پی ڈی ایم کی ناؤ میں سوراخ ہے؟

ظہیر الدین بابر 1524ء میں پنجاب فتح کر چکا تو اس کی نگاہیں دلی پر لگ گئیں۔ اپنا یہ سپنا پورا کرنے کے لیے بابر بیس ہزار فوجی لے کر پانی پت پہنچ گیا۔ اب سامنے دلی کا حکمران ابراہیم لودھی ایک لاکھ فوجیوں کے ہمراہ کھڑا تھا اور ہزاروں بدمست ہاتھی۔ بابر کے ساتھیوں نے پیچھے ہٹ جانے کا مشورہ دیا تو بابر نے تاریخی الفاظ بولے ''ہر جنگ کا ایک وقت ہوتا ہے، وقت گزر جائے تو جنگ اور مصلحت میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ دلی آج ہی فتح ہو گا۔ کل کس نے دیکھا ہے‘‘۔ تاریخ گواہ ہے کہ پھر بیس ہزار فوجیوں نے ایک لاکھ کے لشکر کو شکست دی۔ مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں پی ڈی ایم بھی انہونی کر سکتی تھی مگر اس نے جنگ کے بجائے مصلحت کا راستہ اختیار کیا۔ اب عوام کی آنکھوں سے آنسو ٹپکیں یا بدن سے ٹیسیں اٹھیں، پی ڈی ایم کو کیا۔ میر تقی میرؔ یاد آتے ہیں۔ 
آزردہ خاطروں سے کیا فائدہ سخن کا
تم حرف سر کرو گے ہم گریہ سر کریں گے
پی ڈی ایم کے پاس موقع تھا‘ وہ عوام کی دلجوئی کر سکتے تھے اور افسردہ روحوں کی ڈھارس بندھا سکتے تھے۔ رنج اور دکھ کی آگ میں جلتے لوگوں کو مرہم فراہم کر سکتے تھے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے، پی ڈی ایم ایک نہیں، دس گھروں کی ہانڈی ہے۔ اس ہانڈی میں کیا پکنا ہے اور کتنا؟ اگر یہ فیصلہ ہونے کا نام نہیں لے رہا تو عوام کی بھوک کون مٹائے گا؟ درد کی شدت کوکم کون کرے گا؟ احساسِ زیاں کو نیا جذبہ کون بخشے گا؟ سوال یہ ہے کہ پی ڈی ایم تاحال مطلوبہ مقاصد کیوں حاصل نہ کر سکی؟ جواب یہ ہے کہ پی ڈی ایم حالات کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہی۔ دس جماعتوں کا یہ اتحاد عوام کے بپھرتے جذبات کو اپنی طرف موڑ سکتا تھا اگر وہ تحریک انصاف کے 2014ء والے دھرنے سے کچھ سیکھ لیتے۔ دشمن کی ناکامی میں بہت سی قوت پنہاں ہوتی ہے مگر پی ڈی ایم نے یہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش تک نہیں کی۔ اگر تحریک انصاف کی لاحاصل مشق کی پیشانی پڑھ لی جاتی تو پی ڈی ایم غیر معمولی فائدہ اٹھا سکتی تھی مگراب پچھتائے کیا ہوت... پی ٹی آئی کے دھرنے اور پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک میں جو قدریں مشترک ہیں‘ وہ ووٹ کی چوری اور جعلی مینڈیٹ کا نعرہ ہے۔ پی ٹی آئی کے دھرنے میں بھی حکمرانوں کو صبح شام کوسنے دیے جاتے تھے اور اب پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے دھرنوں میں بھی عوام کی دلچسپی دھیرے دھیرے کم ہو گئی تھی اور اب پی ڈی ایم کے جلسوں میں بھی لوگوں کی تعداد روز بروز گھٹتی جا رہی ہے۔ آج کی حکمران جماعت کے دھرنوں کی کہانی ماضی کا قصہ ہو چکی مگر پی ڈی ایم کے پلوں کے نیچے سے ابھی سارا پانی نہیں گزرا۔ وہ سوچ بچار کر سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ اپنی غلطیوں کو سدھار سکتے ہیں کیونکہ ابھی ان کی ناکامی کا نقارہ نہیں بجا۔
126 دن بعد دھرنا ناکامی کی دھول اڑا کر ختم ہوا تو عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھ خالی تھے۔ جذبات نہیں، دل و دماغ کے دیے جلائیں تو معلوم ہو گا دونوں ناکام کیوں ہوئے؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی چودہ لاشیں اور ووٹ چوری کا نعرہ کام کیوں نہ کر سکا؟ میرا احساس یہ ہے کہ دونوں کا ایجنڈا عوامی نہیں تھا۔ وہ مہنگائی کی بات کر رہے تھے نہ لوڈشیڈنگ کی۔ تعلیم کا رونا رو رہے تھے نہ صحت کے نظام کی بدحالی کا۔ جب عمران خان اور طاہر القادری عام آدمی کی بات نہیں کر رہے تھے تو لوگ ان کے ساتھ کیوں چلتے؟ سانحہ ماڈل ٹائون یقینا افسوسناک تھا مگر یہ عوام سے زیادہ عوامی تحریک کے کارکنوں کا مسئلہ تھا جبکہ ووٹ چوری تحریک انصاف کا ذاتی مسئلہ تھا‘ عام آدمی کا نہیں۔ پاکستانی عوام کا سیاسی شعور ابھی وہاں نہیں پہنچا جہاں ووٹ ذاتی تجوری جتنا اہم سمجھا جاتا ہے۔ اگر چوری ہو جائے تو آسمان سر پر اٹھانا پڑتا ہے۔ ہڑتالیں اور دھرنے دینا پڑتے ہیں، جب جا کر کہیں شنوائی ہوتی ہے۔
پی ڈی ایم آج وہی غلطی کر رہی ہے جو تحریک انصاف ماضی میں کر چکی۔ اس وقت بھی اپوزیشن جماعتوں کا ایجنڈا ذاتی دکھائی دیتا ہے نہ کہ قومی۔ مسلم لیگ ن کے اپنے دکھ ہیں اور پیپلز پارٹی کے اپنے۔ مولانا فضل الرحمن کی اپنی رنجشیں ہیں اور اے این پی کی اپنی۔ محمود خان اچکزئی کے اپنے مسئلے ہیں اور نیشنل پارٹی کے اپنے۔ میری نظر میں کوئی بھی عوام کی صحیح معنوں میں ترجمانی نہیں کرتا۔ صر ف حکمرانوں کو نااہل، ناتجربہ کار اور بدعنوان کہنے سے عوام کی آزردہ دلی کا علاج نہیں ہوتا۔ لانگ مارچ کو ''مہنگائی مارچ‘‘ کا نام دینے سے مہنگائی کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ عا م آدمی کی آواز بننا پڑتا ہے اور جہدِ مسلسل کا عَلم اٹھانا پڑتا ہے۔ دھوپ چھاؤں، گرمی سردی اور آندھی طوفان سے بے نیاز ہونا پڑتا ہے پھر جا کر کہیں پتھروں سے پانی رستا ہے اور ازل سے تشنہ لب تر ہوتے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں‘ کیا پی ڈی ایم ایسا کر رہی ہے؟ کیا ان کا اتحاد مثالی ہے؟ کیا وہ سب اپنے اپنے تعصبات کی چادر اتار پائے ہیں؟
ملک کے معاشی حالات آج جتنے گمبھیر ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں آج جتنے تنگ ہیں‘ پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ آٹا، چینی، گندم، پٹرول، ادویات کے سکینڈلز اور کرپشن پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ نے حکومت کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے مگر پھر بھی پی ڈی ایم اس کا فائد ہ نہیں اٹھا سکی۔ کیوں؟ میرے نزدیک اس کی تین بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ پی ڈی ایم عوام میں یہ تاثر قائم کرنے میں ناکام رہی ہے کہ یہ تحریک عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے ہے۔ یہ تحریک ملک کی ڈوبتی ناؤ کو پار لگانے کے لیے ہے۔ یہ تحریک سیاسی نہیں عوامی ہے۔ اس تحریک کا مقصد نواز شریف اور آصف زرداری کو ریلیف دلانا نہیں بلکہ عوام کو معاشی گرداب سے نکالنا ہے۔ دوسرا بڑی وجہ وہی غلطی ہے جس کا عمران خان اور طاہر القادری نے بھی ارتکاب کیا تھا تھا یعنی اعتماد کی کمی۔ نواز شریف‘ آصف زرداری پر اعتماد کرتے ہیں نہ آصف زرداری نواز شریف پر۔ بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمن سے خائف رہتے ہیں اور مولانا، بلاول بھٹو کے اندازِ سیاست کے قائل نہیں۔ پی ڈی ایم میں موجود لبرل جماعتیں مذہبی سیاسی جماعتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں لبرل نقطۂ نظر کو۔ چاروں طرف بداعتمادی کی فضا ہے اس لیے پی ڈی ایم کے لیے نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ تیسری بڑی وجہ یہ کہ اپوزیشن جماعتوں میں کنفیوژن سب سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی ف لانگ مارچ اور دھرنے سے حکومت گرانا چاہتے ہیں اور اگر پھر بھی بات نہ بنی تو اسمبلیوں سے استعفے کا آپشن کھلا ہے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی ہے جو آج بھی دھرنا دینے پر راضی ہے نہ استعفے دینے کی قائل۔ و ہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے اور لانگ مارچ کرنے کی خواہاں ہے۔ وہ اسلام آباد میں زور زبردستی کی سیاست چاہتی ہے نہ کوئی آئینی بحران۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے‘ اگر اسلام آباد میں استعفے دے کر آئینی بحران کھڑا کیا گیا تو سندھ سرکار بھی مشکل میں پڑ جائے گی جو پیپلز پارٹی کسی صورت نہیں چاہتی۔ ان کی دلی خواہش ہے کہ سسٹم بھی چلتا رہے اور وزیراعظم بھی نہ رہیں۔
ایسا نہیں کہ پی ڈی ایم مکمل ناکام ہوئی ہے۔ بڑی جماعتو ں کے سیاسی اتحاد کبھی زیادہ نتیجہ خیز ہوتے ہیں اور کبھی کم۔ محسوس ہوتا ہے غیر سیاسی قوتیں زیادہ متحرک نہیں رہیں شاید پی ڈی ایم کے بیانیے کی وجہ سے۔ اسے پی ڈی ایم کی پہلی کامیابی کہا جا سکتا ہے؟ یہ مزید کامیابیاں بھی سمیٹ سکتے ہیں اگر اپنی صفوں میں موجود بداعتمادی اور کنفیوژن کو دور کریں اور سب سے بڑھ کر عوام کی درست سمت میں ترجمانی کرنا شروع کر دیں۔ اگر اپوزیشن جماعتیں یہ کر سکیں تو ٹھیک‘ ورنہ پی ڈی ایم کی ناؤ میں موجود سوراخ بڑھتا جائے گا۔ ناؤ میں پڑا شگاف کتنا خطر ناک ہوتا ہے‘ یہ کوئی ٹائی ٹینک کے مسافروں سے پوچھے۔ کیا پی ڈی ایم کی قیادت ٹائی ٹینک کے انجام سے کچھ سیکھے گی؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں