‘ حکمت سے۔ غصے سے نہیں محبت سے۔ زیادہ دور مت جائیں! 2014ء میں طالبان سے مذاکرات اور آپریشن ضربِ عضب کے لیے سیاسی اتفاقِ رائے درکار تھا تو اُس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف خود چل کر آپ کے گھر آئے تھے۔ یہی نہیں، جب 16 دسمبر 2014ء کو پشاور میں اے پی ایس کا سانحہ ہوا تو کل جماعتی کانفرنس میں میاں نواز شریف نے آپ کی طرف خود ہاتھ بڑھایا تھا، حتیٰ کہ آپ دھرنے میں گزشتہ پانچ ماہ سے بلاناغہ انہیں برا بھلا کہہ رہے تھے۔ خدارا! حالات کی نزاکت کو سمجھیں، اگر ذوالفقار علی بھٹو پی این اے کی قیادت سے مذاکرات کر سکتے ہیں تو آپ اپوزیشن کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھ سکتے؟ نواز شریف اور بے بینظیر برسوں کی رقابت بھلا کر میثاقِ جمہوریت سائن کر سکتے ہیں تو آپ دل بڑا کیوں نہیں کر سکتے؟ 2008ء میں مسلم لیگ نون جنرل پرویز مشرف سے حلف لے سکتی ہے اور 2011ء میں قاف لیگ پیپلز پارٹی کی اتحادی بن سکتی ہے تو آپ کیوں دیر کرتے ہیں؟ سیاست میں کوئی مستقل دوست ہوتا ہے‘ نہ دشمن۔ وقت اور حالات فیصلے کرواتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں کہ آپ کو اس کا ادراک نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آج ایم کیو ایم اور قاف لیگ آپ کی اتحادی نہ ہوتیں۔ بڑے بڑے جاگیردار اور صنعتکار آپ کی کابینہ کا حصہ نہ ہوتے۔ اب ایک فیصلہ اور کرنا ہے‘ بس اتنی گزارش ہے تھوڑا جلدی کیجئے‘ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔ 
چائلڈز وا ر کے بعد کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کہانی پی ڈی ایم اور ملک کے اصل بڑوں کے لیے بھی سبق ہے۔ پی ڈی ایم یاد رکھے کہ اپنی قوت بڑھا کر ہی طاقتور کے ساتھ پنجہ آزمائی ہو سکتی ہے جیسے کہ بعد ازاں ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا تھا۔ ملک کی بالادست قوتوں کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ مغل بھلے کتنے ہی بڑے جنگجو تھے مگر آخری جیت ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہوئی تھی۔ پی ڈی ایم نے اگر ظرف اور استقامت کا مظاہر ہ کیا تو پانسہ پلٹ بھی سکتا ہے۔ ہر جنگ کا نتیجہ چائلڈز وار جیسا نہیں ہوتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں