حکومت، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم…(2)

قدیم کہاوت ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے۔ آصف علی زرداری صاحب کی تجویز سب کو پسند آئی۔ شاید اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا کیونکہ ہمارے سیاسی کلچر میں سیاسی پارٹیوں میں فیصلے فردِ واحد ہی کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کیا اور مسلم لیگ (ن) کیا۔ تحریک انصاف کیا اور جے یو آئی (ف) کیا‘ سب اپنے اپنے لیڈرز کے اسیر ہیں۔ یوں پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم سے ناتا توڑنے کا فیصلہ موخر کر دیا۔ بلاول بھٹو پی ڈی ایم کے اجلاسوں میں جاتے رہے اور حکومت کی مخالفت میں گرجتے رہے۔ پیپلز پارٹی کی کوششیں ایک بار پھر رنگ لائیں اور پی ڈی ایم کو ضمنی اور سینیٹ الیکشن کے لیے راضی کر لیا گیا۔ اب سب سے بڑا متحان یہ درپیش تھا کہ اسلام آباد کی سینیٹ کی سیٹ پر الیکشن کون لڑے گا۔ اگر اصولی طور پر دیکھا جاتا تو مسلم لیگ (ن) کے نمبر زیادہ تھے امیدوار ان کا ہونا چاہیے تھا مگر پیپلز پارٹی نے یوسف رضا گیلانی کا نام دے دیا اور (ن) لیگ انکار نہ کر سکی۔ اس کے بعد کیا ہوا‘ سب کو معلوم ہے۔ پیپلز پارٹی سینیٹ کی دو سیٹیں زیادہ لے اُڑی۔ البتہ زرداری صاحب کاخواب پورا ہوتے ہوتے رہ گیا اور یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ بنتے بنتے ہار گئے۔
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
یہ سب قسمت کا کھیل ہے۔ ایک انسان کی تدبیر ہوتی ہے اور دوسری تقدیر ہوتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی چیئرمین سینیٹ کا الیکشن جیت جاتی تو شاید کچھ اور وقت گزر جاتا۔ شاید پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں بھی پیپلز پارٹی کی ''سیاسی بصیرت‘‘ کی قائل ہو جاتیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنے تین ماہ پہلے کیے ہوئے فیصلے کاغیر اعلانیہ اعلان کر چکی۔ استعفے نہیں دیں گے‘ کسی صورت نہیں دیں گے۔ یہاں کچھ سوالات ہیں جو ذہن کی کھڑکی سے نمودار ہو رہے ہیں۔ کیا پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا؟ کیا پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم مؤثر آواز بن سکے گی؟ کیا زرداری صاحب کے اس فیصلے سے بلاول بھٹو کی سیاست کو نقصان ہوگا؟ پیپلز پارٹی سندھ حکومت بچا کر اپنی سیاست کو پاتال میں تو نہیں پھینک دے گی؟ پی ڈی ایم نے جو سیاسی سپیس حاصل کی تھی‘ کیا وہ دوبارہ ہاتھ سے تو نہیں نکل جائے گی؟ کیا باقی اپوزیشن کے لیے لانگ مارچ اور استعفوں کا آپشن کھلا رہے گا؟ اور سب سے بڑھ کر‘ کیا حکومت کو بے فکری کی چادر تان کر سو جانا چاہیے کہ پی ڈی ایم کا قصہ تمام ہو گیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے رویے سے مایوس ہوئے ہیں مگر وہ اس سب کے باوجود پیپلز پارٹی کو حکومت کی صفوں میں کھڑا کرنے کو تیار نہیں۔ دونوں رہنما چاہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو فری ہینڈ دے دیا جائے۔ وہ پی ڈی ایم کا حصہ بھی رہے اور اختلاف کی صورت میں الگ پوزیشن بھی لے لے۔ وہ استعفے دینا چاہے تو ضرور دے، نہ دینا چاہے تو پھر بھی اسے پی ڈی ایم سے الگ نہ کیا جائے۔ وہ لانگ مارچ اور دھرنے میں آنا چاہے تو بسم اللہ، نہ آناچاہے تو اس کی مرضی۔ پیپلز پارٹی اگر پی ڈی ایم کی طاقت نہیں بن سکتی تو اُسے اپوزیشن اتحاد کی کمزور ی بھی نہ بنایا جائے۔ پی ڈی ایم کی باقی نو جماعتیں لانگ مارچ، دھرنے اور استعفوں کا فیصلہ کر چکی ہیں؛ تاہم لگتا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد اگر ہوا تو رمضان کے بعد ہی ہو گا۔ اگر اختلافات نے شدت اختیار نہ کی تو پیپلز پارٹی لانگ مارچ کا حصہ بن سکتی ہے مگر دھرنا اور استعفے نہیں دے گی۔ جانکاری رکھنے والے کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ بلاول بھٹو پی ڈی ایم سے دستِ تعاون دراز رکھنے کے حق میں تھے مگر آصف زرداری صاحب کا موقف مختلف ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ سندھ سرکار کی قربانی دے کر (ن) لیگ کی وفاقی حکومت تک راہ ہموار کی جائے۔
ہمایوں نے اپنے بھائی کے خلاف جنگ کی اورکا بل واپس لے لیا۔ جنگ کے بعد دونوں بھائی صلح کی میز پر بیٹھے تو ہمایوں نے تاریخی الفاظ بولے: آؤ! مل کر سوریوں سے دلی واپس لیتے ہیں۔ ایک ہمیشہ ایک ہوتا ہے جبکہ دو‘ دو نہیں بلکہ گیارہ ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کو بھی یاد رکھنا ہوگا طاقت کی اپنی کشش ہوتی ہے۔ پی ڈی ایم سے پہلے اپوزیشن کا کیا حال تھا؟ اور پی ڈی ایم بننے کے بعد طاقت کا مرکز کیسے تبدیل ہوا۔ وہ سیاستدان جو سرگوشیوں کی زبان جانتے تھے‘ دیکھتے ہی دیکھتے کیسے جلسوں میں دھاڑنے لگے تھے۔ اب اِس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ پی ڈی ایم کسی حادثے کا نتیجہ تھی یا مکمل منصوبہ بندی کا۔ ایک بات جو نوشتۂ دیوار ہے وہ یہ کہ پی ڈی ایم نے اپوزیشن کو بے پناہ قوت دی۔ حکومت پہلی بار اپوزیشن سے گھبرائی گھبرائی نظر آئی۔ میاں نواز شریف، مریم نواز، مولانا فضل الرحمن اور بلاول بھٹو نے جس طرح بے باکی دکھائی‘ کیا یہ سب پی ڈی ایم کے بغیر ممکن تھا؟ کیا اتنے بڑے پیمانے پر جلسے اور ریلیاں کوئی ایک جماعت کر سکتی تھی؟ وہ جو کبھی مکمل طور پر ایک پیج پر تھے‘ کیا انہوں نے پی ڈی ایم بننے کے بعد اپنی اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی؟ کچھ مہینوں کے لیے سہی‘ کیا وہ نیوٹرل نہیں ہوئے؟ کیا انہوں نے حکومت کو نہیں کہا کہ سیاسی معاملات سیاستدان ہی حل کریں؟ اگر یہ سب ہوا ہے تو پھر پی ڈی ایم کو ایک ناکام تحریک کیسے کہا جا سکتا ہے؟ غورکریں تو پیپلزپارٹی کے حصے میں بھی بہت کچھ آیا۔ جو جماعت پنجاب میں ایک جلسہ نہیں کرسکتی تھی‘ اسے لاکھوں لوگوں سے مخاطب ہونے کا موقع ملا۔
اگر صورت حال کا ٹھنڈے دل کے ساتھ تجزیہ کیا جائے تو پیپلز پارٹی کا نقطہ نظر بے منطق نہیں ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ جلسے جلوسوں پر مشتمل تھا اور دوسرا پارلیمانی سیاست پر۔ جلسے جلوسوں کے نتیجے میں حکومت قدرے پریشان ضرور ہوئی مگر یہ پریشانی ایک حد تک تھی۔ دوسرے مرحلے میں پی ڈی ایم کی سیاست نے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے۔چاروں صوبوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں حکومتی امیدواروں کو شکست ہوئی۔ ڈسکہ الیکشن میں جس طرح حکومت نے بوکھلاہٹ کا مظاہرہ کیا‘ کیا وہ پی ڈی ایم کی کامیابی نہیں تھی؟ اگر حکومت اتنی پاپولر ہوتی تو کیا اسے ''دھند‘‘ کا سہارا لینا پڑتا؟ اور پھر جس طرح الیکشن کو کالعدم قرار دیا گیا، کیا اس کی مثال پہلے کبھی ملتی ہے؟ رہی سہی کسر سینیٹ الیکشن میں پوری ہو گئی۔ ملک کا وزیر خزانہ الیکشن ہار گیا اور وزیراعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑا۔ وہ وزیراعظم جن کے بارے مشہور ہے کہ وہ صرف خالی چائے پلاتے ہیں‘ انہیں ایم این ایز اور سینیٹرز کے لیے ایک نہیں‘ دو دو دعوتوں کا اہتمام کرنا پڑا۔ وزیراعظم صاحب‘ جو پہلے اسمبلی نہیں آتے تھے‘ تین دن تک پارلیمنٹ میں حاضر رہے۔ حکومت اتنی پریشان تھی کہ اوپن بیلٹ کے لیے سپریم کورٹ گئی، آئینی ترمیم لائی اور صدارتی آرڈیننس جاری کیا مگر اس کی دال نہ گل سکی۔ یہ سب پی ڈی ایم کی پارلیمانی سیاست کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا۔ پی ڈی ایم اگر ضمنی اور سینیٹ الیکشن میں حصہ نہ لیتی تو کیا حکومت کو یہ سب کچھ دیکھنا پڑتا؟
اگر زرداری صاحب نے اینٹ سے اینٹ بجانے والے بیان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کانواز شریف سے بدلہ لیا ہے تو آج نہیں تو کل پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی راہیں جدا ہو جائیں گی اور اگر ایسا نہیں ہے تو سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے مسئلے پر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے والا ہے۔ بس کچھ دن اور انتظار۔ رہی بات حکومت کی‘ تو حکومت کے لیے راوی ابھی چین نہیں لکھتا۔ پی ڈی ایم کے پاس پیپلز پارٹی کے بغیر بھی تین سو سے زائد نشستیں ہیں‘ اگر استعفے دیے گئے تو اسلام آباد اور لاہور میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اس بحران کے نتیجے میں حکومت گھر جائے یا نہ جائے‘ حالات کی ڈور اس کے ہاتھ سے ضرور پھسل جائے گی۔ پھر یہ ڈور پی ڈی ایم کے ہاتھ آئے گی یا کسی اور کے، اس کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں