یہ سال اتنا بر ابھی نہیں تھا

یہ سال بھی عجیب تھا‘ صد شکرکہ گزر گیا۔ آندھیاں ساتھ لایا تھا اور طوفان چھوڑ گیا۔ موت کا بیوپار کرنے نکلا تھا سوچوں کا قبرستان بنا کر چلا گیا۔ آج دنیا بھر میں خوف کا راج ہے ، ہسپتالوں میں دہشت اور انسانوں کو انسانوں سے وحشت ہے۔ سارا سال یوں لگتا رہا جیسے زمیں خون اُگل رہی ہو اور آسماں آگ برسا رہا ہو۔ صبح میں تازگی تھی نہ شام میں رومانس۔ پھولوں کے رنگ بھلے لگے نہ بارش کی جھنکار۔ چار سو اداسی تھی‘ اداسی ہے۔ دل بھی ویران‘ گلیاں بھی سنسان۔ ہر آنکھ سے اشکوں کے جھرنے بہے اورہردل سے خون رسا۔ انسانوں نے سارے جتن کر لیے مگر بے سود۔ خدا ہی آخری سہاراتھا ، خدا ہی آخری سہارا ہے۔
شاخیں رہیں تو پھول بھی‘ پتے بھی آئیں گے
یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے 
اس خوفناک بیماری نے ہمارا صرف ایک سال ہی نہیں کھایا بلکہ لوگوں سے احساسِ ذمہ داری بھی چھین لیا ہے۔ ہمیں اپنوں کی فکر رہی ہے نہ غیروں کی۔ بچوں کا احساس رہا نہ بوڑھوں کا۔ یقین مانیں ، یہ برس ہمارے اند ر کے انسان کو بھی ساتھ لے گیا ہے۔ سال شروع ہوا تھا تو کورونا وائرس ایک بیماری تھی اور اب سال کے اختتام پرکورونا وائرس ایک مذاق بن چکا ہے۔ ایسے ایسے لطیفے اور میمز سامنے آرہے ہیں کہ دیکھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور دل بھی روتا ہے۔ ان'' دیوانوں‘‘ کو کون بتائے کہ قیامت کی گھڑی ہے جوکٹنے کا نام نہیں لے رہی۔یہ وقت مذاق کا نہیں‘ سنجیدہ ہونے کا ہے۔ وقت آہ وزاری کرنے کا نہیں آنسو صاف کرنے کا ہے ،اپنے بھی اور احباب کے بھی۔ کبھی کبھی تویوں محسوس ہوتا ہے جیسے لمحۂ موجود ساکت ہو گیا ہواور آتشِ عذاب بجھنا بھول گئی ہومگر پھر خیال آتا ہے کیا زندگی کسی کے لیے رکتی بھی ہے ؟ 
کورونا وائرس کی تباہ کاریاں اور اس سے لگنے والے روگ اپنی جگہ مگر میرے نزدیک سال2020ء اتنا بر ابھی نہیں تھا۔یہ سال کورونا وائرس کے علاوہ اور بھی بہت سے حوالوں سے یاد رکھا جائے گا۔ اس سال بہت کچھ ہوا ، کچھ اچھا‘ کچھ برا۔ برا توسب کو ذہن نشین ہے مگر اچھے کو یاد کرنے کی ضرورت ہے۔ شاید ایسے ہی دلوں اور دماغوں پر لگے گھائو کا مداوا ہو سکے۔
(1) جب تک ملک میں سیاست کی سانسیں چلتی رہیں گی یہ سال بھولے گا نہیں۔ یہ وہ سال تھا جب سیاستدانوں نے مزید ''دبنے‘‘ سے انکار کردیا۔ تاریخ میں پہلی بار کسی جمہوری دور میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تحریک چلائی گئی۔ سیاستدانوں نے اپنے قد سے بڑی باتیں کیں۔ مفاہمت کو موت ملی اور مزاحمت کو زندگی۔ سیاسی شعور گلی گلی پہنچا۔ اچھے کو اچھا کہا گیا اور برے کو برا۔ایسی ایسی'' شخصیات‘‘ کو نام لے کر پکارا گیا کہ خدا کی پناہ! کوئی بتا دے‘ پہلے ایسا کب ہوتا تھا؟ یقین نہیں آتا تو مولانا فضل الرحمن، نوا ز شریف، غفور حیدری، اختر مینگل، بلاول بھٹو اور مریم نواز کی تقریریں سن لیں۔ کسی نیک نام کا لحاظ تو کجا ''باہمی احترام‘‘ بھی سرے سے غائب ملے گا۔ سیاست کے کورے کاغذ پر مزاحمتی بیانیہ اس رنگ اور ڈھنگ سے پہلی بار لکھا گیا۔ میرا احساس ہے کہ یہ سال باغیوں کا سال تھا۔ یہ سال کیسے یاد نہیں رہے گا؟
(2)کچھ ''بڑوں‘‘ کی ''دور اندیشیاں‘‘ تھیں اور کچھ حکومت کی غلط فہمیاں، یہ سال مریم نواز اور بلاول بھٹو کو لیڈر بنا گیا۔ مریم نواز کو لندن جانے دیا جاتا اور شہباز شریف کو گرفتار نہ کیا جاتا تو پی ڈی ایم کے عزائم اتنے خوفناک نہ ہوتے۔ مریم نواز کے اندازِ سیاست سے آپ بھی اختلاف کرسکتے ہیں اور میں بھی مگرایک بات ماننا پڑے گی محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد پہلی بار سیاست کے سٹیج پر کسی خاتون کو پذیرائی ملی ہے۔ تیرہ سال بعد کسی عورت کے نعروں پر لبیک کہا گیا‘ یہ ہمارے مردانہ معاشرے کے لیے امید ِصبح ہے۔ حقوقِ نسواں کی بات کرنے والے جب تک زندہ ہیں یہ سال بھی زندہ رہے گا۔
(3) سال 2020ء میں ہماری حکومتوں کو احساس ہوا کہ صحت کا شعبہ کتنا اہم ہے۔ جس ملک میں اچھے ہسپتال اور بہترین ڈاکٹرز نہیں ہوتے وہاں انسانی زندگی کتنی قابلِ رحم ہوتی ہے۔ کورونا کی وجہ سے ہی سہی‘ حکومت نے صحت کو ترجیح تو دی۔ پاکستان جو اس سال سے پہلے ماسک تک نہیں بناتا تھا اب اپنی ضرورت کے مطابق وینٹی لیٹرزبھی بنا رہا ہے۔ کہیں کورونا کی ٹیسٹنگ کِٹس بنائی جارہی ہیں تو کہیں ویکسین کے لیے ہاتھ پاؤں مارے جارہے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں کیا یہ ہمارے لیے اچھی خبریں نہیں ہیں ؟
(4)اس سال کی سب سے اہم بات یہ رہی کہ پاکستان میں ٹیکنالوجی کو فروغ ملا۔ آن لائن کاروبار کرنے والوں کی چاندی ہوئی اور گھر سے کام کرنے کا رواج عام ہوا۔ وہ خواتین جو گھر وں سے باہر نہیں جاسکتی تھیں‘ ان کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اب وہ گھروں میں بیٹھ کر آن لائن جاب بھی کررہی ہیں اور کاروبار بھی۔ کیا یہ رجحان ہماری معیشت کے لیے سود مند نہیں ہے ؟
(5)پاکستان جیسا ملک جو قرضوں کے بوجھ تلے دبا تھا‘ اسے اپنی معیشت کو نئی سمت دینے کا بھر پور موقع ملا۔ نہ صرف پرانے قرضوں کی قسطیں مؤخر ہوئیں بلکہ نئی امداد بھی آئی۔ برآمدات میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی ترسیلاتِ زر بھی بڑھیں۔ ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مستحکم ہوا۔ شرحِ سود کم ہوئی اور مہنگائی بھی۔ پوری دنیا میں کاروبار آدھا رہ گیا مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوا۔ کیا ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہونا چاہیے؟
(6)لاک ڈاؤن کے دوران لوگو ں کوا حساس ہوا کہ روزمرہ کے معاملات میں اتنی تیزی بھی ضروری نہیں ہوتی۔ زیادہ بھاگ دوڑکیے بنا بھی زندگی کا پہیہ چل سکتا ہے۔ لوگوں کوسوچنے کے لیے وقت ملا اور انہیں محسوس ہوا کہ باہر کی دنیا بھی اہم ہوتی ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم ہے اندر کی دنیا۔ انسانی خواہشات بھی ضروری ہیں اور روحانی تسکین بھی۔ کورونا وائرس نظر نہیں آتا مگر اس نے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں۔ دنیا سے محبت پیچھے رہ گئی اور روحانیت کا سفرتیز ہونے لگا۔ یہ سب کورونا کے بعد ہوا۔ کیااس کے بعد بھی ہم اس سال کو برا کہیں گے ؟
(7)یہ سال سفارت کاری کے محاذپر بھی اہم رہا۔ دوست اور دشمن الگ الگ ہو گئے۔ نہ صرف کچھ خلیجی ممالک سے تعلقات کی نوعیت واضح ہوگئی بلکہ چین ، ترکی اور ایران بارے پالیسی بھی دنیا نے جان لی۔قرضہ واپس مانگنے والے اور نیا قرضہ دینے والے الگ الگ صفوں میں جاکھڑے ہوئے۔ برسوں کا بھرم ایک سال میں ختم ہوگیا۔
(8)کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہوا، سڑکیں ویران اور کارخانے بند ہوئے تو فضائی آلودگی میں کمی دیکھنے میں آئی۔ شہروں میں بسنے والوں نے پہلی بار تاروں بھرے آسمان کا نظارہ کیا اوردیہاتیوں نے تاحدِ نگاہ ہریالی دیکھی۔ سانس کی بیماریوں میں کمی واقع ہوئی۔ پوری دنیامیں پہلے سے زیادہ درخت لگائے گئے۔
(9) امریکا کو کبھی آئیڈیل تصور کیا جاتا تھا۔ کورونا وائرس کے بعد یہ خیال ایک بت کی طرح پاش پاش ہوگیا۔ امریکا جیسی سپر پاور کورونا وائرس کے سامنے بے بس نظر آئی۔ دنیا نے دیکھا کہ امریکا کا ہیلتھ سسٹم کتنا خطرنا ک اور نجی کمپنیوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ کورونا وائرس نے ڈونلڈ ٹر مپ کا اصل چہرہ بھی دنیا کو دکھا دیا۔ اگر کورونا نہ آتا تو شاید ٹرمپ اگلے چار برس بھی وائٹ ہاؤس کا مکین رہتا۔
(10) سال 2020 ء میں مودی سرکار بری طرح بے نقاب ہوئی۔بھارت کی انتظامی صلاحیت پر نہ صرف سوالات کھڑے ہوئے بلکہ صحت کے شعبے کی وجہ سے جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اورکشمیر میں جیسے ظلم کی داستانیں رقم کی گئیں‘ یہ سب دنیا نے دیکھا اور بھارتی حکومت کوہدف ِ تنقید بنایا‘ اس لیے یہ سال اتنا بھی برا نہیں تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں